اس راز کو ہم نہ جان سکے کہ انصاف کی دعویداری اور کرپشن وبدعنوانی کے خلاف مبینہ سینہ سپر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے کیوں ایک ایسا قانون جاری کروایا جس کی کی وجہ سے کرپشن اور بدعنوانی کی ترقی ہوگی۔ جس سے عام آدمی پریشانیوں کا اور پولیس ایک بے ثمر بوجھ کا شکار ہوگی جس کی وجہ سے ظلم کرنے والوں کو ظلم کرنے کے مواقع ہاتھ آئینگے۔ جس کے ذریعے عوام کا رہا سہا اعتماد صوبائی حکمران جماعت پر ختم ہوجائے گا اور آنے والے بلدیاتی انتخابات میں عوام بجاطور پر اور یقیناً ہر ایسی جماعت کے خلاف ووٹ دےگی جس نے باقاعدہ آرڈیننس جاری کروا کر اُن کو نہ صرف پسندیدہ اورناپسندیدہ شہریوں میں تقسیم کیا بلکہ اُن کی عزت نفس اور چادر و چاردیواری کی ریاستی تحفظ کو مشکوک اور غیر یقینی بنادیا۔
جنوری 2014 ء میں صوبائی وزیر اعلیٰ نے گورنر کو وہ آرڈیننس بھیجا جو عوام میں عدم مساوات پر مبنی تھا۔ فروری 2014 ء میں گورنر نے اس کو منظور کرتے ہوئے جاری کیا۔ یہ 2014ء کا آرڈیننس نمبر3 ہے جس کے تحت مالکان جائیداد صاف ستھرے محب وطن اور تہی دست لوگ مشکوک و ناقابل اعتبار ٹھہرائے گئے اور جس کے تحت ہوٹلوں، ہاسٹلوں اور کرائے کے مکانات میں رہنے والے شہریوں کی نگرانی کے لئے اُن کے کوائف اور معلومات علاقائی پولیس کو مہیا کئے جائیں گے۔ اب کے بعد جب میں ایک قریب الموت بوڑھا شخص علاج کے سلسلے میں حسب سابق پشاور جاؤنگا تو ہوٹل والے میرے کوائف فوری طور پر قریبی پولیس کو مہیا کرنے کے پابند ہونگے۔ ہم اپنے ہی ملک میں اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں مشکوک ٹھہرے۔
یہاں مینگورہ میں محکمہ پولیس نے دیواروں پر اشتہار لگائے ہیں کہ کرایہ داروں کے کوائف متعلقہ پولیس سٹیشن میں جمع کروائے ورنہ سخت کارروائی ہوگی۔ آرڈی نینس میں کئی ایک دستاویزات ایک کرایہ دار سے مانگے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ زرا معاشرے کے اندر غریب عوام کی مالی اور معاشرتی حیثیت، اُن کی تعلیمی اور مذہبی استعداد کا بھی تصور کرتی۔ کرایہ داروں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان کی پچانوے فیصد تعداد غریب اور غریب ترین اور زیادہ تر پسماندہ لوگوں کی ہوتی ہے اب حکومت نے قانونی طور پر اس اکثریت کو پولیس کے ڈنڈے کے نیچے لاکھڑا کیا۔ میرے خیال میں محکمہ پولیس کو پہلے اس غیر منصفانہ قانون پر ہوم ورک کرنا چاہئے تھا کہ اس کے نفاذ سے پولیس پر کِس قسم کا کتنا مزید بوجھ پڑے گا اور وہ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکے گی کہ نہیں؟ اب تو حکومت یہ کہہ سکے گی کہ قانون کے تقاضے پولیس پورے نہ کرسکی۔ یہ نہیں دیکھے گی کہ قانون اور زمینی حقائق میں فرق تھا جس نے پولیس کی کامیابی کو ناممکن بنایا۔ پھر اِس گہرے مسئلے کا حل خانہ تلاشیاں بھی نہیں ہے۔
