Friday 29 August 2014

August 29, 2014


چودہ اگست 1947ء کو برصغیر میں دو آزاد ممالک اس انداز سے قائم ہوئے کہ مشرق اور مغرب میں ایک ہزار میل کے فاصلے پر مشتمل پاکستان اور ان دو ٹکڑوں کے درمیان بھارت کا ملک بن گیا۔ پاکستان کے قیام میں زیادہ اور کلیدی کردار مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے ادا کیا تھا۔ اور صف اول کے راہ نماؤں میں فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے مدبرین نمایاں تھے۔ فقہ حنفیہ (سنی) کے علماء کا بڑا مرکز دیوبند (دیوبن) مدرسہ تھا۔ ان کی اکثریت آزاد ہندوستان کی قائل لیکن مسلمانوں کی آزاد جداگانہ مملکت کی مخالف تھی۔ البتہ فقہ حنفیہ کے بے شمار علماء کی نظروں میں مسلمانوں کا اپنا آزاد ملک ضروری تھا۔ مدرسہ دیوبند کے بھی سب کے سب علماء مسلمانوں کے آزاد ملک کے مخالف نہ تھے۔ 
اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ جدید علوم و فنون کی ایجاد و ترقی اور اُن کے اپنا نے میں اور جدید اداروں کے قیام میں مسلمان ناکام رہے۔ اور آج بھی کسی بھی مسلمانوں کے ملک میں انسانی زندگی قابل رشک نہیں۔ ہندوستان پر چھے صدیوں تک حکومت کرنے والے مسلمان عوامی فلاح و بہبود کے اداروں کا قیام عمل میں نہ لاسکے۔ مغرب کی طرف سے آنے والے اپنی جنیانی (Genitic) خصوصیات، لڑاکو پن اور جسمانی طاقت کی وجہ سے کم زور، نرم خو اور امن پسند دیسی اقوام پر حکم رانی کرتے رہے۔ البتہ اسلام کے نظریۂ مساوات نے برہمن کھشتری، ویش اور شودروں میں بٹے ہوئے ہندوستانیوں کو دین حق کی طرف راغب کیا۔ اور برہمنوں و کھشتریوں کے خوں خوار ظالمانہ پنجوں میں پھنسے ہوئے غریب اور محروم انسانوں نے اسلام قبول کیا۔ چوں کہ برہمن اور کھشتری اپنے علاوہ دوسری اقوام کو کم ترین اور قابل نفرت سمجھتے تھے۔ اُن کو برابر کے حقوق دینا تو دور کی بات تھی، اُن کو انسانی حقوق دینے کے بھی روادار نہ تھے۔ ایک شودر کی زندگی ایک برہمن کے سر کے چند بالوں کے برابر تھی۔ ایسے حالات میں ہندوستانی عوام نے اسلام کے دامن رحمت کو تھاما۔ اگر چہ یہ لوگ مسلمان ہوگئے لیکن ہندو اشرافیہ کی ان سے نفرت اور حقارت کم نہ ہوسکی بلکہ اور زیادہ ہوگئی۔ کیوں کہ کل کے کچلے اور دبے ہوئے عوام نہ صرف ہندو اشرافیہ کی برابری کے دعوے دار ہوگئے بلکہ حکم ران طبقے کی حیثیت سے یہی شودر اُن پر حکم بھی چلانے لگے۔ ویسے بھی حاکم اور محکوم کے درمیان جذبات عموماً عدم قبولیت کا شکار ہوتے ہیں۔ نظریۂ پاکستان میں اس نفسیاتی نکتے کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ 
تجارت زیادہ تر ہندوؤں کے ہاتھوں میں تھی۔ ہندو مذہب کے تحت ہندوؤں کی بعض ذاتیں سمندری سفر حرام سمجھتی تھیں۔ اس لیے ہندوستان کے ساحلوں پر بیرونی تجارت عموماً عرب اور ترک مسلمان کے ہاتھوں میں تھی جب کہ مالِ تجارت کا لین دین زیادہ تر ہندوؤں کا تھا۔ یورپ میں دُخانی جہازوں، عمدہ اسلحے اور گولہ بارود اور دوسری جدید اشیاء اور نظریات کی ایجاد سے سمندروں پر حکم رانی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر یورپی اقوام کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ ہندوستانی ساحلوں پر آپس میں بر سر پیکار یورپی تجارتی کمپنیوں میں انگریز کمپنی نے اقتدار حاصل کیا اور ہندوستان کے ساتھ بیرونی تجارت انگریز کرنے لگے۔ برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ اول نے 1600ء میں لندن کمپنی کے نام سے ایک گروہ کو افریقہ اور ہندوستان سے تجارت کرنے کی اجازت دی تھی۔ برطانوی حکومت نے 1698ء میں ایک اور گروہ کو انگلش کمپنی کے نام سے ایسی ہی اجازت دی، لیکن 1708ء میں ان دونوں کمپنیوں کو اکٹھا کرکے ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ قائم کی۔ 
لندن کمپنی نے 1608ء میں شہنشاہ جہانگیر سے ہندوستانی ساحلوں پر تجارت کرنے کی اجازت حاصل کی تھی۔ اسی دور کے انگریزوں کی یاد داشتوں سے پتہ چلتا ہے کہ مغل بادشاہ کے دربار میں پیش ہونے کا موقع دینے کے لیے اُن سے ایک اشرفی بہ طور رشوت وصول کی گئی تھی۔ گویا کہ سرکاری عمال بددیانت بھی تھے اور بیرونی اقوام کے لیے اُن کے یہاں گرم جوشی اور نرمی بھی نہ تھی۔ اس طرح حکم رانوں کے لیے ٹیکس اور محصولات کے حصول میں بھی سرکاری ملازمین انگریزوں کے ساتھ حاکمانہ رویہ رکھتے تھے جس سے دلوں میں احترام و محبت کی جگہ عدم قبولیت اور نفرت ہوتی ہے۔ دوسری جانب ہندو خود مسلمانوں کے محکوم تھے۔ نرم خو، نرم مزاج اور موقع شناس تاجر تھے۔ انگریز اُن کے بڑے بیوپاری تھے جو انگریزی زبان بولتے اور لکھتے تھے۔ اس لیے ان کے درمیان تعلقات دوستانہ تھے۔ بہترین تجارتی فوائد کے حصول کے لیے ہندوؤں نے اپنے بچوں کو انگریزی زبان اور انگریزی علوم میں تعلیم دلوانا شروع کی۔ جب کہ مسلمان نہ صرف حاکم اور حکم رانی کے زعم میں مبتلا تھے بلکہ اُن کے یہاں انگریز صرف تاجر تھے۔ اس لیے اُن کی زبان وغیرہ سیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی، نہ اُن کی جدید تعلیم اُن سے حاصل کی گئی بلکہ الٹا مختلف حالات اور ضروریات کی وجہ سے مسلمان عمال اور حکم ران انگریزوں کے ساتھ ٹکراؤ کی حالت میں رہتے جب کہ ہندو اور انگریز ایک دوسرے کے معاؤن اور تجارتی شراکت دار تھے۔ مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان بڑی بڑی جنگیں بھی لڑی گئیں جن میں عموماً انگریز کامیاب رہے۔ انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں ہی سے چھینی۔ اس معاندانہ تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ حقیقت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے کہ ہندو اور انگریز دونوں مسلمانوں کو دوست نہیں سمجھ رہے تھے۔ بلکہ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اُن کو قابل گردن زنی سمجھا جاتا تھا۔ 
