Wednesday 9 July 2014

July 09, 2014
پروفیسر(ر) سیف اللہ خان 

یہ تین حروف اردو، پشتو اور فارسی کے ابتدائی حروف ہیں۔ ان کے بغیر زبانیں نا مکمل ہیں اور یہ تین زبانیں افغانستان، بھارت، پاکستان اور ایران کی بڑی اور تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ لیکن ہم ان حروف کوزبانوں کے ابتدائی حروف کی شکل میں نہیں لیکن برصغیر کے ان بڑے ممالک کے ناموں سے اٹھائے گئے پہلے حروف کی وجہ سے لے رہے ہیں، یعنی افغانستان بھارت اور پاکستان۔ جس طرح ان زبانوں کے حروف تہجی کے قاعدے میں باقی حروف ان حروف کے بعد آتے ہیں، اسی طرح افغانستان بھارت اور پاکستان (اب پ) برصغیر کے اہم ترین اور صف اول کے ممالک ہیں، باقی ممالک ان کے بعد ہیں۔ دنیا کے اس حصے میں اگر یہ تینوں ممالک پُرامن اور روبہ ترقی ہوں، تو تمام خطے پر بہتر مثبت اثرات پڑیں گے۔ اگر یہ تین ممالک بے چینی اور افراتفری کا شکارہوں، تو یہاں امن ہوگا نہ ترقی اور نہ عوام ہی پُرسکون ہوں گے بلکہ یہ خطہ دنیا کے قاتل تاجروں کا ایسا مرکز ہوگا، جہاں انسانوں کے خون اور آبرو پر اربوں ڈالروں کا کاروبار چلتا رہے گا۔ 

افغانستان اور بھارت میں بالکل نئی حکومتیں ہوں گی یا نہیں، پاکستان میں بھی حکومت تقریباً نئی ہے۔ پاکستان نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات میں سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کی شکل میں حتی المقدور اپنا کردار ادا کرنے کے بعد محمود خان اچکزی کو نمائندہ خصوصی بنا کر کابل بھیجا۔ وہاں سے رنگین صاحب تشریف لائے۔ ایک ماں کے لیے ساڑھی کا تحفہ اور دوسری ماں کے لیے شال کا تحفہ۔ یہ ایسے اشارات ہیں جن سے ہم جیسے عام شہریوں کی اُمیدیں امن کے حصول کے لیے پھر وابستہ ہورہی ہیں۔ سیاست کاروں میں عمدہ بصیرت، اعلیٰ کارکردگی، قوم کے ساتھ وفاداری، دلیری، بہادری، موقع شناسی، دلیل کی بات کرنے، سننے اور ماننے کی صلاحیتیں ضروری ہوتی ہیں۔ جذباتی فیصلے، کم حوصلگی، کوتاہ بینی اور ذاتی مفاد کا خیال کسی بھی لیڈر کی قوم و ملک کے لیے تباہ کن خصلتیں ہوتی ہیں۔ ہمارا علاقہ خصوصاً اور باقی ماندہ عالم اسلام عموماً اس آخر والی صورت حال کا عرصہ دراز سے شکار ہے۔ اہل مغرب کی سوچ اور پالیسیاں ان کے اپنے قومی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ بارہا باقی ماندہ دنیا کو تجربہ ہوا ہے کہ مغرب کی پالیسیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اُن کو صرف وہ طور طریقے اور لوگ پسند ہوتے ہیں، جن سے اُن کے فوائد ہوں۔ اور اپنے فوائد کے تحفظ کے لیے انھوں نے چھوٹے ممالک میں اپنے کام کے لوگ پالے ہوئے ہیں۔ جس وقت اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ حالات اُن کے مفادات کے مخالف سمت جا رہے ہیں، وہ اپنی پالتو قوتوں سے ان چھوٹے ممالک میں ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں جو اُن کے فائدے میں ہوں۔ اس مقصد کے لیے چھوٹے ممالک کے لاکھوں افراد کیوں خاک و خون میں نہ تڑپیں؟ کیوں اربوں ڈالروں کا نقصان نہ ہو؟ روحانی، مادی نقصانات اور تباہیوں سے ان خود غرض اقوام کی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اُن کو اگر غرض ہوتی ہے، تو صرف اپنے مفادات سے۔ اُن کے وفادار خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں، اُن کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اُن سے کام لیا اور پرانی جوتی کی طرح کچرے میں پھینک دیا۔ جو زیادہ اہم ایجنٹ ہوتے ہیں، اُن کے سینوں میں بڑے راز ہوتے ہیں، اس لیے اُن سے کام لینے کے بعد اُن کو دوسرے جہاں میں پہنچایا جاتا ہے۔ تاکہ راز فاش نہ ہوں۔ 

