Thursday, 21 February 2013

February 21, 2013

اندلس کا طوطیِ ہزار داستان


خلیفہ المومنین ہارون رشید نے اپنی چمکیلی سیاہ آنکھیں مجھ پر مرکوز کر دیں: 'زریاب، تم نے اپنے استاد موسیقارِ اعلیٰ اسحٰق بن ابراہیم موصلی سے فنِ موسیقی میں اب تک کیا سیکھا ہے ؟ '
 میں اس طرح براہِ راست مخاطب کیے جانے پر چونک گیا اور ایک ثانیے کو اوپر دیکھ کر نظریں دوبارہ اپنے پیروں کے انگوٹھوں پر جما دیں۔
’خلیفہ المومنین، میں نے بساط بھر کوشش کی ہے کہ میرے شوق اور لگن کی سرزمین استادِ عالی مقام کے بارانِ علم سے سیراب ہو سکے۔‘
’بہت خوب، تو پھر دیر کس بات کی ہے۔ ہم مشتاق ہیں کہ تم سے کوئی مشہور اور مقبول نغمہ سنیں۔‘
عباسی دربار میں اس وقت جعفر برمکی اور ابونواس بھی موجود تھے۔ خلیفہ کی بات سن کر وہ بھی ہمہ تن گوش ہو گئے۔
’اے خلیفۂ وقت، جو دوسرے گلو کار گا سکتے ہیں، وہ میں بھی گا سکتا ہوں، لیکن میرے پاس کچھ ایسی دھنیں بھی ہیں، جو صرف آپ جیسے قدردانوں ہی کی محفل کو زیب دیتی ہیں۔ '
 اس بات سے خلیفہ کا اشتیاق بڑھ گیا۔ انھوں نے استاد اسحٰق سے کہا، ’اسحٰق اپنا عود زریاب کو دے دو تاکہ ذرا ہم بھی سنیں وہ کون سی دھنیں ہیں جو زریاب نے اپنے سینے میں چھپا کر رکھی ہیں۔'
 میں نے نظریں نیچی ہی رکھیں۔' اگر خلیفہ المومنین چاہتے ہیں کہ میں استاد کے انداز میں گاؤں تو میں ان کا عود بجا سکتا ہوں۔ لیکن میری دھنوں کے لیے میرا اپنا عود زیادہ مناسب رہے گا۔  اگر اجازت ہو تو لے آؤں؟
خلیفہ ہارون الرشید کی طرف سے اجازت عطا ہوتے ہی میں باہر چلا گیا۔ میں نے صبح خلیفہ کے دربارِ دُربار میں باریابی سے قبل اپنا عود محل کے صدر دروازے پر دربانوں کے پاس رکھوا دیا تھا۔  تھوڑی دیر بعد جب میں اپنا عود لے کر واپس آ گیا تو استادِ باراں دیدہ اور خلیفہ دونوں نے بھانپ لیا کہ میرے عود میں عام رواج کے بر خلاف چار کے بجائے پانچ تار تھے اور ان کو بجانے کے لیے عام طور استعمال کی جانے والے لکڑی کے مضراب کی بجائے میرے ہاتھ میں عقاب کا پنجہ تھا۔
میں نے عود کے تار چھیڑ دیے۔ یہ لمحہ زندگی کا ماحصل تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کی تیاری کے لیے میں سال ہا سال دماغ کے تیل کے ساتھ ساتھ جگر کا خون بھی جلایا تھا۔ خلیفہ کے حضور اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی خواہش کرۂ ارض کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی اس عظیم سلطنت  میں بسنے والے ہر  فن کار کے دل میں موج زن تھی، اب قسمت سے مجھے یہ موقع نصیب ہوا تھا، اور میں اس دورانیے کے ایک ایک ثانیے کو کشید کر کے اسے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔
میری تمنا تھی کہ میں اپنا خونِ جگر نچوڑ کر خلیفہ کے دربار کی فضا میں لوبان کی خوشبو کی طرح بکھیر دوں۔
کچھ دیر تک تو میں آواز سے ساز ملاتا رہا، پھر میں نے گانا شروع کیا اور بتدریج تان اونچی کرتا چلا گیا۔ میری کوشش تھی کہ ساز و آواز میں اس قدر ہم آہنگی ہو کہ یوں لگے  دونوں آوازیں یا تو میرے گلے سے نکل رہی ہیں، یا پھر میرے پنچ تارا عود سے۔