مسلمان چھے صدیوں سے زیادہ ہندوستان کا حکم ران طبقہ تھے۔ اُن کی بڑی بڑی جاگیریں تھیں۔ اعلیٰ اور ادنیٰ سرکاری مناصب اُن کے پاس تھیں۔ بعض مسلمان بڑے اور چھوٹے پیمانے کے تاجر بھی تھے۔ مولوی لوگ عدلیہ اور دوسرے سرکاری اداروں میں عہدہ دار تھے۔ سرکاری و دفتری زبان فارسی تھی۔ اس لیے رواجی تعلیم یافتہ فارسی دان طبقہ سرکاری ملازمتوں میں تھا۔ حالات کے تقاضوں نے مسلمانوں کو انگریزی زبان میں استعداد حاصل نہیں کرنے دیا تھا۔ نہایت ہی کم تعداد کے مسلمان انگریزوں کے قریب تھے اور وہ بھی عام مسلمانوں کے ناپسندیدہ تھے۔ 
مئی 1857ء میں انگریزوں (ایسٹ انڈیا کمپنی) نے ہندوستان سے مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ جنگ اور اقتدار دونوں مسلمانوں نے ہار دیے۔ جنگ میں ہارے ہوئے اور اقتدار سے محروم ہونے والے دشمن کے ساتھ جیتنے والا دشمن کبھی نرمی نہیں کرتا۔ ہم بھی اپنے مذہبی علماء سے سنتے ہیں کہ جب مسلمانوں کو کافروں پر فتح ہوجاتی ہے، تو اُن کا مال مسلمانوں کا مال غنیمت، اُن کے مرد مسلمانوں کے غلام اور اُن کی عورتیں مسلمانوں کی کنیزیں بن جاتی ہیں اور غلام و کنزیں قابل خرید و فروخت اشیاء ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دین اسلام کے اس سلسلے میں اپنے عادلانہ قوانین ہیں۔ 1857ء کا جدید تعلیم یافتہ انگریز (جو ہندوستان میں اقلیت میں تھا) دور بین اور سمجھ دار تھا۔ پھر اس دور میں لاکھوں مسلمان خواتین کو کنیزیں اور لاکھوں مسلمان مردوں کو غلام بنا کر فروخت کرناممکن نہ تھا، اس لیے اُن کو غلام اور کنیزیں تو نہ بنایا گیا، البتہ اُن سے اچھی زندگی کی تمام سہولیات چھین لی گئیں۔ اُن کی جاگیریں ضبط کردی گئیں۔ اُن کی ملازمتیں ختم کر دی گئیں۔ اُن کے کاروبار تباہ ہوگئے۔ اُن کا عزت و وقار سب کچھ صفر ہوگیا۔ کل کا حکم ران اور کھاتا پیتا بلکہ عیاش مسلمان آج بھکاری بن گیا۔ طاقت، اقتدار غرض سب کچھ چلا گیا۔ اس لیے شہروں اور دیہاتوں کے گلی کوچوں میں ذلیل لوگ بھی اُن کا مذاق اُڑانے اور اُن پر پھبتیاں کسنے لگے۔ مسلمان ہر طرف سے دیوار کے ساتھ لگا دیے گئے۔ سر سید احمد خان مسلمان اشرافیہ میں سب سے پہلا شخص تھا جس نے مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کے خاتمے کو اُن کی جدید علوم و فنون اور نظریات سے بے خبری کی وجہ محسوس کیا۔ سرسید اور اُس کے ساتھیوں نے بہ جا طور پر محسوس کیا کہ اگر جدید علوم و فنون سے غفلت و بیگانگی کی یہی حالت مسلمانوں میں رہی، تو وہ نہ صرف نامعلوم زمانوں تک غلام رہیں گے بلکہ ہندوستان کی غیر مسلم اکثریت میں تحلیل ہوکر دنیا کے اس خطے سے مٹ جائیں گے۔
1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ کردیا تو برطانوی پارلیمنٹ نے وسیع و عریض اور پر وسائل ہندوستان کو کمپنی کے قبضے سے لے کر اُسے بہ راہ راست برطانوی حکومت کے ما تحت کردیا اور ہندوستان کے لیے برطانوی پارلیمنٹ میں باقاعدہ قوانین سازیاں ہونے لگیں۔ 
جدید تعلیم کے حصول کے لیے سرسید نے 1857ء میں مراد آباد میں اور سن 1863ء میں غازی پور میں اسکول قائم کیے۔ حاجی عابد علی ؒ نے 1866ء میں دیوبند کے مقام پر ایک مدرسے کا اجراء کیا جو بعد میں قدیم علوم کے لیے مشہور ہوگیا۔ سن 1875ء میں علی گڑھ میں ہائی اسکول قائم کیا گیا جس کو 1877ء میں کالج کا درجہ دیا گیا۔ سرسید کے خلاف مولوی حضرات نے مکہ سے فتویٰ حاصل کیا جو کافی سخت تھا۔ (حوالہ صفحات نمبر 52-48-47 کتاب تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں از ارشد محمود) 
