Monday 1 July 2013

July 01, 2013

ایچ ایم کالامی (اسلام آباد):             آج کل دارالحکومت میں طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ شہریوں کی راتوں کی نیند حرام ہو چکی ہے اور گرمی پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ہمیں بھی جب تین دن کی چھٹی ملی تو اسے مشرق کے سویٹزر لینڈمیں گزارنے کا ارادہ کیا۔فوراََ سوات پہنچنے کی لالچ میں اسلام آباد سے منگورہ تک راتوں رات سفر کا آغاز کیا۔

رات دو بجے پنڈی سے روانہ ہوئے اور جب منگورہ پہنچے تو صبح کے سات بج رہے تھے۔پانچ گھنٹے کے طویل اور متواترسفر کی وجہ سے سر پھٹا جارہا تھا۔مگر ’ ہمت مرداں مدد خدا‘ کہتے ہو وادی کالام بس سٹینڈکا راستہ ناپنا شروع کیا۔کالام بس ٹینڈ پہنچا تو کنڈیکٹر ’کالام‘’کالام‘ کی سماعت خراش آواز بلند کر رہا تھا۔میں بھی شیشے کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہوگیا۔دو سیٹوں کے علاوہ باقی سب پرمسافروں نے ٹوپی، چادر، اخبار اور تھیلی اور پتہ نہیں کیاکیا رکھ کر اپنا تسلط جمایا تھا۔کچھ دیر انتظار کے بعد دو مزید سواریاں بھی مویشیوں کو کھلانے والا چارے کی دو بڑی بوریاں کاندھوں پر اٹھائے قدم رنجہ فرما گئے۔وہ پسینے میں شرابور تھے۔ کنڈیکٹر نے بوریوں کو تاڑ کر کہا سات سو روپے دینے پڑیں گے بوریوں کے؟
سواریاں انصاف کی بھیک مانگنے لگے تو کنڈیکٹرنے ایک ہی سانس میں ایک لمبی چوڑی تقریر جھاڑتے ہوئے کہا’دراصل سامان کا کرایہ بنتا ہے پانچ سو روپے اور پولیس کو چالان دینا ہے دوسو روپے کل ملا کے بنتا ہے سات سو روپے جانا ہے تو ٹھیک نہیں تو دوری گاڑی کا بندوبست کریں۔‘‘ بیچارے اب اتنی بھاری وزن کو سر پر اٹھا کر اس جھلستی دھوپ میں کہا ں بھٹکتے پھرتے۔مجبوراََ کندیکٹر کے مرضی کے مطابق جانے پر راضی ہوئے۔
ڈرائیور نے سفر کی دعا پڑھنے کی آوازدی اور گاڑی جانب منزل روانہ ہوئی۔منگورہ بس سٹینڈ سے نکلے ہی تھے کہ ایک موٹر سائکل سوار ٹریفک پولیس نے گاڑی روک لی ۔ڈرائیور نے بڑے اطمینان اور خوشی سے کچھ رقم ان کے ہاتھ میں تھما کر پرچی وصول کی اور گاڑی کے پہیے ایک بار پھر گھومنے لگے۔جب فضاگٹ کے پرفضا مقام پردریائے سوات کے ساتھ چلنے والی سڑک سے گزرنے لگے تو دریائے سوات کے یخ پانی کے چھینٹیں ہمارے گالوں پر تھپکی دینے لگے اور دوسرا سرد ہواؤں نے بدن کو چھوتے ہی تھکاوٹ کو گویا ہوا کردیا۔پوری رات سفر کرکے بے خوابی کا شکار ہونے کی وجہ سے فضاگٹ کے یخ ہواؤں کے سحر نے ہمیں گھوڑے بیچ کر سونے پر مجبور کردیا۔اور پھر ہماری آنکھ مدین بازار میں ہی جاکر کھلی۔
