Monday 4 March 2013

March 04, 2013
دفتر سے واپسی پر مجھے میرے دوست کی کال آئی اور مجھ سے پوچھا کہ کیا انٹرنیٹ اور اس کے استعمال پر ورکشاپ میں جانا چاہتے ہو، میں نے فٹافٹ ہاں کہہ دی۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ جو کچھ سیکھا ہے اس میں کچھ نئی چیزوں کا اضافہ ہوجائے گا کیونکہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں روز نئی جدتیں آتی ہیں اور اپنے آپ کو ان نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا لازمی ہوتاجا رہا ہے کیونکہ دنیا اب ایک چھوٹے سے گلوبل ولیج کی شکل میں سکڑ رہی ہے، آپ کی انگلیوں کے ایک اشارے پر سیکنڈزمیں ایک خبر دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچ جاتی ہےاوراس سہولت کا صحیح استعمال وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔اس ٹرینگ اور ورکشاپ میں میری اُمید کے مطابق بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
بلاگنگ سے آشنائی تو بہت پرانی تھی مگر ایک محدود دائرے میں رہ کر بلاگنگ کر رہا تھا، کچھ ڈر اور کچھ خوف آڑے تھا مگر پھر مہربان مل گئے اور قید میں بند پنچی کو آزادی مل گئی۔ جب میں نے اپنے آس پاس دیکھا تو بہت سارے لوگوں کو اپنا ہم خیال پایا۔ مثبت لکھنے والے تو بہت ہیں مگر اُن کے پاس کوئی مناسب سہولت موجود نہیں تھی کہ وہ اپنی آواز لوگوں تک پہنچا سکیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو صرف وہ چیز چھاپنا اوردکھانا چاہتے ہیں جن سے اُن کی رینکنگ بڑھے اور اسی دوڑ میں بہت ساری بنیادی اور ضروری حل طلب باتیں رہ جاتی ہیں۔ دوتین دفعہ کی ملاقاتوں  میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت سوات کے علاقے کے اچھے لکھنے والے دوستوں کو ٹرینگ دیں گے اور اُن کو انٹر نیٹ پر بلاگنگ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں گیں تاکہ ہمارے ہر علاقے کے مسائل اور وہاں کا کلچر دنیا کے سامنے آسکے اور وہ باتیں دنیا جان جائے جو اب تک چھپی ہوئی ہیں۔ 
  ہم انٹرمیڈیا پاکستان کے بہت مشکور ہیں جنہوں نے سوات میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے صحیح استعمال اور بلاگنگ پر تین روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔ تین دن میں گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وقت تو بہت کم تھا مگر تین دن میں ٹرینر جناب عبدالاسلام صاحب اور وصال یوسفزئی صاحب نے بہت محنت کی چونکہ میری اس فیلڈ میں دلچسپی اور کچھ علم بھی تھا اس لئے مجھے پتہ ہے کہ تین دن میں اتنا کچھ سکھانا بہت مشکل تھا کیونکہ زیادہ تر شرکاء بلاگنگ سے ناواقت تھے۔ مگر اُن کا اپنے کام سے اخلاص اور محنت کہ ورکشاپ  کے آخری دن تقریباً تمام شرکاء نے اپنے اپنے بلاگ بنا کر یہ ثبوت دے دیا کہ اُن کی محنت رائےگا نہیں گئی۔  اس ورکشاپ نے ہماری بہت مدد کی اور بلاگنگ پر جس ٹرینگ کی ہم سوچ رہےتھے وہ مقصد انٹر میڈیا پاکستان نے مثبت انداز میں پورا کردیا۔ آخری دن کی تقریب میں سوات پریس کلب کے چیف آرگنائزر اورسینئر صحافی جناب غلام فاروق صاحب کی شرکت خوشگوار تھی اور اُمید تھی کہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں بلاگرز کی حوصلہ افزائی، غیر روائیتی صحافت اور اس نئے تحریر و تحقیق کے عمل میں رہنمائی کریں گے مگر شاید اُن کی مصروفیات آڑے آگئیں اور افسوس کہ اُن کی آمد اور قیمتی وقت صرف روائتی کارروائی ، تقسیم سرٹیفکیٹ اور تصاویر تک ہی محدود رہی۔
بدقسمتی سے میڈیا نے ہمارے علاقے کے مثبت پہلو پر بہت کم توجہ دی اور ہمیشہ اُن واقعات اور باتوں کو زیادہ سے زیادہ کوریج دی جس سے دنیا میں یہ تاثر پھیلا ہے کہ ہم صرف شدت پسند لوگ ہیں ۔ مگر اب وقت ہے کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت اپنی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں اور جدیدٹیکنالوجی کو استعمال کرکے اپنی صحیح تشخص دنیا کے سامنے 
پیش کر سکیں اور اس کے لئے ہمارے پاس سوشل میڈیا جیسا مضبوط پلیٹ فارم موجود ہے۔
شکریہ انٹرمیڈیا پاکستان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

0 comments:

Post a Comment