Saturday 10 August 2013

August 10, 2013
2
اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہمیں بہت ساری نعمتوں سے نوازہ ہے اُن میں سے ایک روائیتوں کا گلدستہ بھی ہے جس میں طرح طرح کے پھول اور کلیاں موجود ہیں۔ انہی روائیتوں میں سے میرے علاقے کی ایک بہت خوبصورت روائیت عید کی صبح فجرکی نماز کے بعد اپنے بزرگوں کی قبروں پر حاضری اور فاتحہ خوانی ہے۔ میں سوات کا باشندہ ہوں، مینگورہ میں میرا گھر ہے اور مینگورہ شہر کے بیچوں بیچ دوچھوٹی پہاڑی چوٹیوں پر یہاں کے قبرستان ہیں۔ اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے یہ قبرستان شہر سے فاصلے پر تھے مگر بڑھتی ہوئی آبادی ، پھیلتے ہوئے شہر ، اب یہ قبرستان بالکل شہر کے درمیان واقع ہیں۔ سوات کے قبرستانوں کی ایک خوبصورت بات یہ بھی ہے کہ بیشتر قبرستانوں میں قبروں پر تبرک کے طور پر زیتون کے درخت لگائے جاتے تھے، اب بھی سوات کے دور دراز علاقوں میں قبرستانوں میں یہ جنگلی زیتون کے درخت موجود ہیں یہاں عرف عام میں قبرستانوں  میں موجود ان درختوں کے جھنڈ کو "بنڑ" (ب ن ڑ) کہا جاتا ہے ۔ مگر حکومت کی بے توجہی اور عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ بنڑ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں ، درختوں کی بے دریغ کٹائی اور دوبارہ شجر کاری نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے قبرستان بھی اب ویران ہوگئے ہیں اور یہی حالت مینگورہ کے ان قبرستانوں کی بھی جن پر کسی زمانہ میں زیتوں کے ہرے بھرے درخت ہوا کرتے تھے۔ ان دو قبرستانوں سے ملحقہ پہاڑی مشہور زمانہ "زمرد"کے کان ہیں جہاں سے سوات کے ریاست کے زمانے سے لے کر اب تک کان کنی کی جاتی ہے اور یہ قیمتی پتھر یہاں سے نکال نکال کر پتہ نہیں کون کہاں کہاں بیچتا ہے۔ سوات کے اس کان کا"زمرد" بہت اچھی کوالٹی کا ہے اور دنیا میں اس کی بڑی مانگ ہے ، خیر میں تو نہ ان معدنیات سے دلچسپی رکھتا ہوں اور نہ ہی کبھی یہ چیزیں استعمال کیں ہیں۔ مگر یہ ہمارے ملک کا ایک قیمتی اثاثہ ہے جس کی آمدنی کا ظاہری طور پر کوئی فائدہ نہ ہمارے علاقے کو ہے اور نہ ملک کو ۔ اب مینگورہ کے باسیوں اور ملک کے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے اس کان کی پہاڑی پر گھر بنا لئے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق ان گھروں میں اُنہوں نے کئی کئی میٹر لمبی سرنگیں کھود رکھیں ہیں جو کہ "زمرد"دھونڈنے کے لئے غیر قانونی طور پر استعمال کی جا رہی ہیں۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی ، بات ہو رہی تھی مقبروں پر فاتحہ خوانی کہ تو جناب یہ قبرستان اب شہر کے بالکل درمیان واقع ہیں اور یہاں کے شہری بڑی آسانی سے یہاں تک آجا سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ان میں نئی قبروں کی گنجائش باقی نہیں رہی اور مینگورہ شہر کے لئے ایک بڑے قبرستان کی ضرورت اولین ترجیحات میں سے ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ لوگوں کے ہاں یہ رواج ہے کہ نہیں مگر سوات کے لوگ عیدین کی صبح اپنے بزرگوں کی قبروں پر حاضر ہو کر فاتحہ خوانی کرنے جاتے ہیں۔ فجر کی نماز کے فوراً بعد علی الصبح لوگ قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں ۔ ہم جیسے لوگ جو اپنے گھروں اور علاقے سے دور رزق کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں اُن کے لئے یہ ایک بہت اچھا موقع ہوتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں سے ملاقات کی جائے کیونکہ ہر کوئی اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ کے لئے آیا ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں جہا ں پر زندگی کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے (بلکہ اب ہر جگہ) وہاں پر اپنے بزرگوں کو جیتے جی بھی کوئی نہیں پوچھتا ۔ اب تو پاکستان میں بھی "اولڈہوم" کھل گئے ہیں جہاں پر ایسے بزرگوں کو رکھا جاتا ہے جن کو اُن کی ناخلف اولاد نے گھروں سے بے گھر کردیا ہوتا ہے حالانکہ گھراُن کے بسائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں کی ایک اور مہربانی یہ بھی ہے کہ اپنے جانے کے بعد بھی ہمیں اپنی قبروں پر اکٹھا کرکے رکھتے ہیں۔ یہ بھی ہماری روائیتوں کا ایک خوبصورت رنگ ہے کہ ہم اپنی خوشی کے مواقع پر اپنے بزرگوں اور اُن لوگوں کو یاد رکھتے ہیں جو دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اُن کے ایثال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی اور تلاوت قرآن پاک کے سوا میرے خیال میں اور کوئی بہتر تحفہ نہیں ہے۔ اب جب ہجرہ ، بیٹھک، ڈیرہ کا تصورہمارے معاشرے سے معدوم ہوتا جا رہا ہے تو ایسے وقت میں قبرستان بھی بہترین جگہ ہیں ایک دوسرے سے پانچ دس منٹ کے لئے ملنے کے لئے۔کسی زمانے میں مسجد مسلمانوں کے لئے ایک سوشل کمیونٹی گیدرنگ کی ایک جگہ ہوتی تھی جہاں لوگ آکر عباد ت اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اپنی روزمرہ کی زندگی کی معاملات اور آپس کی باتیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے اور دکھ درد سے بھی باخبر رہتے تھے اور یہ بات اسلام کے اوًلین ایام کی مساجد سے لے کر سپین میں مسلمانوں کی عظیم مساجد میں موجود تعلیمی درسگاہوں سے واضح ہے۔ اسلام نے کبھی بھی رہبانیت کا درس نہیں دیا بلکہ د ین ودنیا کو متوازن چلانے کے احکامت دیئے ہیں مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ مسجد کو ہم نے صرف اور صرف نماز کے لئے مختص کر دی ہے ۔ اب تو ملا صاحبان عید کی نماز کے بعد بہ آواز بلند حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ مسجد میں عید ملنا منع ہے۔ خیر کس سے کیا گلہ کریں گے۔ غم روزگار اور پیسے کے لالچ نے انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ پختون کلچر کی عظیم درس گاہ ہجرہ برسوں پہلے ختم ہوچکا ہے اور شہری علاقوں میں تو اب یہ صرف ایک ٹی وی پروگرام کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔ آپس میں میل ملاپ کی کمی کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں کئی کئی مہینے بلکہ سالوں سال ملاقات نہیں ہوتی مگر شکر ہے اللہ کا کہ جس نے ہمیں ایسے بیشتر مواقع فراہم کردئے ہیں جن پر ہم اپنے عزیز واقارب سے مل کر اپنی زندگی کی یکسانیت سے نکل آتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر کے لئے صحیح اپنی زندگی کی مشکلات اور دکھوں کو بھول کر اچھا وقت گزار لیتے ہیں، خواہ وہ قبرستان ہو، عید گاہ ہو یا کوئی اور غمی خوشی ۔

2 comments:

  1. بہت اچهی تحریر ہے کئی پہلوں پر آپ نے بہت عمدگی سے روشنی ڈالی ہے .اوت آپ کےمقام کا یہ طریقہ بهی خوب ہے ماشاء اللہ اپنی خوشیوں می مرحومین کو نہیں بهولتے . بہت خوب

    ReplyDelete
  2. ندیم یہ روائت پنجاب میں بھی قائم ہے ، دراصل عید پر وہ لوگ یاد ہی بہت آتے ہیں جو بچھڑ چکے ہیں ۔۔۔۔۔

    ReplyDelete