ہندوستانی عوام اب انگریزوں کے مفتوح تھے جب کہ خود برطانیہ میں پارلیمنٹ موجود تھی۔ ذہین انگریزوں نے محسوس کیا کہ کروڑوں ہندوستان عوام اور انگریزوں کی حکومت کے درمیان بہتر طریقہ کار اور ماحول تب پیدا ہوسکتا ہے کہ ہندوستانیوں کی مناسب سیاسی رابطے اُن کے ساتھ ہوں، لہٰذا گورنر جنرل لارڈ ڈفرن کے اشارے پر ایک ریٹائرڈ انگریز آفیسر مسٹر اے او ہیوم نے 1885ء کانگریس پارٹی کی بنیاد رکھی، تاکہ ہندوستانیوں کے جدید ریاستی اور حکومتی معاملات میں تربیت اور شرکت ہوسکے۔ شروع میں انڈین کانگریس کی انگریز ہی نگرانی کرتے رہے۔ مثلاً اس کے 1886ء کا اجلاس الفریڈون، 1889ء کا ویلئم ووڈبرن، 1904ء والے اجلاس سر ہنری کاٹن کی صدارتوں میں ہوئیں۔ (حوالہ محمود علی کے مضمون پاکستان کی نظریاتی اساس شائع، کردہ قومی ڈائجسٹ لاہور، مارچ 2005ء صفحہ 28) 
مسلمانوں اور ہندوؤں کی تعداد کا تناسب ایسا تھا کہ انڈین کانگریس میں ہندوؤں کا غلبہ تھا اور قدرتی طور پر اُن کی توجہ ہندوؤں ہی کے مفادات پر زیادہ تھی۔ پھر ہندو دانش وروں کا یہ نظریہ تھا کہ ہندوستانی مسلمان دراصل ناراض اور نا امید نچلی ذاتوں کے ہندو ہیں، جنھوں نے اپنی نچلی اور ذلیل ذاتوں سے فرار حاصل کرنے کے لیے اسلام قبول کیا، وہ ہندوستانی ہی ہیں۔ کوئی الگ قوم نہ بن سکے ہیں۔ اس لیے کانگریس کی پالیسیاں مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت پر بہت کم بلکہ صفر کے برابر مرکوز ہوتیں۔ یوں مسلمان جو پہلے ہی سے انگریزوں اور ہندوؤں سے دوری کا شکار تھے، انڈین کانگریس کے ہوتے ہوئے وہ سیاسی امور میں بھی تنہائی کا شکار رہے۔ وہ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری مراعات سے محروم رہے۔ اُن کے دلوں میں مذہبی روایات اور تاریخی واقعات کی بنا پر نصاریٰ سے محبت نہ تھی۔ ہندوستان میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست، حکم رانوں سے نفرت کا لازمی نتیجہ، حکم رانوں کی طرف سے نظر اندازی، عدم توجہ اور عدم تعاون کا نتیجہ مسلمانوں کی پس ماندگی اور محرومی نکلا۔ مختلف واقعات میں مسلمانوں کے مفادات کو بری طرح نقصانات کا سامنا پڑتا رہا۔ انڈین کانگریس مسلمانوں کی الگ حیثیت کی قائل نہ تھی، اس لیے انگریز حکم رانوں تک مسلمانوں کی عمدہ رسائی نہ تھی۔ اس محرومی نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ اُن کا بھی ایک ایسا مؤثر فورم ہونا چاہیے، جس کے ذریعے وہ اپنے معاملات اور مسائل درست انداز کے ساتھ حکم رانوں تک پہنچاسکیں۔ اکتوبر 1906ء میں ایک وفد نے شملہ میں وائسرائے سے ملاقات کرکے اس کو مسلمانوں کے مسائل سے مطلع کیا۔ اس ملاقات سے اُن کو اپنی الگ سیاسی جماعت کی ضرورت کا احساس زیادہ پختہ ہوگیا۔ لہٰذا 1906ء کے دسمبر میں ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے ابتدائی مقاصد میں نفرتوں کا دور کرنا، مسلمانوں کے مسائل کو حکم رانوں کے علم میں لاکر حل کروانا اور مختلف سیاسی اور انتظامی امور میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنا شامل تھا۔ مسلم لیگ کے قیام سے انڈین کانگریس کے ساتھ تعاؤن، بات چیت میں بھی عمدگی پیدا ہوگئی بلکہ کچھ عرصے کے لیے اُن میں باہمی تعاؤن بھی قائم ہوگیا۔ اس تعاؤن کے پیدا کرنے میں محمد علی جناح کا کردار زیادہ واضح رہا۔ بدقسمتی سے یہ تعاؤن جاری نہ رہ سکا۔ بنیادی وجہ ہندو اشرافیہ کا مسلمانوں کے الگ وجود سے انکار تھا۔ 
آزادئ ہند اور قیام پاکستان کی کہانی اور واقعات کافی لمبے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم نے برطانوی حکومت کی کمر توڑ دی تھی۔ وہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے اپنے مقبوضات کو مزید غلام رکھنے کا متحمل نہیں تھا۔ ہندو، ہندوستان تک محدود قوم تھی، جب کہ مسلمانوں کی پشت پر مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک وسیع ترین مسلمان آبادی تھی۔ اُن کے اپنے مستحکم معاشی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی نظریات تھے یہ کس طرح کس اور نظام یا ازم کے محتاج نہ تھے۔ 
اسی احساس عظمت نے مسلمانوں کو بہ حیثیت مسلمان آزاد مملکت کے شہری ہونے کا خیال عطا کیا اور انھوں نے اس کے لیے کوششیں شروع کیں۔ انگریز اس نکتے کو سمجھ چکے تھے کہ متحدہ ہندوستان میں کبھی امن و سکون نہ ہوگا۔ ایک طرف دلیر اور لڑاکو مسلمان ہوں گے اور دوسری طرف ہندو اکثریت۔ اس لیے ترقی و خوش حالی بھی نہ ہوگی اور پڑوس میں بیٹھے ہوئے روبہ ترقی اشتراکی روس کو نہ صرف ہندوستان جیسی وسیع و عریض منڈی تک رسائی حاصل ہوجائے گی، بلکہ سمندروں پر انگریزوں کی اجارہ داری بھی کم زور ہوجائے گی۔ لہٰذا ہندوستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان ایک بفر زون کا قیام بھی ضروری تھا۔ قائد اعظم اور مسلمان مفکرین کے نزدیک نظریۂ اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں کی آزاد ریاست غیر جمہوری، غیر آزاد اسلامی ممالک کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہوگی۔ پاکستان کو مرکز بنا کر دنیا بھر کے مسلمان متحدہ قوت کی شکل اختیار کرکے دنیا میں نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں گے بلکہ ایک تیسری قوت کی شکل لیکن جب پاکستان بنا، تو اُس پر اُن افراد نے قبضہ کردیا جن میں اتنے بڑے ملک اور انواع و اقسام والی قومیتوں والی آبادی پر حکومت کرنے کی قابلیت نہ تھی۔ اگر سیاسی حکم ران قابل بھی ہوں، تو وہ بھی بغیر قابل، عمدہ اور مخلص بیوروکریسی کے کام نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے سیاسی حکم ران بھی نا اہل اور عموماً بد دیانت تھے اور اتنے بڑے ملک کے حصے میں صرف ساتھ آٹھ بیوروکریٹس ہی آسکے تھے۔ اس نئے ملک کے ساتھ نہ فوج تھی نہ پولیس۔ نہ کلرک نہ پٹواری۔ نہ دفاتر ہی تھے۔ چند اسکولز اور اسپتال تھے لیکن عملہ ہندو اور سکھ ہونے کی وجہ سے بھارت جاچکا تھا۔ نہایت ہی کم زور استعداد، خوف عدم تحفظ اور خود غرضی کے شکار افراد کو سرکاری ملازمتیں ملیں۔ عدم قابلیت کی صرف ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ جب کروڑوں روپوں کے اول ترین پاکستانی کرنسی نوٹ چھپ کر آگئے، تو پتہ چلا کہ اُن پر ہلال اور ستارے کی جگہ بدر (مکمل گول چاند) چھپا ہوا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ بیرونِ ملک چھاپہ خانے کو مون اسٹار کا آرڈر دیا گیا ہوگا جب کہ ضرورت کریسنٹ اور اسٹار کے الفاظ کی تھی۔ (حوالۂ کتاب ’’گئے دنوں کے سورج‘‘، از جاوید چوہدری) 
نالائق، لالچی اور بد دیانت حکم رانوں کی وجہ سے 1971ء میں مشرقی پاکستان چھے لاکھ انسانوں کی تباہی کے بعد نفرتوں کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا بنگلہ دیش بن گیا۔ باقی ماندہ پاکستان کے بارے میں تیس نومبر 1971ء کو بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا: ’’بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور پاکستانی قوم کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ (حوالہ، ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا؟‘‘) 
پاکستان مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) اور مغربی پاکستان پر مشتمل ایک عظیم پر وسائل ملک تھا۔ 1971ء میں مغربی پاکستان، پاکستان رہ گیا لیکن اس کے خزانے بھرے ہوئے تھے۔ اُن کو نہایت ہی بے دردی کے ساتھ لوٹا اور لٹوایا گیا۔ اداروں کو تباہ کیا گیا اور جو ادارے باقی بچے اُن میں مسلسل ٹھکراؤ پیدا کیا گیا۔ ملکی ترقی، صنعت، زراعت، صحت اور تعلیم کے شعبے ایک محتاط منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیے گئے نااہل اور بد دیانت ملازمین کو رشوت اور سفارش کے ذریعے قوم پر مسلط کیے گئے بیوروکریسی کو سوچے سمجھے طریقے سے تباہ کیا گیا اور اصل بیوروکریٹس کی جگہ نقلی بیورو کریٹس قوم پر مسلط کیے گئے۔ یوں وطن عزیز کے باقی ماندہ حصے کو اندرونی طور پر دیمک زدہ کرکے دشمن کا ترنوالہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے لوگوں کو پاکستان کی سیاست میں لایا گیا جو پاکستان کے وجود کے مخالف ہیں۔ لیکن کچھ ذہین اور وطن دوست عناصر نے بہ حالت مجبوری پاکستان کو جوہری اسلحے سے مسلح کیا، تاکہ اس کے خلاف قدم اٹھانے والوں کو سو بار سوچنا پڑے کہ پاکستان پر کوئی بھی مہلک حملہ اُس کے ملک کو چند لمحوں میں راکھ کا ڈھیر بناسکتے ہیں۔ اب اس جوہری ملک کے اندر مختلف اشکال کے دیمک چھوڑے گئے ہیں۔ تاکہ عالم اسلام کے ممکنہ مرکز بننے والے ملک کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے۔ جذبات کے رو میں بہنے والوں کو کم از کم یہ سوچنا چاہیے کہ عمومی تباہی میں وہ اور اُن کے خاندان بھی تباہ ہوں گے۔ خدانخواستہ، خدانخواستہ اگر پاکستان نہ رہا تو کیا اس کے دشمن ممالک صدیوں تک تباہی اور بربادی کے شکار نہ ہوں گے؟ پاکستان ضروری تھا۔ اس کا پر امن اور مستحکم ہونا ضروری ہے۔ صرف اس کے لیے نہیں سب کے لیے۔

0 comments:

Post a Comment