ذہنی اور مادی لحاظ سے ترقی یافتہ اقوام، چھوٹی اقوام کے جذبات سے تعلق رکھنے والے موضوعات سے فوائد اُٹھاتی ہیں۔ جن اقوام میں مذہب عوام کا دل پسند ہو، وہاں اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جہاں قومیت دل پسند موضوع ہو، وہاں اس سے کام لیا جاتا ہے۔ جہاں عوام اور خواص کی لالچ برائے حصول زر ہو، وہاں پہ الگ حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان تمام امور کے لیے کافی سرمایہ اور کافی ذہانت مہیا کی جاتی ہے۔ا پنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسے افراد پیدا اور استعمال کیے جاتے ہیں،جن کو پچھاڑنا آسان نہیں ہوتا۔ 
جس طرح ایک عام تاجر اپنے پڑوس میں اُسی مال والے دوسرے تاجر کو پسند نہیں کرتا، اسی طرح یہ ترقی یافتہ اقوام اپنے مقابلے پر آنے والی دوسری قوتوں کو پسند نہیں کرتیں۔ خصوصاً اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کو اس مقصد کے لیے ناکارہ بنانا وہ کارگر ترین حربہ سمجھتی ہیں۔ اس لیے تعلیمی اور ابلاغ عامہ کے شعبوں کی کمزوری کو استعمال کرتے ہیں، تاکہ اُن کی ہدف Target) ( اقوام، علم و حکمت میں آگے نہ ہوں۔ اُن میں بصیرت پیدا نہ ہو۔ 
افغانستان اور پاکستان کے عوام عشروں سے اپنے ہی خون کے تالاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بھارت میں بھی عوام کی خوشحالی قابل رشک نہیں۔ اسلحے کی دوڑ اور اس کے استعمال، منافقانہ سیاست اور دشمنیوں سے کچھ حاصل ہوسکا اور نہ ہوسکے گا۔ اب موجودہ بہ ظاہر بہت معمولی قسم کی کوششوں سے یہ اُمیدیں پیدا ہوئی ہیں کہ تینوں ممالک کی لیڈر شپ اور اشرافیہ جذباتیت اور منافقت کے طریقوں کو چھوڑ کر اس خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے سنجیدہ کام شروع کریں۔ اس راستے میں شدید رکاؤٹیں اور مخالفتیں موجود ہیں اور ہوں گی، لیکن گولی کی جگہ بولی اور دشمنی کی جگہ دوستی ہی اس علاقے اور اس کے عوام کے فائدے میں ہے۔ البتہ اس کی مخالف قوتوں کا رد عمل ضرور ہوگا۔ 
مغرب کی تو یہ حالت ہے کہ جو حکومت اُن کو پسند نہ ہو، خواہ وہ لڑ کر حاصل کی جائے یا انتخابات کے ذریعے حاصل کی جائے، وہ اُسے ختم کرتا ہے۔ افغانستان اور مصر اس کی مثالیں ہیں۔ ایران، شام، عراق اور لیبیا میں مغربی ڈپلومیسی کا مطالعہ آسان ترین ہے۔ 

0 comments:

Post a Comment