Tuesday 23 September 2014

September 23, 2014
تحریر: نعیم خان 
دودھ انسانی غذا کا ایک اہم جزو ہے۔ دودھ نہ صرف ایک مکمل غذا ہے بلکہ شفاء بھی ہے۔ ہمارے پیغمبر ﷺ کی پسندیدہ ترین غذاؤں میں دودھ بھی شامل ہے۔ دودھ کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے، یہ انسان کی اولین غذا ہے جو پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک ہر عمر میں صحت کے لئے ایک نہایت ہی اہم اور ضروری ہے جو کہ انسانی وجود کی تمام تر ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ اس میں معدنیات، جیسے کیلشیم وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جو کہ ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی کے لئے نہایت اہم ہے۔ دودھ میں موجود پروٹین جسم کی حیاتیاتی ضروریات کو پورا کرتا ہے ، جبکہ ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک گلاس دودھ انسانی جسم کی تقریبا چوالیس فیصد 44% حیاتیاتی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا میں بھارت دودھ کی پیداواراوراستعمال میں سب سے آگے ہے جہاں سروے کے مطابق سالانہ حساب سے تقریباً ۱۱۰ ملین ٹن دودھ پیدا ہوتا ہے۔ امریکہ ۸۵ ملین ٹن کے ساتھ دوسرے نمبر پر، تیسرے نمبر پر ۴۰ ملین ٹن کے ساتھ چین اور چوتھے نمبر پر ہمارا ملک پاکستان ، جہاں دودھ کی سالانہ پیداواراتقریباً ۳۴ ملین ٹن ہے۔ 
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی موزوں آب و ہوا اور زرعی اعتبار سے نہایت ہی زرخیز زمین عطا کی ہے۔ پاکستان کے ہر خطے میں اُس علاقے کی آب وہوااور موسم کے مطابق زراعت ہوتی ہے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں زراعت کو اس طرح سے ترقی نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی۔ اس وقت پاکستان کی زراعت کا زیادہ تر انحصار پنجاب پر ہے جہاں پر زرعی شعبے میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔ باقی کے صوبے بھی اپنی سطح پر زراعت اور خاص کر ڈیری فارمنگ اور دودھ کی پیداوار میں اضافے اوراس میدان میں ترقی کے لئے کوشاں ہیں اور ہر سطح پر زمیندار اور فارمر کو مدد فراہم کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں محکمہ زراعت بھی لائیوسٹاک اور ڈیری ڈیویلپمنٹ میں کافی کام کررہا ہے ہے۔ محکمہ زراعت کا ایک پروگرام \"میٹ اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ\" ہے، اس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر اسلام صاحب کے مطابق \"میٹ اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ\" صوبہ کے کئی اضلاع میں زمینداروں اور فارمرز کو دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافے کے لئے مفت ٹرینگ، ادویات، ویکسین، ڈیری فارم کے بنانے میں مالی امداد کے ساتھ ساتھ مشینری کی مد میں مدداور دیگر مراعات فراہم کررہا ہے۔ اس پراجیکٹ سے فائدہ اُٹھانے کے لئے لازمی ہے کہ فارمر/زمیندار کے پاس دس گائے یا بھینسیں بغرض دود ھ یا گوشت کی پیداوار کے لئے مووجود ہوں، جبکہ دیگر پراجیکٹس کے تحت نئے فارمزکی رہنمائی اور اس میدان میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔
ڈیری مصنوعات کی مانگ میں اضافے اور روز مرہ ضروریات کو دیکھتے ہوئے کئی افراد اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن زمینداروں اور فارمز کی کم تعلیمی معیار کی وجہ سے اس فیلڈ میں خاطرخواہ اضافہ نہیں دیکھا گیا مگر اب اس میدان میں کئی پڑھے لکھے افراد بھی سرمایہ کاری کرنے کے لئے میدان میں آرہے ہیں جو کہ  خوش آئند بات ہے۔انہی افراد میں پشاور کے ایک نوجوان انجینئرامجد امین بھی ہیں جن کا تعلق ضلع صوابی سے ہے، جنہوں نے تجرباتی بنیاد پردودھ کی پیداوار کے لئے اپنے گاؤں میں دس گائیوں اور بھینسوں سے کاروبار کا آغاز کیااور آج ایک مکمل ڈیری فارم کھولنے کی تیاری کررہے ہیں۔اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا یہ تجربہ نہایت خوشگوار رہا ۔ روزمرہ زندگی میں دودھ کی ضروریات کو پورا کرنے اور اس میدان میں خود کفیل ہونے کے لئے اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو ڈیری فارمنگ میں آنا چاہئے اور اس میدان میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھرپور مدد حاصل کرنی چاہئے۔ چونکہ دودھ ایک ایسی غذا ہے جس کی ضرورت ہر گھر میں ہوتی ہے اس لئے اس کی مانگ بھی زیادہ ہے ۔ اچھی نسل کے دودھیل جانوروں سے اچھے معیار کا دودھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دودھ کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لئے زمیندار؍مارمرزکو اچھی نسل کے جانوروں کے حصول کے ساتھ ساتھ اُن کی اچھی اور متوازن غذا کا بھی خیال رکھنا لازمی ہے اور وقتاً فوقتاً ویٹنری ڈاکٹر سے جانوروں کا معائنہ بھی لازمی ہے۔ جانوروں کو کھلی اور ہوادار جگہوں پر رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ اُن کو تازہ خوراک کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا ماحول ملے اور اگر ممکن ہو تو سائنسی طریقوں سے اُن کی افزائش نسل کے ساتھ ساتھ اُن سے دودھ بھی ہائی جین طریقے سے لیا جائے۔
