Friday 14 March 2014

March 14, 2014
2
چک چک کرتی سیٹی بجاتی ریل گاڑی اچانک یاد آئ جب پشاور بورڈ بازار میں ریلوے کے اہلکاروں کو جانفشانی سے ریل کی قدیم اور بھولی بسری پٹھڑی کو کھودتے ہوئے دیکھا۔ پشاور کبھی باغوں کا شہر کھلایا کرتا تھا، شاہی باغ، جناح باغ، وزیر باغ، کمپنی باغ سمیت بہت سارے باغات اس شہر کی خوبصورتی کے ضامن تھے۔ بڑھتی آبادی، نا مناسب منصوبہ بندی اور چاروں طرف پھیلتے شہر نے یہاں کی خوبصورتی کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ کل ایک دوست کے ساتھ بورڈ بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ پشاور بورڈ بازارمین جمرود روڈ پر پشاور سے حیات آباد کی طرف بائیں طرف واقع ہے۔ اس بازار کی وجہ تسمیہ پشاور کا ثانوی تعلیم کا بورڈ "بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن" کا دفتر ہے جو یہاں کے قریب واقع ہے۔ ساتھ ہی شہر آفاق اسلامیہ کالج، پشاور یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی، ایگریکلچر یونیورسٹی اور دیگر پرائیوٹ یونیورسٹیز اور کالج، سکول اور دیگر تعلیمی ادارے ہیں، جبکہ دوسری طرف یہ یونیورسٹی ٹاؤن اور حیات آباد کے درمیان ہے۔ یہاں پر زیادہ تر افغان مہاجرین کی دکانیں اور اُن کی ضروریات کی اشیاء کے بازار ہیں۔ یہاں پر چھوٹی سی سبزی منڈی، استعمال شدہ گھریلو اشیاء اور لنڈے کی مارکیٹوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور لکڑی و فرنیچر کا کام کرنے والوں کی دکانیں بھی ہیں جو اس علاقے کو اور بھی مصروف اور گنجان آباد بناتا ہے۔ حیات آباد کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کا دارومدار بھی اس بازار پر باقی شہر کی نسبت زیادہ ہے. 
یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے پشاور اور لنڈی کوتل کے درمیان پاکستان ریلوے کی لائن گزرتی ہے، محکمہ ریلوے والے کھدائی کرکے اس پٹھڑی کو صاف کرنے میں مگن تھے۔ یہاں پر مجھے "خیبر سٹیم سفاری" ریل گاڑی یاد آئی۔ یہ ریلوے لائن پاکستان کے بننے سے پہلے انگریز دورحکومت میں بنائی گئی تھی جس کا مقصد شمال سرحدی علاقوں تک آمدورفت اور انگریز فوجی سازوسامان کی جلد و محفوظ رسد وترسیل تھی۔ یہ ریلوے لائن پشاور صدر ریلوے سٹیشن،  یونیورسٹی ٹاؤن، حیات آباد، کارخانوں مارکیٹ (انڈسٹریل زون)، جمرود (جہاں بابِ خیبر ہے) کے علاقوں سے ہوتی ہوئی لنڈی کوتل کی پہاڑیوں میں سے گزرتی ہے۔  یہ ٹریک "پشاور انٹرنیشنل ایئر پورٹ" (جس کا نام گزشتہ حکومت میں نیشنل پارٹی نے اپنے لیڈر کے نام سے تبدیل کرکے باچاخان انٹرنیشنل ایئر پورٹ رکھ دیا ہے) کے مین رن وے کے درمیان میں سے گزرتی ہے۔ جو اس ٹریک کو تھوڑا سا مشکل اور سول ایوئی ایشن اور پاکستان ریولے کے درمیان متنازعہ بھی بناتی ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہماری ابدی نااہلی کی وجہ سے یہ ٹریک بے کار پڑی رہی، تقریباً آٹھ سال پہلے تک اس پر پشاور صدر ریلوے سٹیشن سے جمرد سے ہوتی ہوئی لنڈیکوتل تک " خیبر سٹیم سفاری" ریل چلا کرتی تھی، جس کے دو 1920 کے وینٹیج آئل فائرڈ سٹیم انجن اور دو ڈبے ہواکرتے تھے ایک انجن ڈبوں کو کھینچتا جبکہ دوسرا دھکیلتا ہوا چک چک کرتے سیٹی بجاتے تقریباً ایک صدی پرانے اور قدیم انجن گزرا کرتی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے 2006میں یہ ٹرین بند کردی گئی۔ یہ خیبر سٹیم سفاری پشاور صدر ریلوے سٹیشن سے لنڈی کوتل تک تقریباً 52کلومیٹر کا فاصلہ 34ٹنلز اور 92 پلوں پر سے گزرکر طے کرتی تھی اور تقریباً 3900 فٹ کی بلندی تک لنڈی کوتل کے سٹیشن پر پہنچا کرتی تھی۔ 
اتوار کی صبح کا آغاز اس انجن کی مسحور کن سیٹی سے ہواکرتا تھا جب ہمارے فلیٹ کے پاس ریلوے ٹریک پر یہ ٹرین لنڈی کوتل کی طرف سیاحوں کو لے کرروانہ ہواکرتی تھی۔ "خیبر سٹیم سفاری" ہفتے میں ایک دن سیاحوں کے لئے چلائی جاتی تھی مگر دہشت گردی کی آگ نے جہاں ہماری ساری خوبصورتی کو جلا کر راکھ کردیا یہاں یہ سروس بھی اس کی نظر ہوگئی۔ یہ ریلوے لائن پاکستان افغانستان کی سرحد (بارڈر) تک نہ صرف سیاحت بلکہ تجارتی مال برداری اورعوام کی سفر کے لئے نہایت موزوں اور دفاعی سازوسامان کی نقل و حرکت کے لحاظ سے اہم ہے۔ مگر ہماری ریلوے نے اس کو اتنی اہمیت نہیں دی اور نیٹو کی سپلائی سمیت افغانستان  و مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ ہماری تجارت کا ایک اہم ذریعہ آمد ورفت ضائع ہوتا رہا۔ سالوں نظر اندازی نے اس ٹریک کو منوں مٹی کے نیچے چھپا دیا اور جہاں پہاڑوں اور چٹانوں کے درمیاں یہ پٹھڑی نہایت جانفشانی سے بچھائی گئی تھی اب کھنڈرات میں تبدیل ہو کر ناکارہ ہوچکی ہے۔
موجودہ حکومت کی دلچسپی اور افسران کی محنت کی بدولت پشاور پرانی خوبصورتی کو بحال کرنے کے لئے صوبائی محکمہ منصوبہ بندی وترقیات کے ذیلی ادارے "اربن پالیسی یونٹ" کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ پشاور کی پرانی خوبصورتی اور عظمت رفتہ کو بحال کرکے اس کو دوبارہ باغوں کا شہر بنایا جائے۔ ان کے پروگرام میں دیگر منصوبوں کے ساتھ پشاور کے عوام کے لئے سستی، باعزت اور باسہولت لوکل ٹرانسپورٹ کا منصوبہ بھی شامل ہے جس کو "پشاور ماس ٹرانزٹ" کا نام دیا گیا ہے۔ نیشنل پارٹی کی گزشتہ صوبائی حکومت میں بھی پشاور میں خواتین بس سروس اور سی این جی بس سروس کا آغاز کیا گیا تھا مگر کچھ ہی عرصہ بعد باقی منصوبوں کی طرح یہ بھی پتہ نہیں کہاں گم ہوگیا۔ موجودہ حکومت اس ریلوے لائن کو قابل استعمال بنا کر لوکل ٹرین سروس و بس سروس کا آغاز کرنا چاہتی ہے، جس کی وجہ پشاور کی مرکزی شاہراہوں پر سے ٹریفک کا بوجھ کم ہوجائے گا، محکمہ ریلوے کی غیر دلچسپی کی وجہ سے یہ اہم ریلوے لائن بے کار پڑی ہے۔ صوبائی حکومت کی کوششوں اور محنت سے محکمہ ریلوے والوں کو شاید یہ گمگشتہ ریلوے لائن یاد آگئی اور اس کی صفائی ستھرائی اور بحالی شروع کردی گئی ہے بلکہ ایسا لگ رہا ہے جیسے کھنڈرات کی کھدائی کرکے کوئی آثار قدیمہ تلاش کر رہے ہوں۔ پشاور کی عوام جہاں اس منصوبے سے خوش ہے وہاں یہ اُمید بھی ہے کہ لوکل ٹرین کی سہولت کی اجراء کے ساتھ ساتھ "خیبر سٹیم سفاری" بھی شروع کی جائے گی جس سے نہ صرف سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ عوام گزشتہ دور کی بدامنی کی وجہ سے پائی جانے والی بے چینی بھی دور ہوگی۔ اسی طرح کے دیگر عوامی بہبود کے منصوبے پشاور اور صوبے کی خوشحالی کے لئے جاری رکھے جائیں گے۔ اگر موجودہ سیاسی حکومت کی دلچسپی اور قابل افسران کی محنت جاری رہی تو کوئی شک نہیں کہ پشاور پھر سے باغوں کا شہر بنا جائے گااور ہم عوام کو دوبارہ خیبر سٹیم سفاری کی سیاحت کا موقع ہاتھ آئے گا۔

2 comments:

  1. wao..very nice article..Peshawar is a gift of Allah Almighty.we .only need to protect it..

    ReplyDelete
  2. بہت خوب ، اب تو ریل کی سیٹی کبھی بھولے بھٹکے سے سنائی دیتی ھے تو میری بیگم کہتی ھے کتنی اچھی آواز ہے عرصے بعد سنی ھے

    ReplyDelete