Wednesday 13 February 2013

February 13, 2013

 جب کوئی کسی کو آئینہ دکھاتا ہے تو وہ اس میں دیکھ کر یا تو اپنی اصلاح کرلیتا ہے یا ایسے بوکھلا جاتا ہے جیسے بقول طلعت حسین صاحب کہ رات کا پرندا دن کی چکاچوند روشنی میں پھڑپھڑا تے ہوئے اِدھر اُدھر ٹکریں مارتا ہے۔ ہم لوگ کبھی بھی اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے اور نہ ہی اپنی غلطیوں اور کوتھاہیوں کو سدھارنے کا سوچتے ہیں۔ تنقید کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن معاشرے کی خرابیوں پر مثبت بحث کے بجائے کسی پر تہمت لگانا، کسی کی قناعت پسندی اور غریبی کا مذاق اُڑانا اور ذاتیات پر اُتر آنا میرے خیال میں صاحب ذوق و قلم کو زیب نہیں دیتا۔  دوسروں کی طرف اُنگلی اُٹھانا ہی ہم پسند کرتے ہیں اور وہ جو چار ہماری اپنی طرف ہوتی ہیں وہ پتہ نہیں کیوں ہم کو نظر نہیں آتی۔ اصلاح معاشرہ کرنے میں تو ہم آگے آگے ہوتے ہیں مگر اپنے نفس کی اصلاح ہم نہیں کرپاتے اور اپنے آپ کو ماورائے قانون سمجھتے ہیں۔ پروفیسر سیف اللہ صاحب کا "ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکسوں کا نفاذ" کے عنوان سے روزنامہ "آزادی سوات" کے 31جنوری کی اشاعت میں کالم شائع ہوا، جس میں اُنہوں نے کچھ تلخ حقیقتوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ مگر عین اُن کی پیشن گوئی کے مطابق مینگورہ کے ایک بڑے حاجی صاحب نے 9اور10فروری کو روزنامہ "آزادی سوات " ہی میں اپنی ظرف کے مطابق جس قسم کی تنقید کی ہے وہ مثبت بحث کے بجائے کہیں اور جا تی ہے۔ حالانکہ موصوف کے کالمز میں ہمارے لیے بہت ساری نئی معلومات بھی ہیں مگر جس طریقے سے اُنہوں نے اپنا اظہار خیال کیا ہے وہ ملاحظہ کیجئے۔ میرے خیال میں مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ، آپ خود ہی یہ دونوں کالمز پڑھ لیجئے، باقی فیصلہ آپ کا اپنا۔۔۔




0 comments:

Post a Comment