یہ سال بھی تمام ہوا اور 365دنوں کی تاریخ کو اپنے اوراق میں لپیٹ کر ماضی کے جھروکوں کی زینت بنا کر رخصت ہونے کو ہے۔ (اُمید کہ میرے دودھ سے دھلے پاک صاف دوست حضرات بے جا اعتراض نہیں کریں گے کہ میں عیسائیوں کے سال کے اختتام کی بات کررہا ہوں، کیونکہ یہ پوری دنیا میں رائج کیلنڈر سال ہے اور آپ سب کے موبائل فونز اور گھڑیوں میں یہی کلینڈر ہے)۔ پاکستانی عوام نے گزشتہ سالوں کی طرح یہ سال بھی بھاگم بھاگ غیر یقینی حالات میں گزارا۔ صبح سویرے جب عیسوی سال کو رخصت کرنے گھر سے باہر دفتر کی طرف چلنے لگے تو مین کوہاٹ روڈ(پشاور) پر ٹریفک جام، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ پولیس ٹریفک شہر کی طرف جانے نہیں دے رہی اور تمام گاڑیوں کو واپس موڑ رہی ہے۔ کوہاٹ روڈ پر رنگ روڈ پل سےتھوڑی دور گورنمنٹ ٹیکنالوجی کالج ہے جس کے سامنے تقریبانو یا دس افراد نے پشاور کے اس اہم ترین سڑک مین کوہاٹ روڈ کوبلاک کر رکھا تھا جنہوں نے سڑک کے عین بیچوں بیچ ٹائر جلا رکھے تھے جبکہ کچھ بچے بھی اُن کے ساتھ ہاتھوں میں کالے جھنڈے لے کر کھڑے تھے جبکہ اُن کی حفاظت پر مامور ایک دو ستاروں والا اور پانچ چھ پولیس اہلکاران کھڑے کسی ناخوشگوار واقعے کا انتظار کررہے تھے۔ یہ چند لوگ پشاور کی ایک مین شاہراہ کو بلاک کرکے کھڑے تھے جو اس بات کی کھلی حمایت ہے کہ چند لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ بھی پوری قوم کو یرغمال بنانے کے لئے کافی ہے۔ صبح سویرے ہزاروں لوگ اپنے کاروبار، دفاتر،
ہسپتال وغیرہ کے لئے نکلے اور اس ہڑتال اور پولیس کی طرف سے روڈ بلاک کی وجہ سے پیدل ہی محو سفر نظر آئے، ایک غریب مزدور، ایک ریڑھی لگانے والا، ایک دیھاڑی پر کام کرنے والے کو ان ہڑتالوں سے کوئی لگاؤ نہیں۔ اُسے فکر ہے تو اپنے بچوں کی جس کو اس نے رات کو کچھ کما کر کھلانے کا بندوبست کرنا ہے۔ میرے ساتھ پیدل چلنے والی مائی ، جو اپنے بیمار وجود کو گھسیٹتے ہوئے ہسپتال جارہی تھی حکومت وقت اور ہڑتال کرنے والے لوگوں کو بدعائیں دے رہی تھی، دو تین مزدوروں کو بھی ہڑتال کرنے والوں کوستے ہوئے سنااور یہ ان چند لوگوں کی آواز نہیں بلکہ ہر اُس بندے کے دل کی آواز تھی جس کا کاروبار روز روز کے دھرنوں، ہڑتالوں سے متاثر ہورہا ہے۔
آج 31دسمبر2014 کی ہڑتال کی کال قوم پرست پارٹی نے دی تھی، جنہوں نے ملک میں سیکیورٹی صورتحال، آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملوں اور دیگر ایشوز پر اپنی طرف سے ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ بے شک اس ہڑتال کی حمایت وکلاء، کروباری ایسوسی ایشنز وغیرہ نے کی ہوگی لیکن کیا کسی نے عام عوام سے کبھی پوچھا ہے کہ اُن کی رائے کیا ہے؟ کبھی ایک پارٹی کی طرف سے ہڑتال، کبھی دوسری سیاسی جماعت کا دھرنا، کبھی ایک تنظیم کی طرف سے کاروبار بند رکھنے کا اعلان تو دوسرے دن کسی اور پارٹی کی طرف سے پہیہ جام ہڑتال۔ کیا ان تمام مسائل کا حل ہڑتال اور دھرنے ہی ہیں؟ کیا ہمارے حکمران اتنے حساس ہیں کہ وہ ان دھرنوں اور ہڑتالوں پر جاگ جائیں گے؟ کیا ہم لوگوں میں اتنی عقل ہے کہ پہیہ جام اور کاروبار کو بند رکھنے کی نوعیت کو سمجھ سکیں؟ نہیں جناب۔ کوئی فرق نہیں پڑھنے والا۔ فرق پڑے گا تو صرف اُس ضعیف اماں کو جو 10کلومیٹر پیدل چل کر ہسپتال علاج کرنے آئیں ہیں، فرق پڑے گا اُس مریض کو جو شہر کے بڑے ہسپتال تک پہنچنے سے پہلے دار فانی سے کو چ کرجائے گا۔ فرق پڑے گا اُن مسافروں کو جو دور دراز کے علاقوں سے اپنے ضروری اُمور کے لئے پیسہ خرچ کرکے آتے ہیں اورنا مراد واپس لوٹتے ہیں۔ فرق پڑے گا صرف اور صرف اُس مزدور کو جس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہوگا۔ محلات میں رہنے والے ہمارے اکابرین کو اس سے کوئی فرق نہں پڑنے والا۔ خدا را کوئی اور لائحہ عمل اپنائے، روڈ بلاک کرنے، ٹائر جلانے، اپنے اور دوسروں کے املاک کو نقصان پہنچانے کے بجائے، سرکاری تنصیبات و دفاتر کو تباہکرنےکے بجائے ایسا طریقہ کار اپنائیں جس سے بامقصد نتائج حاصل ہوں نہ کی صرف اور صرف نقصان۔ ہمارے ملک میں خواہ کتنے ہی "پُراَمن"ہڑتال کا اعلان کیوں نہ کیا جائے، ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے خواہ وہ مالی ہو یا جانی۔ لہٰذا التماس ہے کہ عوام کو اور دکھ دینے اور عذاب میں ڈالنے سے بچانے کیلئے کچھ اور سوچیں نہ کی سڑکیں اور کاروبار بند کریں۔
31st December 2014 Black Day Protest in Peshawar, Army Public School Attack, Khyber Pakhtunkhwa
Frst of all its impressive nd second , sadly what an end to 2014 in Peshawar
ReplyDelete