مینگورہ میں ایک کرایہ دار نے مجھ سے پوچھا کہ سر! میرا گھرانہ 1958ء سے فلاں خان کے مکان میں رہائش رکھتا ہے جو ہمارا مہربان اور مربی ہے اب مسجد کی دیوار پر اشتہار کے ذریعے پولیس میں کوائف جمع کرنے کی ہدایت ہے (یاد رہے یہ کوائف آرڈیننس نے چوبیس گھنٹوں میں جمع کروانا ضروری ٹھہرایا ہے)۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کاغذات میں اُن دو افراد کے کوائف بھی ہونے چاہئے جن کے تعارف پر مالک مکان نے کرایہ پر مکان دیا۔ مالکانِ مکان کاملکیت نامہ /اقرار نامہ بھی ساتھ لگانا ہوگا۔ اب مجھے کیا معلوم کہ پچاس پچپن سال قبل ہمارے بزرگوں نے کس کے تعارف پر یہ مکان حاصل کیا تھا (یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے خان کے کرایہ دار تھے) میں کِس طرح خان سے اُس کی جائیداد کی ملکیت نامہ طلب کرسکتا ہوں۔
ایک ہوٹل میں چوبیس گھنٹے مہمانوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک تھانے کے حدود میں درجنوں ہوٹلز ہوتے ہیں اور سینکڑوں مہمان۔ آخر کیسے ہوٹلز مالکان اور پولیس حکام اِس سُرعت کے ساتھ یہ کام بطریق احسن مکمل کرینگے اور درست نتائج بھی حاصل کریں گے؟
مجھے یاد پڑتا ہے کہ سوات میں فوجی کارروائی کے بعد فوجی حضرات نے تقریباً اِسی قسم کے ہدایات جاری کئے تھے جو قابل عمل نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑدیئے گئے تھے شاید اُنہی ہدایات کو بغیر تجزئے کے اور اُن کو زیادہ سے زیادہ قابل عمل اور موثر بنانے کی کوشش کے بغیر صوبائی حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے نافذ کروانے کی کوشش کی اگر ایسا ہو تو یہ اور بھی قابل افسوس بات ہوگی۔ اگر فوج یا پولیس کی طرف سے چند تجاویز حکومت کو پیش کی بھی گئی ہوں تو حکمت و دانش اور اچھی حکمرانی کا تقاضہ یہ تھا کہ اُن کا سیکرٹریٹ لیول پر ناقدانہ جائزہ لیا جاتالیکن اُس سیکرٹریٹ کا کیا کہئے جس کو کلرک لیول کے لوگوں سے بھروادیاگیا ہے۔ خوبصورت سجے سجائے کمرے میں بیٹھ کر خیالات تحریر کرنا مشکل کام نہیں ہوتا، اِن کے آگے پیچھے حقائق کا ادراک اور اِن کے مطابق چلنا مشکل کام ہوتا پے۔ یہ آرڈیننس پہاڑوں، صحراؤں سمیت شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں سب پر نافذ ہے۔ وہ غریب کسان، مزدور، ملازم اور چرواہا بھی قانونی طور پر اِس کارروائی کو پورا کرنے کا پابند ہے جو کسی اور کے مکان میں رہتا ہے۔ وہ جج یا مجسٹریٹ یا کوئی اور ٹھیک ٹھاک شہری جو اپنے مکان کا مالک یا رہائشی نہیں ہے وہ بھی پولیس میں اپنے اور اپنے خاندان کا اندراج کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ہر اُس شخص کا جس کا اخلاق، کردار ، ذریعہ معاش یا شہریت کچھ بھی ہو اگر وہ اپنے ذاتی مکان کا رہائشی ہو وہ اِس قانون کے رو سے نہ مشکوک ہے اور نہ نگرانی پولیس کے لئے اہم، بیشک وہ کسی اور ملک کا باشندہ کیوں نہ ہوبس کرایہ دار نہیں ہے تو خود بھی صاف، اُس کے رشتہ دار اور اُس کے مہمان سب فرشتے۔ یہ حقیقت محکمہ پولیس ہم سے بہتر جانتی ہے کہ بڑے اور سنگین جرائم عموماً غریب اور تہی دست لوگ نہیں کرتے۔ ایک خود کش بمبار بیشک ایک غریب مفلوک الحال سحرزدہ نوجوان ہوسکتا ہے لیکن اُسے لاکھوں روپوں کا گولہ بارود اور دوسرے وسائل اور تربیت غریب غرباء فراہم نہیں کرسکتے۔ اِن کاموں کے لئے بڑے پیمانے کے وسائل اور اعلیٰ ترین ذہنی قابلیت اور سماجی حیثیت کی ضرورت ہوتی ہے، اِس آرڈیننس نے اُن سے چشم پوشی کی۔
