Wednesday 9 July 2014

July 09, 2014
تحریر:    امجد علی سحابؔ 

میں نے کھڑکی پر لگا دبیز پردہ سرکایا، تو دیکھا کہ ساتھ ہی لائن میں لگی گاڑی میں عورتوں، بچوں اور خاص کر بوڑھوں کا مارے گرمی کے برا حال تھا۔ مائیں اپنے جگر گوشوں کو دستی پنکھے جھلا کر گرمی سے نجات دلانے کی ناکام کوشش میں اپنا جی ہلکان کر رہی تھیں اور خود پسینے میں نہا رہی تھیں۔ جس گاڑی میں اے سی کی سہولت نہ ہو وہاں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا ایک ہی حال ہوتا ہے۔ مریضوں کا تو ان سب سے برا حال ہوتا ہے، مگر کیا کیا جائے کہ ہم تو ایک ’’مفتوحہ قوم‘‘ ہیں اور مفتوحہ قوموں کو قدم قدم پر ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے قسما قسم حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ، رؤف کلاسرا کا ایک تازہ کالم یاد آیا جس میں انھوں نے سابقہ صدر زرداری کا حوالہ کچھ ان الفاظ میں دیا ہے کہ ’’ایک تو وہی بات جو صدر زرداری نے ایک امریکی اخبار کو کہی تھی کہ وہ چاہتے، توسوات میں لاکھوں لوگوں کو گھروں سے نکالے بغیر بھی آپریشن کیا جا سکتا تھا، لیکن اس وقت سوچا گیا کہ سوات کے لوگوں کو بھی تھوڑی سی سزا ملنی چاہیے کہ وہاں کی عورتیں ’’ملا ریڈیو‘‘ پر زیورات نچھاور کرتی تھیں کہ وہ شریعت لائے گا۔ وہ بے گھرہوں گے، لوگوں کی خیرات پر جئیں گے، تو انھیں پتہ چلے گا کہ اپنے گھر کو آگ نہیں لگانی چاہیے، ورنہ سب کچھ اپنا ہی جل جاتا ہے۔‘‘ کلاسرا صاحب آگے رقم طراز ہیں کہ ’’شاید زرداری کی بات درست نکلی کہ بے چارے سواتیوں نے سبق سیکھ لیا اور طالبان کے ختم ہونے پر شکر کیا اور اب پانچ سال ہونے کو ہیں، سوات میں پھر طالبان کی تحریک نے جنم نہیں لیا۔‘‘ یہ کیا کلاسرا صاحب، ہم تو آپ کو بڑے سلجھے ہوئے صحافی مانتے ہیں مگر آپ نے بھی امریکہ سے چاند ماری پر ہی اکتفا کی۔ آپ کو کیا خبر کہ اہل سوات تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مٹھی بھر لوگوں نے ملا فضل اللہ کا ساتھ کیا دیا کہ اس کی سزا ’’تاحال‘‘ پورے سوات کو دی جا رہی ہے۔ 
کلاسرا صاحب، یہ تو وقت بتائے گا کہ دہشت گرد پالے کس نے تھے، کس نے کس پر مسلط کیے تھے، اس تمام تر ’’کھیل‘‘ میں کس نے کتنی ’’قربانی‘‘ دی اور کس نے کتنا ’’مال‘‘ بنایا، کس نے کتنی ’’دہشت‘‘ پھیلائی کتنی ’’تخریب کاری‘‘ کی اور کس نے بحالی کے نام پر کتنا ’’کاروبار‘‘ کیا؟ ان تمام سوالات کے جوابات وقت پر چھوڑ دیتے ہیں، ویسے بھی مملکت خداداد میں ’’شہداء‘‘ کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ ان میں اگر راقم کا بھی اضافہ ہوا، تو اس مفلوک الحال کو تو ’’میگنی فائنگ گلاس‘‘ لے کر بھی ڈھونڈنا مشکل ہوگا۔ 
آمدم برسر مطلب، کنڈکٹر صاحب نے آواز بلند کرتے ہوئے ایک ہی سانس میں ایک لمبی چوڑی تقریر جھاڑی، جس کا لب لباب کچھ یوں تھا: ’’بھئی، جس کے پاس بھی چھری ہو، چاقو ہو، کسی بھی قسم کا آتشی اسلحہ ہو، پرفیوم ہو یا پھر دوا دارو ہو، وہ فوراً سے پہلے پہلے میرے ساتھ جمع کیجیے، ورنہ اگر چیک پوسٹ پر کھڑے ہوئے جوان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا ’’انٹینا‘‘ گھوم گیا، تو ساتھ اس کی کھوپڑی بھی گھوم جائے گی اور کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کے بعد وہ تمام سواریوں کو بھی گھما دے۔‘‘ 