خلیفہ محویت کے عالم میں اور استادِ محترم حیرت کی کیفیت میں سنتے رہے۔ وہ تو جب میں گانا ختم کر کے کورنش بجا لایا تو ان کے چونکنے سے مجھے احساس ہوا کہ وہ کتنی محویت کے عالم سے سن رہے تھے۔ تمام فنونِ لطیفہ میں سب سے تجریدی فن موسیقی ہے ، کیوں کہ اس میں صرف آواز کی بے رنگ، غیر مرئی مدد سے سامعین کے ذہن کے پردے میں جذبات، تاثرات اور کیفیات کا نقش بنایا جاتا ہے۔
میں اٹھ کھڑا ہوا اور اجازت لے کر دربار سے باہر آ گیا۔ استاد اسحٰق موصلی بھی لپک کر میرے پیچھے ہو لیے۔ مجھے ان کے تیور بہت جارحانہ لگے :
 'تمھاری یہ جرات کہ تم مجھے بھرے دربار میں یوں دھوکا دو؟'
 'دھوکا؟ استادِ محترم، میں آپ کو دھوکا دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔'
’تم نے یہ دھنیں اور یہ ساز مجھے سے چھپا کر کیوں رکھے تھے ؟‘
’استادِ مکرم، چراغ سے چراغ جلتا ہے ، میں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ آپ ہی سے سیکھا ہے ، اس اکتساب میں اگر میں کچھ اختراع کی ہے تو اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے ؟ ‘
 'دیکھو زریاب،ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ اب یا تو تم بغداد میں رہو گے یا میں۔ دربار کے موسیقارِ اعلیٰ کا یہ مقام میں نے زندگی بھر کی ریاضت سے حاصل کیا ہے ، اور میں اسے کسی قیمت پر ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا، چاہے اس کے لیے مجھے کوئی بھی ناخوش گوار قدم اٹھانا پڑے۔’
 'استادِ محترم، آخر میرا قصور کیا ہے ؟'
 'تمھارا قصور یہ ہے کہ تم میدانِ موسیقی میں اسحٰق موصلی سے آگے بڑھنے کے لیے پر تول رہے ہو، اور میں یہ مقام اپنے سگے بیٹے کے لیے بھی چھوڑنے کا روادار نہیں۔ سنو، میں تمھارے سامنے دو راستے رکھ رہا ہوں۔ اگر تم یہیں رہو تو میں تمھیں ہر صورت میں راستے سے ہٹا دوں گا چاہے مجھے اس کے عوض جو بھی بھگتنا پڑے۔  دوسرا راستا یہ ہے کہ کل سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے بغداد چھوڑ دو۔  میں تمھیں اتنی رقم دے دوں گا کہ تمھیں کئی برس تک روزی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بولو، تمھیں کیا منظور ہے ؟'
میں رات بھر کروٹیں بدل بدل کر استاد کی تجاویز کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتار ہا۔ لیکن  میرے پاس کوئی چارا نہیں تھا۔ میں بغداد میں رہ کر خلیفہ کے چہیتے اور منھ چڑھے درباری سے چپقلش مول نہیں لے سکتا تھا۔ چناں چہ میں نے استاد سے اشرفیوں کی تھیلی وصول کی اور پو پھٹنے سے قبل مغرب کی سمت جانے والے پہلے قافلے کے ہم رکاب ہو گیا۔
 میرا اصل نام ابوالحسن ابن نافع تھا، لیکن غالباً میری سیاہ رنگت اور آواز کی وجہ سے مجھے زریاب کہا جاتا تھا۔  زریاب عربی میں ایک کالے ، لیکن خوش الحان پرندے کا نام ہے۔