دہشت گردی کے خلاف حکمران لوگ کراچی، لاہور، اسلام آباد کے محفوظ شیش محلوں میں رہنے والے بیان باریاں کرتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں۔ لیکن اِن کی اہلیت دیکھنے کی ہے کہ جن لوگوں کو دہشت گردی کے الزامات میں پکڑا گیا ہے وہ سینکڑوں کی تعداد میں سیکیورٹی اداروں پر بوجھ بنا کر رکھے گئے ہیں۔ حکومت میں اتنی قابلیت نہیں ہے کہ اُن کو عدالتوں میں پیش کرکے اُن کا فیصلہ کروایا جائے اب اگر اِس آرڈیننس کے تحت دس پندرہ یا دس پندرہ ہزار مزید ملزمان پولیس پکڑ لیتی ہے تو حکمران طبقے اُن کا کیا کریں گے۔ گھاس (خصوصاً فرشی گھاس) کے پتے کاٹنے سے اذالہ نہیں ہوتا اس کا خاتمہ بڑی گہرائی تک زمین کی کھدائی اور جڑیں نکال پھینکنے سے ممکن ہوتا ہے۔ پولیس یا فوج کو جتنا بھی عوام کے گردنوں کو ناپنے کا اختیار ہو اگر بنیادی تدارک نہ کیا جائیں، مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونگے البتہ نفرتیں، مایوسیاں اور عدم تعاون کے جذبوں کو فروغ ملے گا، جن سے منفی قوتوں ہی کو فائدہ ہوگا۔
ہمارے بچوں کو مختلف مافیئے یرغمال کئے ہوئے ہیں۔ ہر مافیہ اتنا طاقتور ہے کہ کوئی بھی حکومت اُسے کچھ بھی نہیں کہہ سکتی یہ مافیئے بالکل اپنی مرضی کے ساتھ بچوں کی تعلیم وتربیت کرتی ہیں حکومت کا اُن پر کوئی کنٹرول نہیں۔ یہ تعلیم وتربیت خواہ کتاب سے ہو یا سی ڈی وغیرہ سے ، عوام کو نہ صرف واپڈا کے ایک سوئچ نے نیم پاگل بنا دیا ہے بلکہ بے لگام مارکیٹ نے اُن کی تمام ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو دیمک زدہ کردیا ہے۔ آزادی کے نام پر میڈیا نہایت ہی زہریلا کردار ادا کررہا ہے۔ پورے ملک کے عوام کی معلومات کے ذرائع بیرون ممالک کے ذرائع ابلاغ ہیں۔ درسی مواد غیر سرکاری ادارے فراہم کرتے ہیں، اُن کی تو بات چھوڑیئے۔ اُن کی طرف حکومتیں آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتیں خود حکومت (خپخ حکومت) کی صرف ایک درسی کتاب کو دیکھئے کہ جماعت دہم کے "مطالعہ پاکستان" کے پہلے سے موجود عمدہ کتاب کو بغیر کسی مناسب وجہ کے ایک نہایت ناکارہ بے مقصد اور جھوٹ پر مبنی کتاب سے تبدیل کیا گیا۔ ہم بچوں کو کیا پڑھا تے ہیں اور جوان ہونے پر خود اپنے ہاتھوں اُن کو آدم خور مارکیٹ اور خونخوار نظامِ حکمرانی کے سپرد کردیتے ہیں۔ عوام دشمن دفتری نظام، عوام دشمن ذرائع تعلیم وتربیت، ہر شعبہ میں انتہا پسندی، افراتفری، تفرتوں کے فروغ، ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے مذہب کا باقاعدہ استعمال عوام اور طلبہ کے ذہنوں کی باقاعدہ تالہ بندیاں، ووٹ کے ذریعے یا بولٹ کے ذریعے یا جنت و دوزخ کی تکرار کے ذریعے حکومتیں حاصل کرنا مشکل نہیں لیکن مشکل کام قوموں کا بنانا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے ہاں نام نہاد جمہوری حکومتوں کو بھی دیکھا اور بندوق بردار حکمرانوں کو بھی۔ تسبیح ہاتھوں میں ، ماتھوں پر سجدوں کے نشانات اور ہونٹوں پر ذکر الہٰی والے مولویوں کی حکومت بھی دیکھی۔ پھر ووٹ حاصل کرنے کے لئے "فرشتوں" کو جھوٹ لکھتے بھی دیکھا۔ کیا ہمارے پاس اچھے کردار اور اچھی حکمرانی کی قابلیت واقعی نہیں ہے؟ بیشک ہے، بس اُسے تلاش کرنے اور اُسے روبہ عمل لانے کے لئے مخلصانہ اور مسلسل تربیت کی ضرورت ہے، اس طرف توجہ دیجئے۔
0 comments:
Post a Comment