اُنہوں نے اس خواہش کا اظہاربھی کیا کہ اگر حکومت بھی پڑھے لکھے نوجوانوں کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ مراعات بھی دے تو کوئی شک نہیں کہ پڑھے لکھے لوگ بھی ڈیری ڈیولپمنٹ میں اپنا حصہ بھر پور طریقے سے انجام دیں گے اور ہمارے صوبے سمیت پاکستان بھی دودھ کی پیداوار میں آگے بڑھے گا۔
جہاں دودھ کی پیداوار ضروری ہے وہاں صارف کو معیاری اور تازہ دودھ پہنچا نا بھی بہت اہم ہے ۔ صارفین کی ضروریات اورطلب کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹ میں کئی اعلیٰ قسم کی پیکنگ میں دودھ دستیاب ہوتا ہے مگر کھلے دودھ کی مانگ میں بھی کمی نہیں آئی، گوالے جو دودھ لے کر گھروں پرپہنچاتے ہیں اکثر ناقص صفائی اور کوالٹی کی وجہ سے عوام کو شکایت رہتی ہے۔ دودھ کو ٹھنڈا اور جراثیم سے پاک رکھنے کے لئے اب مارکیٹ میں کئی اقسام کی مشینیں اور چلرز(دودھ کو ٹھنڈا اور جراثیم سے پاک رکھنے والی مشین) دستیاب ہیں جن میں تازہ دودھ کو سٹور کیا جاتا ہے ۔ ان مشینوں کی آمد کی وجہ دودھ فراہم کرنے والے دکانداروں کے لئے بھی آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ مارکیٹ میں اب دودھ کی کئی بڑی بڑی دکانیں کھل گئی ہیں جہاں دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء تازہ اور خالص دستیاب ہوتی ہیں۔
مینگورہ سوات میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ دودھ کی طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے ، جن کی ضروریات اب مقامی طور پر دودھ کی پیداوار سے مشکل سے پورا ہوتا ہے ۔اس طلب کو دیکھتے ہوئے مینگورہ شہر میں کئی بڑی دکانیں کھل چکی ہیں جہاں تازہ دودھ دستیاب ہوتا ہے۔ انہی افراد میں سے ایک نوجوان محمد علی ہیں ، جنہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کاروبار کو اپنایا ۔ محمد علی نے بتایا کہ اس وقت صرف مینگورہ شہر میں دودھ کی تقریباً چار بڑی بڑی دکانیں ہیں جہاں پنجاب سے منگوایا گیا تازہ دودھ چلرز میں محفوظ کرکے بیچا جاتا ہے۔ یہاں دودھ کے ساتھ اس کے بائی پراڈکٹس مثلاً دہی، گھی،کھویا، پنیر، کھیر، ربڑی وغیرہ بھی دستیاب ہوتی ہے۔ مینگورہ شہر میں صرف ان چار دکانوں کوروزانہ تقریباً دس ہزار لیٹر دودھ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والا دودھ اس کے علاوہ ہے۔ان دکانوں کوہر دوسرے دن بعد پنجاب کے دودھ کے فارمز سے تقریباً ۳۵۰۰ لیٹر سے ۴ہزار لیٹر تک سپلائی ہوتی ہے۔ گرمی کے موسم میں دہی کے استعمال میں اضافہ کی وجہ سے دودھ کی طلب میں بھی اظافہ ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے صرف مینگورہ شہر میں یہ طلب روزانہ دس ہزار لیٹر سے پ۱۵ہزار لیٹر تک بڑھ جاتی ہی۔پنجاب کے فارمز مختلف چھوٹے فارمرز سے دودھ اکٹھا کرکے ان کو ٹھنڈا کرکے اپنی گاڑیوں میں ملک کے مختلف شہروں کے ڈیلروں کو سپلائی کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دکاندار اور صارف کو بروقت تازہ اور خالص دودھ فراہم ہوتا ہے۔ 
پاکستان میں دودھ کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے ہر سال اربوں روپیہ کے عوض خشک و تر دودھ درآمد کیا جاتا ہے، جس سے ملک کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔پشاور انجینئرامجد امین اور سوات کے محمد علی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ، اگر حکومت ڈیری ڈیویلپمنٹ پر خاص توجہ دے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس طرف آنے کی ترغیب اورڈیری ڈیویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے بہتر مواقع فراہم کرے تو کوئی شک نہیں کہ کچھ عرصہ بعد پاکستان بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ دودھ برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوگا۔ 

0 comments:

Post a Comment