ملالہ یوسف زئی 12 جولائی کو 16سال کی ہوگئیں اور ہمارے لئے انوکھی بات کی اُن کی اس سالگرہ کو اقوام متحدہ نے جنرل اسمبلی میں منایا۔ ایک طرح سے تو ہمارے لئے یہ قابل فخر بات ہے کہ ہمارے ملک کی ایک ذہین طالبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک پہنچی اور ایسا اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری جناب بان کی مون صاحب کے یہ الفاظ بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو کرسی ایک ملک کی اعلیٰ ترین قیادت کے لئے ہوتی ہے اُس پر آج ملالہ یوسف زئی براجمان ہے۔ (پس منظر میں اُسے کے والدین اور بھائی بھی نمایا تھے)۔ اُن کو یہ مقام اور اتنی شہرت اور دنیا بھر کی توجہ کیسے ملی یہ سب ایک معمہ ہےاور اس معمے کی کھوج میں سب ہی لگے ہوئے ہیں۔ ہر دن کوئی نہ کوئی خبر، کالم یا کوئی مضمون اس حوالے سے گردش میں رہتا ہے مگر حقیقت کیا ہے یہ اللہ اور امریکہ ہی جانے بیچاری ملالہ کو خود بھی علم نہیں اور اس کے والد تو بظاہر صرف شہرت اور پیسے کے لئے یہ سب کچھ کرتے نظر آرہے ہیں کیونکہ سوات سے تعلق ہونے کی بناء پر یہ تو میں بتا سکتا ہوں کہ ملالہ فنڈ یا ملالہ کی وجہ سے سوات کی طالبات کے لئے کوئی ایک بھی فائدہ مند کام نہیں کیا گیانہ ہی ملالہ فنڈ سے کوئی لڑکیوں کا سکول کالج یا یونیورسٹی بنی نہ ہی ایسے کسی کام کی بنیاد رکھنے کی بات کی گئی۔ یہ بات قطعاً غلط ہے کہ ملالہ کی وجہ سے سوات کی طالبات نے سکول جانا شروع کیاسوات میں خواتین کی سکول و کالج جانے کی شرح پہلے جتنی تھی اب بھی اتنی ہی ہے۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ سوات میں خواتین کا صرف ایک ہی ڈگری کالج ہے جو کہ یہاں کی طالبات کے لئے ناکافی ہے۔ سوات کی طالبات کا ملالہ کے کردار (ڈرامے) سے کوئی لگاؤ نہیں ہے ، جو احساسات ملالہ یوسفزئی کے اسلام و پاکستان دشمن عناصر کے بارے میں ہیں وہی خیالات ہماری تمام طالبات کے بھی ہیں صرف اور صرف فرق یہ ہے کہ ملالہ کی ذہانت اور اُن کے والد کی ذرائعے ابلاغ میں جان پہچان اور دوستیوں کی وجہ سے اُس کو میڈیا میں جگہ ملی ورنہ یہی سوچ ہر سوات کی طالبہ کی ہے۔ ملالہ یوسفزئی بذات خود ایک قابل اور ذہین طالبہ ہے جو کہ ساری دنیا کے سامنے ہے مگر اُس کو جس طرح سے استعمال کیا گیا ہے یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ خوشی کی بات یہ ہےکہ ایک ذہین پاکستانی طالبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک پہنچی ۔ ملالہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنی تقریر میں جو بھی کہا اور جیسے بھی اُس نے دنیا کے سامنے پیش کیا اُس سے قطعہ نظر یہ الفاظ بہت خوبصورت ہیں کہ "ایک استاد، ایک طالبعلم، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کوبدل سکتے ہیں"۔
اسی موضوع پرکچھ رپورٹس اور خبریں نظر سے گزریں جو کہ یہاں آپ کی خدمت میں پیش ہیں:
ملالہ اور سوات میں ایوارڈز کی بندر بانٹ پر پروفیسرڈاکٹر سلطان روم صاحب کی ایک شاہکار ملاحظہ کریں
اسی موضوع پرکچھ رپورٹس اور خبریں نظر سے گزریں جو کہ یہاں آپ کی خدمت میں پیش ہیں:
ملالہ اور سوات میں ایوارڈز کی بندر بانٹ پر پروفیسرڈاکٹر سلطان روم صاحب کی ایک شاہکار ملاحظہ کریں
محمد عاطف صاحب کا بلاگ "صلیبی بچے اور یوم ملالہ" نظر سے گزرا جس تاریخی واقعات کی تناظرمیں اس معماملے کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔اسی طرح فخر کاکا خیل صاحب نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اور محمد بلال صاحب نے بھی اپنے ایک بلاگ "ملالہ درآصل ہے کون" میں اس معاملےمیں کافی تحقیق اور باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔
زما سوات ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق سوات کے لوگوں کی ملالہ یوسف زئی کے بارے میں احساسات کچھ یوں ہیں:
www.zamaswat.com
www.zamaswat.com
ڈاکٹر افتخاراحمد صاحب جو کہ اٹلی میں رہائش پذیر ہیں بھی اس موضوع پر قلم اُٹھا چکے ہیں اُن کا بلاگ "لالہ، ملالہ اور
عالمی بدمعاشی" پیش خدمت ہے۔ ہمارے ایک اور بلاگردوست انجینئر عمیر ملک بھائی جو جرمنی میں قیام پذیر ہیں، نےبھی اپنے بلاگ "پانچواں درویش" میں بھی اس معاملے پر اپنے ایک پوسٹ "لالہ لینڈ" میں نہایت ہی خوبصورت پیرائے میں بات کی ہے۔ روزنامہ "مشرق" پشاور میں حیدرجاویدسید صاحب نے بھی "سوشل میڈیا" کے مجاہدین کے نام سے ایک خوبصورت کالم تحریرکیا ہے، جس میں اُنہوں نے اسی موضوع کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر لوگوں کی بغیر تصدیق اور تحقیق کے اعتراضات پر بات کی ہے۔اسی تناظر میں جناب شہزاد عالم صاحب نے کچھ یوں تحریر کیا ہے "ملالہ پر حملہ کے بعد کئی بار قلم اُٹھانے پر مجبور ہوا، مگر پھر یہ سوچ کر قلم واپس رکھتا کہ لوگ کہیں گے کہ میڈیا کا تخلیق کردہ کردار یعنی ملالہ کے پیچھے خود ہی میڈیا پڑ گیا۔"شہزاد عالم صاحب نے بہت قریب سے اس سارے معاملے کا مشاہدی کیا ہے اور خود بھی بہت ساری باتوں کے
گواہ ہیں۔ اُن کا قلم اُٹھانا اور اس بارے تحریر کرنا بڑی بات ہے۔
نعیم بھائی، آپ نے حق قلم ادا کیا ہے۔ اسے کہتے ہیں لگی لپٹی رکھے بغیر حق بات کہنا۔
ReplyDeleteلالا۔ پھر تمہیں بھی کہیں! طالبانی
ReplyDelete:)
مجھے چھوٹی عمر سے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق رہا ۔ جب میری شادی ہو گئی تو بڑے بتاتے کہ میں 8 سال کی عمر میں لطیفے اور کہانیاں بناتا تھا ۔ میں نے ملالہ یوسف زئی کے متعلق ہر تحریر کو بغور پڑھا ۔ مجھے اول سے لے کر آخر تک یہ ڈرامہ ہی محسوس ہوا ۔ ملالہ کو جو گولی لگی تھی اس کے متعلق کہا گیا تھا کہ سر میں لگی اور گردن تک اُتر گئی ۔ مگر کمال کہ ملالہ کو معمولی سا لقوہ ہوا اور باقی سب ٹھیک ۔ واضح ہے کہ اول یوم سے ہر خبر ایک خاص منصوبے کے تحت بڑے محتاظ طریقے سے چلائی گئی ۔ اصل یہ ہے کہ لوگ جس سے اللہ سے دور ہوئے ہیں پروپیگنڈہ کے پجاری بن گئے ہیں ۔ کیا یہی ظلم نہ تھا کہ ملالہ کو تو ہیلی کاپٹر میں پشاور پہنچا دیا گیا اور اُس کتھ زخمی ہونے والی دوسری لڑکی کو کسی نے پوچھا ہی نہیں ؟
ReplyDeleteبہت خوب نعیم ! اللہ تمہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے
ReplyDeleteملالا کے بارے می اک دوست سے بات ھوی تھی کچھ دن پھلے، کیا ھی اچھا ھوتا کے اس وقت تک مجھے اپ کی اس کاوش کا پتا ھوتا ۔ بھرحال اپ کی ریسرچ لاجواب ھے۔ٰ
ReplyDeleteملالا کے بارے می اک دوست سے بات ھوی تھی کچھ دن پھلے، کیا ھی اچھا ھوتا کے اس وقت تک مجھے اپ کی اس کاوش کا پتا ھوتا ۔ بھرحال اپ کی ریسرچ لاجواب ھے۔ٰ
ReplyDelete