Thursday 5 October 2017

October 05, 2017
2
کنیر(گنڈیرے)کئی طبی خصوصیات کا حامل ایک جھاڑی نما سدابہارپودا ہے جس پرتقریباً سارا سال خوبصورت پھول کھلتے رہتے ہیں۔ پنجابی اور اُردو میں اس کو "کنیر " کہتے ہیں، پختون خوا کے بعض علاقوں میں اس کو "گنڈیرے" کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ انگریزی میں "اولینڈر" کہتے ہیں۔ اس کا نباتاتی نام "نیریم اولینڈر"ہے۔ لمبے گہرے سبز پتوں اور ٹہنیوں سے بھری ہوئی یہ جھاڑی نما پودا بہت سخت جان ہوتا ہے، تیز گرمیوں اور کم پانی میں بھی اس پر سارا سال پھول کھلتے رہتے ہیں۔ کنیر کی ٹہنیوں کے اُوپر سفید، گلابی، سرخ، زرد، ہلکے نارنجی اور ہلکے عنابی رنگ کے پھول لگتے ہیں ۔ پھول جھڑنے کے بعد اس میں ایک پھلی بنتی ہے، بیچ  پکنے پر پھلی پھٹ جاتی ہے ، بیجوں کے اُوپر ہلکے ہلکے روئے ہوتے ہیں جو اس کو ہوا میں اُڑنے میں مدد دیتے ہیں۔   نیریم اولینڈر خاندان کے اس رکن کا اصل وطن موریطانیہ،مراکو،پرتگال بتایا جاتا ہے جہاں سے یہ بحیرہ روم کے علاقے سے ہوتا ہوا امریکہ کے مشرقی ساحل، ایشیا اور جنوبی چین تک کو اپنا گھر بنا چکا ہے۔چونکہ یہ  پودا سخت گرمی کو برداشت کرسکتا ہے اور  کم پانی میں بھی خوب پھلتا پھولتا ہے اس لئے دنیا کے اکثر گرم علاقوں میں اس کی نشونما خوب ہوتی ہے۔ پاکستان کے تقریباً تمام علاقوں میں کنیر کا پودا پایا جاتا ہے ۔ گلابی رنگ کے پھولوں کا پودا عام ملتا ہے۔ پاکستان میں اکثر سڑکوں کے کناروں یا درمیان میں گرین بیلٹس پرعام طور پر کنیر کے پودے لگائے جاتے ہیں۔  امریکہ میں کیلیفورنیا کے ہائی ویز اور سڑکوں کے کنارروں پر یہ پودے اپنی سخت جانی کی وجہ سے لگائے گئے ہیں جن کی اندازاً تعداد 25ملین سے زیادہ ہے۔کنیر اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ طبی لحاظ سے بھی بے مثال شہرت رکھتا ہے،کنیر بنیادی طور پر ایک زہریلا پودہ ہے،بے احتیاطی سے استعمال نقصان دے سکتا ہے اس کا زہریلا مواد زیادہ مقدار میں کھائے جانے پر نظام ہضم دل کے افعال اورنروس سسٹم پر اثر انداز ہوتا ہے،اس وجہ سے مستند حکیم ہی اسے ادویہ میں استعمال کریں تو بہتر ہے۔ ذائقہ میں بد مزہ کڑوے پھول ورموں کو تحلیل کرنے جوڑوں کے درد کمر درد شیاٹیکا میں بے حد مفید ہیں،پھولوں کا رس چہرہ کے نکھار کے لیے بہترین چیز ہے لیکن آنکھوں کو نقصان دے سکتا ہے احتیاط ضروری ہے۔سفید پھولوں سے بنی نسوار پرانے نزلہ اور اس سے بننے والی دماغی رطوبتوں کے علاج میں نہائت مفید ہے۔اس کی مسواک کڑوی ضرور ہے لیکن پائیوریا جیسے مرض میں اسے اکثیر آعظم مانا گیا ہے۔اتنی خوبیوں کے حامل اس پودے کا حق بنتا ہے کہ اسے غیر ملکی فضول بلکہ نقصان دہ پودوں کی جگہ سڑکوں کے کنارے،شاہراہوں کی سبز پٹیوں،پارکوں،باغوں میں فروغ دیا جائے۔



کنیر کا پودا آسانی سے اُگایا جاسکتا ہے۔ اس کے چھوٹے پودے کسی بھی نرسری سے مل جاتے ہیں جو کہ قیمتاً بھی سستے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ جھاڑی نما پودا ہے اس لئے اس کو بطور باڑ استعمال کیا  جاتا ہے۔ سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹس پر اُگانے کیلئے یہ ائیڈیل تصور کیاجاتا ہے۔ اس پودے کی نسبتاً مضبوط ٹہنیوں کو سردیوں کے اختتام پر کاٹ کر قلمیں بنا کرگملوں میں لگانے سے نئےپودے بھی حاصل کیئے جاسکتے ہیں۔ کنیر کے پودے کو کاٹ چانٹ کر خوبصورت ڈیزائن میں بھی سیٹ کیا جاسکتا ہے۔ پھولوں کو ٹہنیوں سمیت کاٹ کر گلدانوں میں پانی میں رکھ کر کئی دنوں تک گھر کے اندرسجایاجاسکتا ہے۔ چونکہ اس کا ذائقہ کڑوا اور تاثیر زیریلی ہوتی ہے اس لئے آوارہ جانوروں کی کی خوراک بننے سے بچا رہتا ہے اور یہ تقریباًواحد پودا ہے جس کو بکری نہیں کھاتی۔ اس لئے دیگر پودوں کے اردگرد یا باغ باغیچوں کے گرد اس کے باڑ لگا کرآسانی سے اُگا کر دیگر پودوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ 

2 comments:

  1. Awesome :)Blog very informative blog. :) Visit our blog Islamabad :pEscorts, Islamabad Escorts (h) (k) (f)

    ReplyDelete