Tuesday 7 May 2013

May 07, 2013
1
محمدعاصم (افغانستان):        کئی جگہوں پر آپ نے سنا اور پڑھا ہوگا کہ سرحدیں ممالک کے درمیان ہوتی ہیں دلوں میں نہیں، ٹھیک ہے اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو سرحد ہے وہ سرحد پاکستانیوں اور افغانیوں کے دلوں کے درمیان نہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب افغانستان پر روس نے حملہ کیا تو جنرل ضیاء الحق نے اسلامی بھائی چارے اور اسلامی مملکت  ہونے کے ناطے افغانستان کے باشندوں کے لئے سرحدیں کھول دیں۔ لوگ اپنی جانیں بچا کر پاکستان ہجرت کرگئے۔ ان کو پاکستان نے اپنی دھرتی پر کیمپ بنا کردے، اُن کو روزگار کی آزادی دی، اُن کو تعلیم و تربیت اور صحت کی سہولیات دیں۔ یہاں تک کہ ان افغانیوں کی آج تیسری اور چوتھی نسلیں پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ تعلیم و روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف اب یہ حال ہے کہ پاک افغان سرحد میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ سرحد پر پاکستانی بارڈر فورسز افغانیوں سے نت نئے طریقوں سے رقم بٹورتی ہے اور افغانی بارڈر فورسز پاکستانیوں کو روک کر کئی حیلے بہانوں سے رقم نکالتی ہے اور تو اور رقم نہ دینے پر بے عزت کیا جاتا ہے اور پاسپورٹ پھاڑنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔
میں پندرہ فروری 2011کو پہلی بار افغانستان کے دارالحکومت کابل آیا۔ میرے پاس پاسپورٹ ہونے کے باوجود مجھے اور تمام آنے والے پاکستانیوں کو ایک ایسے پہاڑی علاقے میں گاڑیوں سے اُتاراگیا جہاں موبائل کنکشن بھی کام نہیں کرتے تھے۔ افغانی فوجی جو کہ "اردوملی" کہلاتے ہیں تمام پاکستانیوں سے بدتمیزی کرتے رہے۔ مجھے بھی گاڑی سے اُتارکر کہاگیا کہ بدمعاشی کرتے ہو، تم پاکستانی دال خوروں کی ساری دال میں آج نکال دونگا۔ شاید ان اردوملی (افغان فوج) والوں کو وہ دن یاد نہیں جب اُن کے آباواجداد پاکستان میں ہجرت کرکے آئے ۔ ان اردوملی والوں نے نمک حرامی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کا نمک کھایا اور پاکستان ہی کی بے عزتی کی۔ مگر اس کے برعکس عام لوگ خصوصاً غریب لوگ پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مگر یہ محبت کیوں نفرت میں بدل رہی ہے اس کی بڑی وجہ سیاسی داؤپیچ  اور دونوں اطراف کی پولیس اور فوج کی ستم ظریفیاں ہیں۔ قصور صرف افغانی فوج اور پولیس کا نہیں بلکہ پاکستانی پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کا بھی ہے۔ جو سرعام افغانیوں کو تلاشی کے بہانے اتارتے ہیں، اُن کی جیبوں سے پیسے نکال کرگنتے گنتے اس مہارت اور ہاتھ کی صفائی سے نوٹ گم کردیتی ہے کہ توبہ۔ ماشاء اللہ ہماری پولیس کافی تربیت یافتہ ہے۔ پاکستانی پولیس اتنا بھی نہیں سوچتی کہ یہ افغانی صرف افغانی نہیں بلکہ ایک مسلمان بھی ہے۔ مسافر بھی ہے ۔ ہمارے ملک کا مہمان بھی ہے۔ مہمانوں سے اتنا برا سلوک  تو کافر بھی نہیں کرتے ہونگے۔ اسی طرح ایک روز میں ایک موٹر کار میں طورخم سے پشاور کے لئے سوار ہوا، میرے ساتھ ایک پاکستانی اور دو افغانی بھی سوارتھے۔ جب ہماری کار رنگ روڈ پشاور پہنچی تو کار پولیس کے ایک اشارے پر رک گئی۔ پھر میں نے پولیس کا روایتی کھیل دیکھا۔ پولیس نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ گاڑی رکتے ہی پولیس نے کار کا دروازہ کھولنے کا کہا اور کہا کہ شناختی کارڈ دکھائیں۔ میں نے تو معصومیت اور ناواقفیت سے پوچھا کہ شناختی کارڈ دکھاؤں یا پاسپورٹ ؟ پولیس نے کہا کہ آپ بیٹھو اور باقی تمام لوگ گاڑی سے اُتر کے درخت کے نیچے کھڑے "خان جی" کے پاس جاؤ۔ خان جی پولیس والوں کا گرو تھا دو افغانیوں کے پاسپورٹ اور ویزہ دیکھنے کے باوجود بھی بولا رقم نکالو۔ ان دو افغانیوں نے کہا کہ ہم غیر قانونی تو نہیں آئے پھر کیوں رقم دیں؟ مگر ہماری فن کار پولیس نے کہا کہ فیصل بینک میں انٹری نہیں کی آپ نے ۔ اس طرح ان دو بے چارے افغانی مہمانوں کو 1500 روپے فی بندہ لے کر چھوڑا گیا۔ ظلم کی انتہا تو دیکھیں کہ تیسرے مسافر کو کہا گیا کہ نمبر دو۔ وہ تیسرا مسافر پاکستانی تھا ۔ پھر بھی پولیس والے نمبر مانگتے رہے ۔ اس پاکستانی نے معصومیت سے پوچھا کہ موبائل نمبر؟ پولیس والے نے غراتے ہوئے کہا کہ "نمبر" نہیں جانتے؟ نوٹ نکالو۔ مگر کہا ں ملتی رقم ۔ پاکستانی نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو۔ اپنے ملک میں کیوں رقم دوں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان آنے والے تمام مسلمان مسافروں کو پاکستان آنے کی اتنی بڑی سزا دی جاتی ہے۔ پھر یہ افغانی لوگ اپنے ملک جا کر شکایت کرتے ہیں ۔ جس کا انتقام ہم جیسے افغانستان جانے والے پاکستانی مسافروں سے لیا جاتا ہے۔
فروی کی 6 تاریخ کا واقع ہے کہ "پل چرخی" جو کہ افغانستان کی انتہائی خطرناک چیک پوسٹ سمجھی جاتی ہے، اس پر ہمیں روکا گیا۔ پوچھا گیا پاکستانی ہیں؟ ڈرائیور نے جواب دیا ہاں ہیں تو ہماری گاڑی کو ایک طرف روانہ کردیا  جہاں ان افغان پولیس کا "خان جی" کھڑا تھا۔ اس نے بھی پاکستانی پولیس کی طرح پاسپورٹ اور ویزہ کی چھان بین کرکے ہمیں اپنے دفتر آنے کو کہا جب ہم دفتر میں داخل ہوئے تو کہا کہ 1000افغانی دو ورنہ پاسپورٹ پھاڑ ڈالونگا۔ ہم دو پاکستانی تھے۔ میں نے جان چھڑانے کے لئے صرف 100افغانی اوردوسرے نے 200افغانی دے دیے، پولیس والوں نے کہا یہ تو کم ہیں میں نے اس کو شرمندہ کرنے کے لئے کہا کہ باقی دعا کرونگا آپ کے لئے تو وہ بے غیرت ہنس کر بولا جاؤ۔ کرے کوئی بھگتے کوئی۔
دونوں طرف کے ان کارنامون کی وجہ سے عام مسافروں اور دونوں طرف کے مسلمانوں میں تفرتیں بڑھ رہی ہیں اور دونوں ممالک کی دوستیاں اور محبتیں کافروں اور غیر اسلامی ممالک سے برھ رہی ہیں۔ میری آپ سے سے درخواست ہے کہ دعا کیجئے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان پیار محبت بھائی چارہ بڑھے اور اللہ تعالیٰ ان وردی والے غنڈوں کو ہدایت دے تاکہ دونوں طرف لوگ بخوشی آجاسکیں۔ جیسے اپنے گھر جارہے ہوں (ٰاٰمین)۔

1 comments:

  1. بالکل درست نقشہ کھینچا ہے ،عاصم صاحب نے۔

    ReplyDelete