گاڑی بل کھاتے ہوئے سڑکون پر بل کھاتے ہوئی سواریوں کو ایک دوسرے پر دے مارتی تھی ۔الغرض سڑک ہم پرفزکس کے انرشیا، مومنٹم، سینٹری پیٹل سینٹری فیوگل فورس اور نیوٹن کے تینوں قوانیں آزما کر ہمارامحلول بنانے کی تجربات کررہے تھے۔کچھ سواریاں انتہائی طیش میں آکر کبھی خود کو برا بلا کہہ رہے تھے کبھی حکمرانوں کو۔میں سفر کے دوران میں یہی سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وادی کو کتنا حسن دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اسے درد دل رکھنے والے حکمران بھی دیتا۔
خدا خدا کرکے کالام پہنچے تو ہماری حالت غیر ہوچکی تھی ۔ گھر کو بھاگے اور آرام کرنے بستر میں دبک کر سو گئے ۔ور پہنچتے ہی لیٹ گیا۔شام کو موبائل کی گھنٹی نے جگا دیا ۔آنکھ ملتے ہوئے دیکھا تو دوست امداد ساون کی کال تھی ۔علیک سلیک کے بعد انہوں نے بازار آنے کو کہا۔بازار پہنچے امداد ساون ، یونس خان کو ساتھ لیکر نبیل کے دکان میں پڑاؤ ڈالا ۔ سرد موسم میں گرم گرم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے خوش گپیاں کرتے رہے ۔ نبیل کے دہینڈی کرافٹس میں سوات کی روایتی ٹوپی، واسکٹ اور گاگرا وغیرہ آئے ہوئے سیاحوں کے لئے وادی سوات کی روایتی ملبوسات کا بہترین نمونہ ہے ۔ شام کو سویرے ہی وادی کالام کے پر سکون ماحول میں نیند کے مزے لوٹنا ایک الگ عیاشی ہے ۔لیکن طویل مسافت کی وجہ سے تھک کر چورشخص کوسکون تھوڑی دیر سے ملتا ہے ۔ ساری رات کروٹ پہ کروٹ بدلتا رہا ۔اگلے دن اپنے دوست ذاکر جن کو ہم پیار سے ’لیونئے ‘کہتے ہیں کے ساتھ موٹر سائکل پر مٹلتان کی طرف سیر سپاٹے کی خاطر نکلے ۔ راستے میں دلفریب مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے کرتے جیسے ہی اُشو پل پار کیا تو ایک ہیبت ناک چڑھائی کا سامنا ہوا ۔ جسے چڑھتے ہوئے موٹرسائکل خود بخود ون ویلنگ کے کرتب دکھانے لگا د موٹر سائکل کے ساتھ کھینچا تانی کرتے کرتے ہم مٹلتان بازار پہنچ ہی گئے ۔چند جھونپڑی نمادکانیں اور چھوٹاسا چوراہا جہاں مقامی لوگ لکڑ کے بنچوں پربراجمان خوش گپیاں کرتے ہمیں بھی تاکتے رہے ۔ اس چوراہے سے چھوراٹ گاؤں جانے والی ایک گلی نما سڑک پر موٹر سائکل دوڑاتے ہوئے چھوراٹ گاؤں کے آخری سر تک پہنچے تو شام کی تاریکی چھا گئی ۔ تمام راستے فوٹو سیشن چلتا رہا اور بالآخر شام کو ہی واپس ہوئے ۔ 
اگلی صبح پھر سے اسلام آباد کی گرمی اور مچھروں سے لڑنے جانا تھا۔ اس لئے شام ہوتے ہی سو گئے ۔ رات گئے زوردار آندھی نے دروازہ کھولا ۔ میں جاگ گیا نیند ایسے روٹھ گئی کہ واپس دیکھنا تک گوارا نہ کیا ۔ میں اٹھا کاغذ اور قلم کی تلاش میں جیسے ہی دراز کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ روزنامہ چاند کا پرانا شمارہ پڑا ہے جس میں میرا پہلا کالم چھپا تھا ’’ حسین وادی کالام اور تعلیمی صورت حال ‘‘
بشکریہ روزنامہ چاند سوات

0 comments:

Post a Comment