Monday 11 May 2015

May 11, 2015
2
تحریرنعیم خان (پشاور): پُرہجوم جگہوں سے گزریں، بس یا گاڑیوں میں سفر کریں اور پھر اگلی جگہ پیسے لینے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالیں تو بٹوہ/پیسے غائب اور پھر جو بندے کی حالت ہوتی ہے وہ صرف اللہ اوروہ بندہ ہی جانتا ہے۔ میرے ساتھ پہلا واقعہ تب پیش آیا جب گستاخانہ خاکوں کے خلاف تمام شہر میں بلاوائیاں حملے ہورہے تھے، سرکاری اور نجی املاک کو لوگ یوں برباد کررہے تھے جیسے اُنہوں نے دشمن کے ملک پر قبضہ کرلیا ہو، سڑکوں کے درمیان لگے ٹریفک کے سائن بورڈز اور خوبصورت پودوں کا یوں اُکاڑ پچھاڑ شروع تھا کہ بس اللہ کی پناہ۔ بات لمبی ہورہی ہے اور پرانا حوالہ بھی ہے۔ اُس دن بھی لوکل ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تھی، رات یونیورسٹی کیمپس میں گزارنے کے بعدصبح آفس کیلئے نکلا تو پہلے تو گاڑی نہیں ملی پھر آدھے شہر کا طواف کرکے ایف سی چوک کے پاس  ایک بس نمودار ہوئی جس میں بمشکل جگہ ملی،آفس کے قریب اترا اور جیپ میں ہاتھ ڈالا تو بٹوا غائب، یا اللہ ، میری بھی حالت ایسی ویران اور اُجاڑ ہو رہی تھی جیسے لوگ شہر کی کررہے تھے۔
کہتے ہیں قمیض میں سائڈ کی جیب پرائی ہوتی ہے مگر کیا کہیں چالاک اور تیز طرار جیب کتروں کی جو دن دھاڑے آپ کی کھلی آنکھوں کے سامنے آپ کی سامنےکی جیب سے پیسے اور موبائل فون وغیرہ نکلا لیتے ہیں اور مجال ہو جو آپ کو ذرہ برابر احساس بھی ہو کہ کوئی چیز آپ کی جیب سے نکلی ہے۔ دوسرا واقعہ کچھ مہینے پہلے کا ہے تب بھی لوکل ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تھی اور مجبوراً جس بس میں مجھے سفر کرنا پڑا اُس میں رش کافی زیادہ تھی، خیبر بازار سے میں بس میں چڑھا اور دروازے کے پاس کھڑے ہونے کی جگہ ملی، میرے ساتھ دو تین افراد بھی پھرتی سے گاڑی میں سوار ہوئے۔ ایک شخص میرے پیچھے تقریباً چپک کر کھڑاتھا، ایک موٹا تازہ بندہ بالکل میرے آگےاور ایک بندہ بس کے دروازے میں کنڈیکٹر کے پاس کھڑا ہوگیا، دکھائی یوں دے رہا تھا جیسے اُنہوں نے بھی بڑی مشکل سے بس میں جگہ پکڑی ہو۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے اپنے سینے پر ہلکہ سا کچھ چھوتا ہوا محسوس ہوا اب جو دیکھا تو میرا موبائل فون غائب، احساس ہوا اور اگلے والے شخص کو پیچھے سے پکڑ لیااور اُس کو کہا کہ موبائل واپس کرو، اُس نے پھرتی سے میرا موبائل فون بس دروازے میں کھڑے اپنے ساتھی کو حوالے کیا جو اس کو اپنی شلوار کی جیب میں ڈال رہا تھا جو کو اتفاقاً میں نے اور بس کنڈیکٹر نے دیکھ لیا جس کو اس بندے نے تیزی سے بس سے باہر پھینک دیا۔ میں تو بس سے چلانگ لگا کر اپنے فون کے پیچھے بھاگا جو اللہ کے کرم سے صرف ایک خراش لگنے کے سوائے بالکل ٹھیک ٹھاک تھا ورنہ تو تنخواہ کے ڈبل کا نقصان کنفرم تھا، دو تین دیگر واقعات میں مجھے اور بہت سارے دوستوں کو بھی موبائل فونز اور پیسوں سے ہاتھ دھونے پڑےہیں۔ یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا ملک کے ہر دوسرے شہری کے ساتھ ہورہا ہے۔ ایسے واقعات کی پولیس میں رپورٹ بہت لازمی ہوتی ہے، لیکن لوگ ایک تو نقصان ہونے کے غم سے اورپھر پولیس کے خاص رویے تھکادینے والی کارروائی کی وجہ سے رپورٹ کرنے نہیں جاتے اور اگر چلے بھی جائیں تو پہلے تو پولیس ایسی رپورٹ پر کوئی خاص کارروائی نہیں کرتی بلکہ اُلٹا لوٹنے والا اور بھی اذیت کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ پولیس نہیں چاہتی کہ اُن کے علاقے میں کوئی ایسی وارداتوں کی رپورٹ درج کروانے آئے اور اُن کی کارکردگی خراب ظاہر ہو، اس لئے لوگ پولیس کے پاس نہیں جاتے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کہہ تو رہے ہیں کہ پولیس کا رویہ لوگوں کے ساتھ ٹھیک ہوگیا ہے لیکن شاید اُن کو معلومات فراہم کرنے میں بھی کنجوسی کی جارہی ہے، صرف اُن کی شرٹس پر ذمہ دار، مددگار اور خوش اخلاق لکھنے سے بات نہیں بنتی۔ شہر کی بسوں اور ویگنوں میں سفر کریں تو دو تین لوگوں کا گروہ معصوم لوگوں کے پیچھے پڑا ان کی جیبیں کاٹنے کے در پہ ہوتا ہے، بس سے اُترتے وقت دروازوں میں یہ لوگ رش بنائے کھڑے ہونگے، بھری ہوئی بسوں میں ایک گیٹ سے داخل ہونگے اور دوسرے دروازے سے لوگوں کی بھیڑ کو چیرتے، لوگوں کی سائیڈوں اور دیگر جیبوں کو ٹٹولتے جائیں گے۔ اگر کوئی اُن کو دیکھ کر شور مچائے یا پکڑ لیں تو اُن جرائم پیشہ افراد کے دیگر ساتھی ایسا ماحول بنا لیتے ہیں کہ ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے اور آس پاس دوسرے لوگ بھی آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر ان ہٹے کٹے افراد کا مقابلہ یا اُن کی شکایت ہم جیسے افراد کیلئے ناممکن ہے جو اگلے کسی سٹاپ یا دوسری جگہ پر آپ کو گھیر کر بدلہ لے سکتے ہیں، یہ لوگ جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے گروپس میں یہ حرکتیں کرتے ہیں ان کو دیکھ کر تو دل میں بہت سارے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ یہ واقعات میرے آنکھوں دیکھے ہیں، جن کا میں گواہ ہوں۔ کیا ان سٹریٹ کرائمز اور ان جرائم پیشہ افراد کا پولیس کو علم نہیں ہوتا؟ سننے میں آیا ہے کہ ہماری پولیس بہت تیز اور ذہین ہے، اپنے علاقے کے ہر فرد پر اُن کی نظر ہوتی ہے، ہر جرائم پیشہ فرد و گروپ کا اُن کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے، چلیں چھوٹے شہروں اور قصبوں کو چھوڑیں صوبے کے دارالحکومت پشاور میں ایسے واقعات روز رونما ہوتے ہیں۔ 
ہر روز ہزاروں افراد ایسے اور ان جیسے دوسرے واقعات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ایک سروےکے مطابق کراچی کا ہر دوسرا شہری سٹریٹ کرائمز کا شکار ہوتا ہے، بلکہ مملکت خداداد کا ہر دوسرا شہری ان جرائم پیشہ افراد کا شکار لگ رہا  ہے۔ موبائل فونز، نقدی اور خواتین سے پرس و زیورات کا چھیننا بھی عام معمول کی بات ہے۔ بہت سال پہلے مرحوم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان صاحب کا سفرنامہ "امریکہ نامہ" پڑھا تھا جس میں اُنہوں نے سٹریٹ کرائمز کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نیویارک کی گلیوں میں اگر تھوڑی سی بھی سنسان گلی سے گزر ہو تو وہاں کے اوباش لوگ چاقو یا کوئی اورتیز دھار آلہ دکھا کرآپ سے نقدی وغیرہ چھین لیتے ہیں اور اگر جیب میں کچھ نہ بھی ہوتب بھی وہ مارپیٹ سے نہیں کتراتےکہ پیسے کیوں نہیں ہے۔ تب یہ بات بہت عجیب لگی تھی مگر اب ہماری ہر گلی محلے میں ایسی وارداتیں رونما ہورہی ہیں بلکہ ہم ان کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے والد صاحب فرماتے ہیں کہ سوات میں والئی سوات کی حکومت کے وقت امن و امان کی ایسی صورتحال تھی کہ سوات کوہستان سے اگر ایک خاتون زیورات سے لدی اکیلے سفر کرتے ہوئےلنڈاکے چیک پوسٹ تک آتی تو کسی کی کیا مجال تھی کہ اُس کو آنکھ اُٹھا کر بھی کوئی دیکھتا۔ اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اپنے محلے میں بھی عشاء اور فجر کی نماز پڑھنے کیلئے جائیں تو بندہ فکر مند۔ 
یہ حالت پیارے وطن کی ہر گلی ہر محلے اور ہر بازار کی ہے۔ ان حالات کا ذمہ دار ہر شہری ہے۔ ہم صرف سیکیورٹی اداروں کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے بے شک اُن کی کوتاہی اور غیر ذمہ داری بھی ہوگی مگرقصور ہمارا بھی برابر کا ہے۔ کیا ہم اپنے بچے کی تربیت اُن خطوط پر کررہے ہیں جہاں اس کو غلط اور صحیح کا ادراک ہو، کیا ہم اُس کو پیسے اور پر آسائش زندگی کے خواب دکھا کر اُس کو اتنی سہولیات فراہم کررہے ہیں، کیا ہمارا میڈیا جس طرح کے الٹرا ماڈرن اور ہائی فائی کلاس کریکٹرز سے بھر پور ڈرامے دکھا کر گھروں میں بیٹھی نوجوان قوم کی تربیت کررہا ہے کبھی  کسی نے میڈیا کا ٹرائل کیا ہے؟ کیا کبھی کسی نے ہرسال تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مستقبل کی فکر کی ہے؟ کیا کسی نے اُن بے روزگار اور ناخواندہ جوانوں کی فوج کا کوئی غم کیا ہے جو گلی محلوں میں آوارگیاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ خدا را جن کو چنیں دیکھیں کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ملک و قوم کی مستقبل سنوار سکیں، جو اس قوم کے جوانوں کے لئے کچھ کرسکیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں لوگ صرف اقتدار کی گدیوں پر بیٹھ کر اپنی جبلی خواہشات کی تسکین کیلئے خدمت، مذہب کے نام کی قلعی لگا کر اپنے پرانے پانڈوں کو بیچتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے بھی اپنے آپ کو جیب کترے ہی بناکر رکھ دیا ہے، جو قوم کی جمع پونجی کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جس دن ہم میں ایمانداری اور دیانتداری کی اصل روح جاگ اُٹھی اُس دن یہ سارے جرائم ایک ایک کرکے خود اپنی موت آپ مرجائیں گے مگر اُس کیلئے سخت آپریشن سے گزرنا ہوگا جیسے جسم سے ناسور ہٹانے کیلئے ڈاکٹرز سرجری کرتے ہیں جس میں تکلیف بھی ہوتی ہے۔

Street Crimes in Peshawar in local buses and public places, Peshawar KPK KP Khyber Pakhtunkhwa

2 comments: