Monday, 8 December 2014

December 08, 2014
3

تحریر: نعیم خان
پشاور نہ صرف پاکستان کا بلکہ وسطی ایشیاء کا اہم شہر، جو کہ نہ صرف اپنے باغات کے لئے مشہور تھا بلکہ اس خطے میں پائے جانے والی معدنیات، قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کے کاروبار کی ایک بڑی منڈی بھی تھی، جہاں نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں کے کاروباری لوگ بلکہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بین الاقوامی کاروباری افراد بھی قیمتی پتھروں کے کاروبار کے لئے آیا کرتے تھے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح اس شہر کی خوبصورتی کو گہن لگتا گیا اسی طرح اس شہر کی یہ منڈی بی زنگ آلود ہوتی گئی اور ایک اندازے کے مطابق ملک میں جاری شرپسندوں کی کارروائیوں اور خراب کاروباری حالات کی وجہ سے یہ کاربار تقریباً 90فیصد ختم ہوگیا۔
رائل جیمز اور ایمپاور دی نیشن آرگنائزیشن نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے صوبے کی اس زرخیز منڈی کو دوبارہ بحال کرنے اور پشاور میں دوبارہ اس کاروبار کو زندہ کرنے کے لئے یہاں پرٹورزم کارپوریشن پختونخوا کے تعاون سے "جیمز اینڈ جیولری نمائش" کا اہتمام کیا۔ ایمپاوردی نیشن آرگنائزیشن کی روح رواں محترمہ صائمہ عمر نے بتایا کہ اُن کا مقصد صوبے میں اس کاروبار کی بحالی اور نوجوانوں کو اس طرف راغب کرکے اُن کو کاروبار کے لئے نئی راہوں کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے معدنیات اور قیمتی پتھروں کے بہت بڑے زخائر سے نوازہ ہے، یہاں پر پیدا ہونے والی معدنیات کی پوری دنیامیں بہت مانگ ہے اور جتنی برآمد کی جاتی ہے زیادہ تر خام صورت میں برآمد ہوتی ہے، جس کی وجہ سے خاطر خواہ زرمبادلہ ملک کو نہیں ملتا۔ اس مقصد کے لئے یہاں کے نوجوانوں اور اس کاروبار سے منسلک لوگوں کی جدید و بہترین خطوط پر تربیت بہت اہم ہے کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان کی تراشے ہوئے قیمتی پتھروں کے ڈیزائن پوری دنیا میں کہیں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ہماری اور ہمارے ملک کے لئے بدقسمتی ہے کہ جہاں قیمتی پتھروں کی اتنی پیداوار ہو اور ملک کو کوئی مناسب فائدہ بھی نہ ہو۔ محترمہ صائمہ صاحبہ نے اس عزم کا ارادہ کیا کہ اُن کی آرگنائزیشن ، رائل جیمز کے تعاون سے ہنر مند افراد کو عالمی معیار کے مطابق جدید خطوط پر تربیت دینے ، عالمی منڈیوں تک رسائی، عالمی سطح پر نمائش وغیرہ میں شرکت کے لئے اُن کی مدد کرنے میں مکمل تعاون دیں گے اور خاص کر خواتین کی تربیت اور اُن کے لئے کاروبار کے مناسب مواقع کی فراہمی ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ ان کا مقصد ایسی نمائشوں سے ملک میں موجود بحران کی شکار اس انڈسٹری کو تقویت فراہم کرنا ہے تاکہ پشاور شہر دوبارہ اس کاروبار کا مرکز بن جائے۔
اس نمائش میں تقریباً ساٹھ سے زائد سٹالز لگائے گئے تھے، جس میں ملک بھر سمیت افغانستان سے بھی تاجروں نے شرکت کی۔ قیمتی و نیم قیمتی پتھروں ، ہاتھ سے بنی جیولری، قیمتی پتھروں سے بنے ظروف، و آرائشی اشیاء سمیت ہینڈی کرافٹس کے سٹالز میں لوگوں نے کافی دلچسپی ظاہر کی۔ اس نمائش میں محترمہ صائمہ عمر نے اُن خواتین کی شرکت کے لئے خصوصی انتظامات کئے تھے جو خود اپنی مدد آپ کے تحت کاروبار کررہی ہیں یا کسی دوسرے آرگنائزیشن کی سپورٹ سےاپنی سلائی کڑھائی سے اپنے خاندان کے لئے روزی روٹی کماتی ہیں۔  یہاں پر شرکت کرنے والوں میں سے کشف فاؤنڈیشن  کا ذکر کرنا مناسب ہے جو کہ مقامی خواتین کو مائکروفنانس سپورٹ دے کر اُن سے کام کروا کر اُن خواتین کو اپنے قدموں پر کھڑا کرتی ہے جس سے وہ اپنے خاندان کی کفالت خودکرتی ہیں اور کسی کی محتاج نہیں رہتی، اُنہوں نے نہ صرف بیوہ عورتوں اور یتیم بچیوں اور غریب خواتین کو چھوٹے قرضے دے کر اُن کی بنائی ہوئی اشیاء کو مارکیٹ میں پیش کیا بلکہ اُُن کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی کام کرتی ہیں۔ اسی طرح سوات سے تعلق رکھنے والی محترمہ شمع صاحبہ ایک ایسی باہمت خاتون ہیں جنہوں نے اپنے طور پر سیدو شریف میں شمع وکیشنل سینٹر کے نام سے ایک ادارہ کھول رکھا ہے جہاں پر نہ صرف وہ خواتین کو سلائی کڑھائی کی تربیت فراہم کرتی ہیں بلکہ وہ اپنے پیسوں سے بازار سے مٹیریل خرید کر علاقے کی نادار و بیوہ خواتین سے اُن کے گھروں میں کام کرواتی ہیں اور اُن کی بنائی ہوئی اشیاء کی مارکٹنگ کرتی ہیں۔ اُن کا مقصد سوات کی خواتین کو روزگار فراہم کرکے اُن کو اپنے قدموں پر کھڑے کرنا ہے اور کسی دوسرے کی محتاجی سے دور رکھنا ہے۔ 
اس نمائش کی بہترین بات یہ تھی کہ اس میں پاکستان کے بڑے شہروں سمیت افغانستان کے قیمتی پتھروں کے ڈیلرز نے بھی شرکت کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ خراب حالات کی وجہ سے اُن کا کاروبار بہت متاثر ہوا ہے مگر اب بہتری کی طرف بڑھتی ہوئی صورتحال کے تحت و لوگ پھر سے پاکستان میں کاروبار کے لئے آنا شروع ہوئے ہیں۔ نمائش میں پختونخوا انجنئیرنگ یونیرسٹی کے جیمز ڈپارٹمنٹ اور پاکستان جیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی نے بھی اپنے سٹالز لگا رکھے تھے جو مناسب فیس کے عوض پشاور اور ملک کے دیگر شہروں میں قیمتی پتھروں کی پہچان، جدید خطوط پر تراش خراش، جیولری ڈیزائن کے مختلف کورسز کی سہولت مہیا کرتی ہیں۔حکومت صوبہ خیبر پختونخوا میں حال ہی میں صوبے میں نئی منرل پالیسی متعارف کروائی ہے مگر یہاں پر موجود اس کاروبار سے منسلک تقریباً 99فیصد افراد کو اس پالیسی کے بارے میں سرے سے علم ہی نہیں ہے اور بقول اُن نے نہ ہی کبھی حکومت نے اُن سے رابطہ کیا اورنا ہی اُن کو نئی پالیسی کے بارے میں بتایاگیا ہے۔ حکومت خیبر پختونخوا اگر اس کاروبار سے منسلک افراد کو نئی منرل پالیسی کی کاپیاں فراہم کرے یا ان کے لئے کوئی کانفرنس، سیمینار وغیرہ ترتیب دے جس میں قیمتی و نیم قیمتی پتھروں اور معدنیات کے کاروبار سے افراد کو بلایا جائے۔ اس پالیسی کی کاپیاں اگر سادہ اُردو زبان میں فراہم کی جائے تو اس کو سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی کیونکہ اس کاروبار سے تعلق رکھنے والے 50فیصد افراد ناخواندہ ہیں اور انگریزی زبان کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتے۔
 اس نمائش میں کئی ایک غیر ملکی خریداروں نے بھی شرکت کی اورپشاور میں اس قسم کی نمائشوں کی انعقاد کو سراہا۔ مختلف سٹالز پر آئے ہوئے لوگوں نے بھی خریداری کی اور خاص کر خواتین نے ان قیمتی پتھروں اور جیولری میں خاص دلچسپی ظاہر کی۔ اس نمائش میں قیمتی پتھروں کی برآمد و تراش خراش کے میدان بہترین کارکردگی دکھانے والے افراد کو ایوارڈز بھی دئے گئے، اچھی کارکردگی پر سوات سے تعلق رکھنے والے تاجر رفیع اللہ کو خاص انعام سے نوازہ گیا۔ اس نمائش میں تمام سٹالز مالکان و آرگنائزر سمیت میڈیا نمائندگان کو بھی بہترین کارکردگی پر سرٹیفکیٹس دیئے گئے۔  
پشاور جیسے شہر میں جہاں فیمیلیز نے تفریح کے لئے کہیں آنا جانا چھوڑ دیا ہے ایسے ماحول میں ایسی تقریبات و نمائشوں کا انعقاد نہ صرف صحت مند تفریح کی جانب سفر کا آغاز ہے بلکہ اس سے صوبے میں قمیتی پتھروں کے کاروبار کو فروغ بھی حاصل ہوگا۔ بیشک ایمپاوردی نیشن آرگنائزیشن کی یہ کاوش صوبے میں اس کاروبار کی بحالی کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔


3 comments:

  1. انشا اللہ وہ دن پھر آئیں گے جب پشاور مسکرائے گا

    ReplyDelete
  2. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے پورے ملک کو امن کا گہوارہ بنائے

    ReplyDelete