Tuesday 15 July 2014

July 15, 2014
تحریر: پروفیسر سیف اللہ خان

سوات کے سپوت ناصر الملک نے مملکت خداداد پاکستان کے بائیسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھا کر دنیا کے سامنے سوات کا نفیس چہرہ پھر دکھا دیا۔ ورنہ سرزمینِ سوات جو فی الحقیقت خوب صورت لوگوں کی خوب صورت زمین تھی، ظلم اور بربریت کے ایک نشان کی شکل میں دنیا کے سامنے آگئی تھی۔ اس سرزمین پر جہاں قانون شکنوں کا راج ہے، جہاں ذاتی مفاد کو قومی اور جتماعی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے، اُس سے ایک مملکت کے چیف جسٹس کا ظہور دنیا پر ثابت کرتا ہے کہ سوات میں صرف ایک مخصوص طبقہ ملکی قوانین کا منکرہے۔ جب زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، تو اس طبقے کا بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل پایا جاتا ہے جس کے پاس قانون شکنی کے بل بوتے پر اچانک دولت آگئی ہے یا وہ مذہبی اور سیاسی لوگ ہیں جو ’’نیم حکیم خطرۂ جاں‘‘ اور ’’نیم ملا خطرۂ ایماں‘‘ والے زمرے میں آتے ہیں۔ ورنہ عمدہ پس منظرکے سواتی عوام ہر قسم کی تکالیف اور سرکاری و غیر سرکاری جابرین کا جبر برداشت کرتے ہیں، لیکن اچھے اخلاق، عمدہ کردار اور قوانین کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔
سوات جو کہ اپنے قدرتی حسن، اپنی ثقافتی وجاہت، اپنی اعلیٰ انسانی نسلوں اور عظیم تاریخی ورثوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور تھا، نے سن اُنیس سو ستر کی منحوس دہائی سے زوال کی راہ پر قدم رکھا ہے۔ پھر ایسا وقت اس خوب صورت وادی پر بھی آیا کہ یہ جنت نظیر وادی انسانی بربریت کی بدترین مثال بن گئی۔ دنیا کے طول و عرض سے جو بے شمار سیاح سوات امڈ امڈ کر آتے تھے، سوات کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔ 
ادغام ریاست کے بعد صوبہ سرحد (سابقہ نام) کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے ادارے اور محکمے کا سربراہ سوات کا باشندہ ہوا کرتا تھا۔ سروس کے دوران میں ہمارے غیر سواتی ہم کار ساتھی خوش مزاجی کے ساتھ فخریہ انداز سے کہتے کہ بھئی، سوات ہے یا اعلیٰ افسران کی فیکٹری ہے۔ جہاں دیکھو سوات کا باشندہ بڑا افسر ہے۔ ان افسران کی خوش اخلاقی بھی مشہور تھی۔ چند ایک کو چھوڑ کر یہ حضرات نیک نام اور دیانت دار بھی تھے۔ پھر سوات پر ایک سماجی خزاں آگیا۔ اس خزاں میں پاکستان کے حکومتی اداروں کا زوال اور انحطاط ایک بڑا سبب تھا۔ نا اہل سرکاری ملازمین اور ناموزوں اور بد دیانت سیاسی افراد کے برے اثرات پورے ملک کی طرح سوات پر بھی پڑگئے۔ سوات جو ایک سفید خالی کاغذ کی مانند تھا، میں تجارت کے حوالے سے تاجروں کے لیے بڑی گنجائش تھی، لہٰذا مختلف شعبوں میں تجارت سے وابستہ لوگ دوسرے علاقوں سے سوات میں آنے لگے۔ ان میں تیسرے کیا چوتھے درجے کے کام کرنے والے اور پست ترین ذہنی و اخلاقی سطح کے لوگ بھی آگئے اور سوات جو اپنی صفائی ستھرائی، معاملات کی پاکیزگی اور اچھے لوگوں کے لیے مشہور تھا، اپنی شفافیت کھو بیٹھا۔ انھی تیسرے اور چوتھے درجے کے لوگوں نے خود بھی کرپشن کی اور سرکاری محکموں کو بھی کرپٹ بنا دیا۔ پھر جلدی وہ وقت آگیا کہ سوات کے عوام میں عمومی بغاوت کے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ مذہب کی طرف شدید ترین جھکاؤ کی اپنی سماجی، معاشی اور معاشرتی وجوہات اورنتائج ہوتے ہیں۔ یہی نتائج اور وجوہات سیاسی رجحان میں بھی اہم ہوتی ہیں۔ چوں کہ سوات محرومیت کا شکار تھا، عوام میں بے چینی تھی، اس لیے یہاں کے عوام نے کبھی ایک اور کبھی دوسری سیاسی جماعت کا دامن پکڑا، لیکن یہ تہی دست جماعتیں سواتیوں کے دُکھوں کو کم نہ کرسکیں بلکہ اُن میں اضافے ہی کا سبب بنیں۔ آئین کے تحت یہ علاقہ ملکی قوانین کے براہِ راست نفاذ سے محروم ہے۔ اس مشکل نے مزید خرابیاں پیدا کیں۔ لہٰذا بڑی تیزی کے ساتھ عوام ملکی نظام حکمرانی سے پہلے بد دل اور پھر نا امید ہوگئے اور ایک ذہنی خلا نے یہاں جنم لیا۔ اس خلا کو مذہبی لوگوں نے پر کرنے کی کوشش کی۔ وطن دشمن عناصر نے اُس کوشش کو یرغمال کردیا اور پھر سوات کے خوب صورت چہرے کی جگہ ایک خوں خوار چہرہ دنیا کے سامنے آگیا۔ بد قسمتی سے خواص اور عوام کے اندر مختلف انداز کی قانون شکنیوں کی صورت میں یہ خوں خوار شکل آج بھی موجود ہے۔ سوات جس کا اب نام سن کر خوف کا احساس ہوتا ہے۔ سیاح یہاں آنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ اشرافیہ نے یہاں سے نقل مکانیوں کو ترجیح دی ہے۔ ہر قسم کی دھوکہ دہی اور قانون شکنی نے سوات کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اس ’’سرزمین بے آئین‘‘ سے اسلامی ریاست پاکستان کی چیف جسٹس کی کرسی پر یہاں کے سپوت کے براجمان ہونے سے دنیا کے سامنے سوات اور سواتیوں کا نفیس چہرہ ایک دفعہ پھر سامنے آگیا ہے۔ انھوں نے یہ ثابت کردیا کہ سوات محبتوں کی زمین ہے۔ انسان دوستی اور قانون دوستی یہاں کی اکثریت کو پسند ہے۔ یہ لوگ قانون شکن اور خوں خوار نہیں۔
ناصر الملک چیف جسٹس آف پاکستان کی ذاتی اور خاندانی شرافت اور وجاہت بہت ہی قابل رشک ہے۔ مختلف حضرات نے اُن پر لکھا ہے اور اب بھی لکھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم تو بس یہی لکھ سکتے ہیں کہ یہ خاندان ہمارے لیے محترم ہے۔ 
چیف جسٹس صاحب کی آئینی اور محکمہ جاتی ذمہ داریاں اور حدود ایسی ہیں کہ سوات کی براہ راست فلاح و بہبود میں وہ بہت زیادہ کردار شاید ادا نہیں کرسکتے، البتہ اُن کی رفیع الشان حیثیت سے ہمیں یہ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ قوانین کے حدود کے اندر رہتے ہوئے اس علاقے کو ملک کے باقی ماندہ اضلاع کے برابر لانے، اس علاقہ (پاٹا) سے لاقانونیت کے خاتمے اور بری حکمرانی سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

Post a Comment