آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم جانوں کے قتل عام کے بعد آج دوبارہ پورے ملک میں تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو ایک غیر یقینی صورتحال میں تدریسی اداروں میں بھیج رہے ہیں۔ سکولوں میں نئے داخلے شروع ہونےکو ہے، جن کے بچے پہلی دفعہ سکولوں میں جائیں گے وہ بھی عجیب کشمکش میں مبتلاء ہیں۔ حکومت نے سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے تمام تعلیمی اداروں کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ دیواریں اُونچی کروالیں، سی سی ٹی وی کیمرہ لگوالیں، گارڈز رکھ لیں اور اپنی حفاظت کے اقدامات خود کرلیں۔ مجھے ایک جگہ یاد آگئی جہاں گاڑی پارک کروانے کی فیس دے کر جب اندر داخل ہوگئے تو وہاں لکھا تھا کہ مالک اپنی رسک پر گاڑی پارک کریں، ہم حفاظت کے ذمہ دار نہیں، پیسے صرف جگہ کے لے رہے ہیں۔۔۔!میری خاتون اول نے تو اس خدشے کا اظہار بھی کردیا ہے کہ آرمی پبلک سکول کے کچھ بچے تو سکول کی دیواریں پھلانگ کر جان بچا چکے ہیں(ہمارے ایک دوست کے دو بھانجے آرمی پبلک سکول میں پیش آنے والے واقعے کے وقت دیوار پھلانگ سکول سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھےاوراس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کو بچالیا) اللہ خیر کرے لیکن اگر کوئی اور ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تو پھر جان بچانے کا یہ راستہ بھی بند ہوجائے گا۔
آج سے تعلیمی اداروں کی دیواریں اُونچی ہوجائیں گی، کیمرے لگ جائیں گے، ایک ایک یا دو دو سیکیورٹی گارڈز رکھ لئے جائیں گے عوام اپنی حفظ ماتقدم کے لئے سیکیورٹی اقدامات کریں گے۔ ہمارے ملک میں سزاؤں کا خوف یکسر ختم ہوچکا ہے کیونکہ سزا صرف اُس کو ملتی ہے جس کا کوئی زور نہیں چلتا۔ ہماری عوام بھی بے حس اور قانون شکن ہے، ملکی قوانین کو تو چھوڑیں اللہ رب کریم کے بنائے ہوئے قوانین کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، "اور انسان سرکش ہے" بے شک انسان سرکش ہے اور جب تک اس کے گلے میں رسہ ڈال کر چڑی سے سدھارا نہیں جاتا یہ نہیں سدھرتا۔ اسلام میں سزا کا تصور دوسرے انسانوں کے لئے عبرت کی نشانی ہے، ایک مجرم کو جب سزا ملتی ہے تو ہزاروں لوگ اُس جرم کے ارتکاب سے گریزاں ہوتے ہیں۔ مگر ہم نے اسلامی اُصولوں کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔ سزا و جزا کو بھول گئے ہیں۔ جتنا انصاف و امن پسند مذہب اسلام ہے دنیا کا کوئی مذہب نہیں۔ بس کچھ لوگوں نے اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر اس کو بدنام کرنے کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے۔ جہاں اسلام ایک انسان کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل سمجھتا ہے وہاں ایک بندے کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف گردانا جاتا ہے۔ سزا اگر ملتی ہے تو یہ دوسرے لوگوں کو تنبیہ کے لئے ہے نہ کہ بدلہ لینے کیلئے۔
اُمید ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے یہ فیصلے سود مند ثابت ہونگے اور قوم و ملک کو اس سے فائدہ ہوگا نہ کہ ہر ایک بندے کو اپنے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے بھی سی سی ٹی کیمروں اور گارڈز کی ضرورت ہوگی۔
آج نظر سے گزرنے والے ایک کالم کو آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں ، اُمید ہے کہ نئی حکمتی عملی اور نئے عدالتوں کے قیام سے امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی اور پھر کسی بھی گھر، تعلیمی ادارے، عبادت گاہوں اور عوامی اجتماعات کو نجی سیکیورٹی کی ضرورت نہیں ہوگی۔
مضمون پڑھنے کیلئے نیچے تصویر پر کلک کریں۔
بشکریہ روزنامہ "چاند" 12-01-2015
نعیم خان اصل مسلئہ بھی تو یہ ہے کے ہم نے اسلامی اصولوں کو تو چھوڑدیا، اور ان لوگوں کی زیر اثر آگئے جو اسلام کا نام لے کے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، شروع میں ہم لوگ ہی ان ک امداد کرتے رہے، مال و دولت سے بھی اور ان کے مددگار بن کر بھی۔
ReplyDeleteاگر ہم کو اسلام کی تعلیمات کی معلومات ہوتی تو کیوں یہ خوارج آج ہم میں شامل ہو کر اسلام کو بدنام کرتے۔ اللہ تعالیٰ تما م عالم اسلام کی مدد فرمائیں۔۔۔۔ آمین