Tuesday, 26 March 2013

March 26, 2013
1
صبح بجلی چیک کی اور دیکھا کہ ہے توجلدی سے ٹی وی آن کیا اور خبریں دیکھنے لگا۔ الیکشن کی گہماگہمی اور وزارت عظمیٰ کے لئے لگی دوڑ کی تھکی ہوئی خبروں سے تو ویسے ہی دل بھر چکا ہے ہاں البتہ جو خبر دلچسپ سی لگی اور تھوڑی طبعیت بھی ہشاش ہوگئی وہ یہ تھی کہ کل رات پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی "ارتھ آور" یعنی کرہ ارض سے محبت کا گھنٹہ منایا گیا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے نو بجے تک تمام غیر ضروری بتیاں بند کردی گئیں تھیں۔ مجھے تھوڑی تھوڑی حیرت کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آرہی تھی۔ کل شام ہلکی ہلکی بارش تھی اور ہماری بجلی تقریباً سرشام ہی ارتھ آور منانے چلی گئی تھی۔ شاید وہ اسلام آباد چلی گئی تھی کیونکہ صبح نیوز میں دکھا رہے تھے کہ اسلام آباد میں ہر جگہ بجلی تھی اورجیسے ہی ساڑھے آٹھ بجے تمام بجلیاں گل کر دی گئی بلکہ کئی ایک ٹی وی چینلز کے نیوز روم میں بھی بجلی بند کر دی گئی اور موم بنیاں جلا دی گئی۔اس لمحے میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر ارتھ آور یہ ہے تو ہم نے تو جب سے ہوش سنمبھالا ہے ہم ہر روز کئی کئی گھنٹے ارتھ آور مناتے ہیں۔ اس بات کا سہرہ واپڈا کے سر جاتا ہے جو دنیا سے اپنی محبت کا اظہار زبردستی ہم پر ٹھونس ٹھونس کر نافذ کرتا ہے کیونکہ اُس کو پتہ ہے کہ ہم ایسی قوم ہیں جو کہ صرف ڈنڈےکے زور پر چلتے ہیں ۔ ڈنڈا ہی ہمارا پیر و مرشد ہے۔ اسی دن کی نسبت سے کافی دن پہلے سے تقریباً ہر ٹی وی چینل پر"ورلڈ وائڈ فنڈ" کے اشتراک سے "ارتھ آور" منانے کے اشتہارات چل رہے تھے۔ یہ ایک احسن اقدام ہے کہ اگر ہمیں ایک بلب کی ضرورت ہے تو ہم کیوں درجنوں بلب روشن رکھیں۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ارتھ آور منایا جاتا ہے جو کہ اس بات کی غمازی ہے کہ ہمیں اپنی دنیا سے محبت ہے۔ ٹی وی پر جن جن ممالک کی تصویری جھلکیاں دکھائی گئی سب کے سب ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں واپڈا نام کے کسی سفید ہاتھی کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ ہی کوئی کرپٹ انتظامیہ ہے۔ وہاں پر عین مقامی وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے تمام غیر ضروری روشنیاں بند کر دی گئی اور شمعیں روشن کر دی گئیں۔ خبروں کے مطابق کئی کئی ممالک نے اس ضمن میں کئی میگا واٹ بجلی کی بچت کی۔ ہم عوام کو جو بجلی ملتی ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ ہر چند منٹ بعد گھنٹوں تک بجلی کی لوڈشیڈنگ کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ اس موضوع پر کچھ لکھنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ یہ اب ہماری زندگی کا ایک معمول ہے اور ہم اس کے عادی ہیں۔ ہاں البتہ نئی بات یہ ہے کہ ہمارا مغرب پرست میڈیا اور ہائی فائی سوسائیٹی کے لوگ کس سج دھج سے ایک گھنٹہ کی لوڈشیڈنگ (ارتھ آور) منا رہے ہیں۔مجھے تو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ لوگ ہمارے پیارے ملک پاکستان کے ہیں اور سارے ٹی وی چینلز بھی پاکستان کے ہیں جن کو ارتھ آور منانے اور ناچنے گانے کا موقع مل گیا۔ شاید یہ لوگ بھول گئے تھے کہ ہم لوگ  دن میں 24 میں سے 23 گھنٹے ارتھ آور مناتے ہیں۔ ہماری انڈسٹری ٹپ ہو کر رہ گئی ہے،  صنعتیں بحران کا شکار ہیں، کارخانے ویران ہیں، غیرب مزدورعوام کو روٹی کے لالے پڑے ہیں اور بھوکوں مارے زندگی
گزار رہے ہیں۔ توانائی کے اس بحران میں ہم لوگ ارتھ آور منانا برداشت نہیں کر سکتے۔
ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہمارے ملک میں کوئی قومی ہیرو یا رہنما نہیں ہے کہ جو بھی اچھی بات ہوتی ہے ہمارا میڈیا بانڈھ اور مراثیوں کو ٹی وی، ریڈیو پر بٹھا کر پیغام عوام تک پہنچاتے ہیں یا ہم اخلاقی طور پر اتنے پست ہوگئے  ہیں کہ ہم صرف اس قسم کے لوگوں کو اپنا قائد مان رہے ہیں۔ ٹی وی پر کئی دنوں سے جب ارتھ آور کے بارے میں آگاہی پیغامات نشر ہو رہے تھے تو میں نے کسی بھی اصل ہیرو یا رہنما کو نہیں دیکھا بس صرف "فنکاروں" کو ہی دیکھا۔ مگر پھر مجھے ایک بات یاد آگئی، برصغیر سمیت ہمارے علاقے میں یہ رواج تھا کہ جب بھی کسی خاندان میں شادی بیاہ، فوتگی یا پھر کسی دوسرے غمی خوشی کی خبرکی اطلاع دوسرے رشتہ داروں اور جاننے والوں کو دینی ہوتی تو ہر گاؤں میں موجود "نائی" خاندان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں، جو کہ اس پیغام کو لے کر ہر دروازے پر جاکر اطلاع بہم پہنچاتے تھے۔ جیسے جیسے زندگی کی شعبے میں ترقی ہوتی گئی تو یہ لوگ بھی عام زندگی سے معدوم ہوتے گئے اور اب اُنہوں نے ایک نئے انداز سے اپنا پرانا کام سمبھال لیا ہے ۔ لیکن اگر کسی اچھے کام کا  پیغام اگر ہم اپنے کسی حقیقی ہیرو یا رہنما کے زریعے عوام تک پہنچائیں تو اُس کا اثر زیادہ ہوتا ہے نا کہ میراثیوں اور نائیوں کے منہ سے نکلی ہوئی بات میں۔ (بہت سارے لوگوں سے معذرت کے ساتھ)۔ 

1 comments: