Friday 24 October 2014

October 24, 2014
1
تحریر: نعیم خان
گزشتہ دن مینگورہ میں ایک خاتون نے شکایت کی جس کو سن کر مجھے موجودہ حکومت کی تبدیلی کے نعرے یاد آئے۔ بقول خاتون مینگورہ کے گرلز پرائمری سکولز میں محترم اُستانیوں نے بچیوں کو اس بار سردیوں کے موسم کے لئے یونیفارم تبدیل کرنے کا کہا ہے اور اب کی بار سرخ رنگ کی سکارف یا چادر اور جرسی سوئیٹر کے بجائے کالے رنگ کی سکارف/چادر اور جرسی /سوئیٹر لانے کا سختی سے حکم دیا ہے اور ساتھ میں یہ فرمان بھی جاری کیا ہے کہ پرانے اور کسی کے استعمال شدہ چادریں/سکارف/جرسی و سوئیٹرز سکول مت لانا، صرف اور صرف نئے۔ یہ کہتے ہوئےان خاتون کی آنکھوں میں عجیب کیفیت دیکھی انہوں نے آگے بتایا کہ سرکاری سکولوں میں تو باقاعدہ صفائی کے لئے جھاڑو، پوچا وغیرہ، کولر، گلاس، بلب وغیرہ وغیرہ کے لئے بھی بچیوں سے پیسے مانگے جاتے ہیں۔
پشاور واپس آنے کے بعد ضلع سوات کی ای ڈی او تعلیم (خواتین) کی آفیسر کو فون کرکے مدعا بیان کیا اور اُس خاتون کی شکایت کی بابت گزارش کی۔ اُنہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے میری بات سنی ، بتای کہ اُن کی طرف سے سکول یونیفار کا کوئی نیا آرڈر جاری نہیں ہوااور میرا فون نمبر نوٹ کرکے متعلقہ سکول کی اُستانیوں سے بات کرنے کی یقین دھانی کرنے اور دوبارہ مجھے بتانے کا کہہ دیا۔ تھوڑی دیر بعد اُن کا واپسی فون آیا اور اطلاع دی کہ متعلقہ سکول کی اُستانیوں سے بات ہوگئی ہے اور وہ آج سکول میں بچیوں کو بتا دیں گی کہ سکول یونیفارم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
پہلے تو میں  ای ڈی او خواتین (تعلیم) پرائمری ضلع سوات کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے تحمل سے میری بات سنی اور بخوبی تمام کارروائی کرکے دوبارہ اطلاع بھی فراہم کی۔ ساتھ ہی تمام سکولوں کی اُستانی صاحبان سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی اپنی طرف سے سکول بچیوں کو نہ ڈانٹیں اور روز نئی نئی چیزوں کے مطالبات نہ کریں۔ جو لوگ سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں تو یقیناً وہ غریب ہوتے ہیں جو پرائیوٹ سکولوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارے ملک میں ایک سروے کے مطابق تقریباً ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں (بحوالہ بی بی سی رپورٹ) اوراب چونکہ ہماری حکومت بچوں کی تعلیم خاص کر بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہی تو ایسے موقع پر بچیوں کی حوصلہ افزائی کیجئے نہ کہ اُن کو ڈانٹ ڈپٹ کر نئے نئے احکامات جاریں کرکے اُن کو ڈرائیں۔ بے شک تمام اُستانیاں اپنی تمام طالبات کو اپنے بچوں کی طرح دیکھتی ہیں اور یہی چاہتی ہیں کہ اُن کی طالبات بھی اُن کے اپنے بچوں کی طرح صاف ستھرے نظر آئیں اور خوبصورت یونیفارمزو کپڑوں میں ملبوس ہوں۔ تمام محترم اساتذہ کے اس پیار کی ہم قدر کرتے ہیں مگر بہت سارے لوگ جو اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجتے ہیں بار بار نئے یونیفارم کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔
اے ملالہ! مجھے کوئی غرض نہیں کہ آپ اس مقام تک کیسے پہنچی، آپ کے والد نے لابنگ پر کتنے ڈالرز خرچ کئے اور میڈیا نے آپ کو غیر معمولی کوریج دے کر کیوں اور کیسے زیرو سے ہیرو بنا دیا، خوشی اس بات کی ہے کہ ایک پختون بچی، پاکستان کی بیٹی اور سوات کی دختر کو دنیا کے اعلیٰ اعزازات میں سے کئی ایک سے نوازا کیا اور نوازا جا رہا ہے۔ چونکہ آپ، ملالہ یوسفزئی سوات میں خواتین اور بچیوں کی تعلیم کا نعرہ لے کر آئیں ہیں اور اسی وجہ سے تمام دنیا میں پزیرائی حاصل کررہی ہیں اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ کم از کم اپنے ضلع سوات کی خواتین و بچیوں کی تعلیم کے لئے سرگرم ہوجائیں، اسی بات کا عندیہ آپ  نےابھی محمد مالک صاحب کو ٹی وی انٹر ویو میں بھی دیا کہ آپ سوچ رہی ہیں  کہ نوبل انعام کی رقم سے بچیوں کی تعلیم کے لئے کام شروع کریں مگر یہ فائنل کرنا باقی ہے کہ اپنے علاقے سے علاقائی سطح پر یا ملکی سطح پر یا بین الاقوامی  سطح سے کام کی ابتداء کریں۔
ملالہ آپ جہاں سے بھی ابتداء کریں اس مٹی کو بھولنا نہیں، یہیں سے دنیا نے آپ کو پہچانا ہے، ایک مقام حاصل کرنا ایک انعام جیتنا آسان ہے مگر اس حیثیت کو برقرار رکھنا کمال کی بات ہے۔ ٹائم میگزین کے مطابق آپ دنیا کی دس بااثر ترین ٹین ایجرز میں سے ہیں آپ کی بات دنیا کے ہر فورم پر غور سے سنی جاتی ہے۔ اگر آپ اپنے فنڈ بنام "ملالہ فنڈ"  سے کم از کم ضلع سوات میں حکومت کے تعاون سے سرکاری سکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے، اساتذہ (خاص کر خواتین اساتذہ) کی نئے خطوط اور جدید ٹیکنیکس پر اُن کی تربیت کے انتظامات کرنے میں مدد فراہم کریں، خواتین کو ایک باعزت ٹرانسپورٹ سروس فراہم کرنے، ہسپتالوں میں خواتین و بچیوں کے لئے دواؤں و ڈاکٹرز سمیت میڈیکل آلات کی دستیابی کو یقینی بنانیں، یونیورسٹی کی اُس طالبہ کو مالی مدد کی فراہمی کو یقینی بنائیں جو ہے تو نہایت ذہین، مگر اُس کا حق کوئی اور لے اُڑتا ہے،  تو پھر واقعی یہ نوبل ایوارڈ کیا ہر انعام کی حقدار آپ ہیں۔
One Pen, One Book, One Child & One Teacher can change the World.
Malala Yousafzai

1 comments:

  1. ملالا سے نہ جانے کیوں پاکستانی عوام اتنی نفرت کرتے ہیں لکین اگر ملالا سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور خواتین کی ترقی کے لئے کام کرے تو وہ پاکستانی عوام کے لئے بھی ہیرو بن سکتی ہے ..

    ReplyDelete