میں نے کوسٹر میں بیٹھے ہوئے لگ بھگ تیس پینتیس سواریوں کا بنظر غائر جائزہ لیا کہ ابھی صدا ہائے احتجاج بلند ہوں گی کہ بھئی ہم کوئی انڈیا کا بارڈر تو کراس کرنے نہیں جا رہے ہیں، جو ہماری اس طرح سخت تلاشی لی جا رہی ہے۔ لمحوں کے حساب سے میرے ذہن میں یہ بھی آیا کہ احتجاج کرنے والا بالکل اکیلا نہیں ہوگا، میں اس کا بھرپور ساتھ دوں گا، چاہے مجھے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دوسرے ہی لمحے سب اپنی اپنی جیبیں اور سفری بیگ ٹٹولنے لگے یعنی بلا چوں و چراں سب نے مذکورہ بالا اشیاء کنڈکٹر حضرت کے ساتھ جمع کیں۔ کنڈکٹر موصوف یہی کوئی دس پندرہ منٹ بعد وارد ہوا اور فرمانے لگا کہ اب گن کر اپنے اپنے شناختی کارڈ مجھے تھمائیں، اگر ایک بھی کارڈ گم ہوا تو ۔۔۔ اس کے کہنے کا مقصد تھا کہ پھر ’’جوان‘‘ بذات خود آئیں گے اور آپ لوگوں کی اپنی شان کے مطابق ’’خاطر تواضع‘‘ فرمائیں گے۔ میں نے پھر مسافروں کا جائزہ لیا مگر اب کی بار بھی سب اپنی جیبیں اور بٹوے ہی ٹٹولتے رہ گئے اور تمام کے تمام خاموشی کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ کنڈکٹر موصوف کے حوالہ کرنے لگے۔ میں نے پردہ سرکایا۔ ساتھ والی گاڑی جس میں ائیر کنڈیشن کی سہولت نہیں تھی، مائیں اسی طرح پنکھے جھلا رہی تھیں، جوان اور بوڑھے ماتھے سے پسینہ پونچھ رہے تھے مگر مجال ہے کہ کسی میں یہ پوچھنے کی ہمت تک ہو کہ بھئی، اتنی سخت گرمی میں ہمیں کیوں آدھے گھنٹے سے اس چیک پوسٹ پر سزا دی جا رہی ہے؟ آخر ٹھیک چالیس منٹ کے صبر آزما انتظار کے بعد ہماری گاڑی کو درگئی چیک پوسٹ پر سے کلیئرنس سرٹیفیکیٹ مل گیا اور ہم ’’مقبوضہ وادئ سوات‘‘ میں داخل ہونے کے لیے محو سفر ہوئے۔ 
ابھی گاڑی بہ مشکل چکدرہ کے مقام پر ہی پہنچی تھی کہ فولڈنگ سیٹ پر بیٹھی ایک سواری کو کنڈکٹر موصوف نے اٹھنے اور نئی آنے والی سواری کو جگہ دینے کا کہا۔ فولڈنگ پر بیٹھی ہوئی سواری کنڈکٹر کے ساتھ بھڑ گئی کہ کیوں مجھے بار بار اٹھا رہے ہو؟ کیا میں نے کرایہ ادا نہیں کیا ہے؟ کنڈکٹر نے جواباً کہا کہ بھئی، کرایہ تو تم نے دیا ہے۔ جس سیٹ پر تم بیٹھے ہو یا تو اس سے پیچھے والی خالی سیٹ پر بیٹھ جاؤ یا نئی آنے والی سواری کو راستہ دو۔ یہ سنتے ہی اولذکر سواری طیش میں آئی اور کنڈکٹر سے کہنے لگی کہ میں تو اپنی نشست سے اٹھنے والا نہیں، چاہے مجھے گاڑی سے اترنا ہی کیوں نہ پڑے۔ کنڈکٹر نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اسے اس کا آدھا کرایہ ادا کرکے چکدرہ چوک میں ہی اتاردیا۔ میں نے پردہ سرکایا۔ کھڑکی کھولی اور چشم زدن میں اس نوجوان کے سراپے کا جائزہ لیا۔ کشادہ سینہ، چوڑے چکلے شانے، تلملاتا چہرہ، آنکھیں غصے سے لال اور اس پر غضب اس کی تاؤ دی ہوئی مونچھیں، ہر لحاظ سے ایک مکمل نوجوان۔ میں زیر لب بڑبڑایا: ’’پاگل! جہاں غصہ ہونا تھا، وہاں صبر سے کام لیا اورجہاں تھوڑے سے صبر کی ضرورت تھی وہاں نزلہ گرا دیا۔‘‘ میں نے کھڑکی بند کی، پردہ سرکایا اور ہینڈز فری کی مدد سے منیر نیازی کی نظم سننے لگا ، آپ بھی ملاحظہ کیجیے: 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


0 comments:

Post a Comment