Wednesday 24 September 2014

September 24, 2014
تحریر: پروفیسر (ر) سیف اللہ خان، مینگورہ سوات

جاننے والے جانتے ہیں کہ پوری دنیا کی پرانی اور قدیم تہذیبوں میں وادئ سوات کا بھی ایک قابل قدر مقام تھا (اب ہے یا نہیں میں آسانی کے ساتھ نہیں لکھ سکتا)۔ قدیم زمانے میں تراشا گیا ایک بت اُس کو خدا تسلیم کرنے والوں کی نظروں میں خدا ہوگا لیکن ایک مسلمان طالب علم کے لیے وہ خدا نہیں لیکن ثقافت کی تاریخ کا ایک ورق ہوتا ہے۔ سوات میں تا حال دست یاب اکثر بت زیورات سے آراستہ ہیں۔ انھوں نے لباس زیب تن کیا ہے۔ اس لیے تاریخ کے طالب علم کو یہ جاننا آسان ہوتا ہے کہ آج سے کئی ہزار سال قبل سوات کے لوگ وحشی نہیں تھے بلکہ مہذب اور ترقی یافتہ قوم تھے۔ جب بت زیورات سے آراستہ ہے، تو یہ ثابت ہوتا ہے اُس وقت یا اُس وقت سے بھی قبل سوات کے لوگ زمین سے قیمتی دھاتیں نکالنا جانتے تھے۔ اُن کے ہاں سنار اور جوہری موجود تھے۔ وہ تمام کیمیکلز اور اشیاء رکھتے تھے جو دھاتوں کو کار آمد بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ 
جب انھوں نے بت تراشے تو اُن کے پاس ہتھوڑے اور دوسرے اوزار موجود تھے۔ گویا کہ وہ لوہے کو حاصل کرنا اور اُس سے اوزار بنانا جانتے تھے۔ جب ہم کسی قدیم بت کو لباس زیب تن کیا ہوا دیکھتے ہیں، تو یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے سوات کے لوگ ننگ دھڑنگ، جنگلی نہیں تھے بلکہ وہ اُون حاصل کرنا یا کپاس اُگانا اور اُس سے کپڑا بنانا اور کپڑے کو سی کر لباس بنانا جانتے تھے۔ گویا کہ اُن کے پاس کاشت کار، پھر ننداف، پھر جولاہا، پھر درزی موجود تھے۔ 
اگر کسی بت یا کسی اور قدیم شے کے ساتھ کوئی تحریر موجود ہو، تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ سوات کے لوگ ہزار ہا سال قبل لکھنا جانتے تھے اور ظاہر ہے پڑھنا بھی۔ 
مرحوم والئی سوات کو خدا غریق رحمت کرے۔ وہ ہر طرح سے حکم رانی کے قابل شخص تھے۔ انھوں نے جہاں سوات کی ترقی اور بہبود کے دوسرے بے شمار اقدام کیے، وہاں اس وادی کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کرنے اور اسے محفوظ کرنے کے لیے بھی ایک بہت ہی مثبت کردار ادا کیا۔ 
ہمارے بچپن کے دنوں میں بت کڑہ کے مقام پر اٹلی کے ماہرین آثار کو کھدائی کرنے کی دعوت والئی سوات نے دی ہوگی اور پھر ہزاروں سالہ پرانا قصبہ دنیا کے سامنے آگیا۔ 
سنی سنائی بات ہے کہ ان کھنڈرات سے بدھ دور کی ایک کتاب بھی ملی تھی جس کے اوراق پتھر کی سلیں تھے اور اُن پر بدھا اور اُس کے مذہب سے متعلق یا دوسرے معاملات سے متعلق باتیں لکھی تھیں۔ 
یہ بھی ہم نے سنا ہے کہ پھر یہ نوادرات چوری ہوگئیں اور سوات تو کیا پاک و ہند کے پاس یہ نادر کتاب نہ رہی۔ وللہ اعلم کہ یہ سنی سنائی بات ٹھیک یا غلط ہمیں معلوم نہیں۔
ریاست سوات کے دور میں سوات کا معاشرہ اپنے مکمل اور اصل ثقافتی شکل میں تھا۔ شادی بیاہ کی سادہ رسومات، بچوں کے ختنہ پر منعقد ہونے والی محفلیں اور تقاریب، غم اور ماتم پر عوام کے طور طریقے، رمضان شریف اور عیدین کی تقاریب، آفات اور بلاوؤں کو دفع کرنے کی روایات، اچھی فصلوں پر خیر و خیرات ( آج سوات میں کیا ہے؟ مذہب اور ملکیت کے نام پر استحصال) زمین داروں، کاشت کاروں، اہل حرفہ اور ملازموں کی حدود اور ذمہ داریاں، خان کی حیثیت اور کردار، تاجروں کی حیثیت اور کردار، ہندو ساہو کار کی حیثیت اور کردار، سید، میاں اور مولوی کے باعزت مقامات اور اُن کی حیثیت۔ شاملات کی موجودگی اور اُن کی مقدس و محترم حیثیت، رفاہِ عامہ کے لیے زمین داروں کی فراخ دلی اور تعاون اور پھر ان تمام حدود و قیود کومد نظر رکھتے ہوئے ایک عمدہ حکم رانی۔ یہ ٹھیک ہے کہ میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) کو اپنے والدین کی طرف سے اتنی وسیع زمینیں اور جائیدادیں نہیں ملی تھیں، جتنی کہ ریاست کے ادغام کے وقت اُن کے اور اُن کے خاندان کے افراد کے نام پائی گئیں تھیں، لیکن ہمیں دو حقائق کو نظر میں رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ اُس دور میں زمینی جائیداد کی اتنی اہمیت نہ تھی۔ میاں گل گھرانہ ’’سیدوبابا‘‘ کی وجہ سے ایک روحانی گھرانہ بھی تھا۔ اس لیے اُس وقت کے زمین داروں نے اُس خاندان کو بہت ساری جائیداد تحفے میں ڈالئی (سہرہ) کی شکل میں دی۔ 
دوسرا یہ کہ اپنے وقت کے مطابق بادشاہ صاحب ایک مقامی مطلق العنان حکم ران تھے۔ اُن کے آگے کوئی شخص یا ادارہ ایسا ہم نے نہیں سنا ہے جس کے روبہ رو اُن کے کسی فیصلے کے خلاف اپیل ہوسکتی تھی۔ اس لیے مختلف جرائم یا الزامات یا دوسری وجوہات پر بادشاہ صاحب نے لوگوں سے جائیدادیں، مکانات وغیرہ ضبط کی ہوں گی جو آگے جاکر اُن کی ملکیت قرار پائی ہوں گی (وللہ اعلم)۔ 
پھر 1969ء میں سوات پر خاندان غلاماں کی حکومت آئی۔ والئی سوات اپنے وقت کا تسلیم شدہ حکم ران تھا۔ اُس کے اپنے دفاتر نادر و نایاب نوادرات اور ٹرافیوں سے بھرے تھے۔ وہ ٹرافیاں اور نوادرات کہاں گئے؟ جہانزیب کالج کی لائبریری سے نایاب کتب کہاں گئیں؟ مختلف ریاستی دستاویزات اور ریکارڈ کا عمدہ اور محفوظ ذخیرہ کہاں ہے؟ 
میرے خیال میں والئی سوات کے میگزین، ان کے دفاتر وغیرہ میں استعمال ہونے والی اشیاء، حتیٰ کہ اُن کا اور بادشاہ صاحب کے جھنڈے کا آج کسی کو علم نہیں۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ تمام اشیاء سوات میوزیم میں محفوظ ہوتیں، لیکن ادغام کے موقع پر ہمیں حکم رانوں سے نہیں لٹیروں سے واسطہ پڑا تھا جو سرکاری ملازمین کی شکل میں آئے تھے۔ اُن کو سوات کی تہذیب و ثقافت، ورثے اور نوادرات سے کیا واسطہ تھا۔ 
وہ تو صرف لوٹ مار جانتے تھے اور بس۔ 
سوات کے قدیم نوادرات کو لوگوں نے ڈھونڈ کر نکالا اور بیچ دیا۔ خواہ وہ بت ہوں۔ اشیاء ہوں، قبروں کے کتبے ہوں، منقش سامان چوب ہو۔ سوات کے لوگوں نے سب کچھ بیچ ڈالا، حتیٰ کہ مولوی صاحبان میں چند نے سوات کے کونے کونے کو چھان کر قلمی کلام پاک اور دوسری کتب کو جمع کرکے فروخت کر ڈالا۔ 
سوات کے مسلمانوں نے قدیم اور نئے جنگلی درختوں کا مکمل صفایا کردیا۔ آج ہمارے بچے نہ سوات کے پودوں کے نام جانتے ہیں اور نہ ہزار ہا قسم کے پرندوں اور جانوروں کو۔ نہ اُن کو قدیم طرز تعمیر کی کوئی عمارت دیکھنے کو ملتی ہے نہ کوئی قدیم درخت۔ سب کچھ دولت کے متوالے ہڑپ کرگئے۔
کل کوئی بھی شخص تحریری یا تقریری ہمیں کہہ سکتا ہے کہ سواتیوں تم تو کل کی پیداوار ہو تمھاری نہ کوئی تاریخ ہے نہ تہذیب اورثقافت۔ تمھاری جڑیں ہی نہیں ہیں۔ تم تو گھاس کی طرح اُگے ہوئے لوگ ہو۔ ادھر اُدھر سے آئے ہوئے۔ یہ زمین بھی تمھاری نہیں۔ تم تو پیدائشی طور پر شودر اور ویش قسم کے لوگ ہو۔ یہ اعلیٰ نسل کے پختوں اور میاں گان تو افغانستان سے آئے ہوئے یوسف زئ ہیں۔ تم مقامی لوگ تو پختون ہی نہ ہو۔ صرف چوڑی، چمار ہو۔ تمھارے پاس تمھاری تہذیب اور ثقافت کی کون سی نشانی یا ثبوت ہے؟ 
اور ہم اُن کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ کیوں کہ ہم ظاہری شان و شوکت پر مر مٹنے والے لوگوں نے اپنا ثقافتی ورثہ خود تباہ کردیا ہے۔ 
ہم نے اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ 
*۔۔۔*۔۔۔*
ریاست سوات کی قدیم ثقافتی ،  نوادرات اور ریاست کے وقت نادر تصاویر  کے لئے    "سوات نامہ" فیس بک پیج ملاحظہ کیجئے۔  عالمگیر صاحب نے اپنی انتھک محنت سے یہ نادرتصاویر اکٹھی کی ہیں۔

0 comments:

Post a Comment