 بغداد سے نکل کر میں مصر پہنچا اور پھر دشت و قریہ کی خاک چھانتا ، چھوٹے بڑے امیروں اور سرداروں کے ہاں قسمت آزمائی کرتے کرتے بالآخر تیونس کے دربار سے وابستہ ہو گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد  دل وہاں سے بھی اکتا گیا۔ کہاں بغداد کی زرق برق زندگی کی رنگا رنگیاں اور کہاں یہ مضافاتی صحرائی رجواڑے۔
یہیں میں نے بحیرۂ روم کے پار اندلس میں آباد کی جانے والی عالی شان اموی سلطنت کے چرچے سنے۔ میں نے کچھ دوستوں کے ذریعے سن گن لینے کی کوشش کی تو مجھے بے حد حوصلہ افزا رد عمل ملا۔ میں نے اندلسی حکمران الحکم اول کی خدمت میں معروض گزار ہوا کہ میں ان کے دربار سے وابستہ ہونا چاہتا ہوں۔ الحکم پہلے اندلس کے پہلے اموی امیر عبدالرحمٰن الداخل کے پوتے تھے۔
امیر الحکم نے مجھے لکھا کہ میں جتنی جلد ممکن ہو سکے ، قرطبہ پہنچ جاؤں، جہاں وہ مجھے اپنا درباری موسیقار مقرر کر دیں گے۔ میں نے فوراً زادِ راہ اکٹھا کیا اور افتاں و خیزاں اندلس جا پہنچا۔ لیکن وائے قسمت، میں ایک مہینے کے جان جوکھم والے سفر کے بعد ابھی قرطبہ کے قریب ہی پہنچا تھا کہ خبر ملی، امیرالحکم دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں۔ میں نے وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور واپسی کی تیاری کرنے لگا۔ جب مربی ہی نہ رہا تو پھر قرطبہ جانے سے کیا حاصل؟
لیکن خدا بھلا کرے ، نئے امیر عبدالرحمٰن ثانی کے یہودی درباری موسیقار ابوالنصر منصور کا، جس نے نئے امیر کے سامنے میری اتنی تعریفیں کیں کہ انھوں نے کمال مہربانی سے اپنا نمائندہ بھیج کر مجھ سے قرطبہ آنے کے لیے کہا۔
جب میں 822ء میں قر طبہ کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوا تو میری شہرت کے افسانے مجھ سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ اور کیوں نہ ہو، بغداد اس زمانے میں دنیا کا علمی اور ثقافتی گڑھ تھا اور میں اسی بغداد کا نمائندہ تھا۔ امیرِ اندلس کے امرا نے فصیلِ شہر سے باہر  آ کر میرا استقبال کیا۔
قرطبہ میں مجھے جو عزت اور مرتبہ ملا، میں اس کا میں بغداد میں صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔ امیر نے مجھے سنے بغیر ہی موسیقارِ اعلیٰ کے رتبے پر فائز کر دیا۔ اور جب انھوں نے مجھے سنا، تو پھر وہ کسی اور گلوکار کو نہیں سنتے تھے۔ قرطبہ میں قدم جمانے کے بعد میں پہلا کام کیا کہ یہاں موسیقی کی تربیت کا ادارہ قائم کر دیا، جس میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین کو بھی اس فن کی تعلیم دی جاتی تھی۔
لیکن اندلسی دربار میں میرا کردار صرف موسیقی تک ہی محدود نہیں تھا۔ جلد ہی میں ایک لحاظ سے ثقافت کے وزیر کے طور پر کام کرنے لگا۔ میں نے قرطبہ میں دیکھا کہ یہاں دولت کی تو فراوانی ہے لیکن نشست و برخاست، رہن سہن اور بود و باش میں وہ نفاست اور رکھ رکھاؤ نہیں ہے ، جو میں بغداد کے شاہی دربار اور امرا و روسا کے ہاں دیکھتا چلا آیا تھا۔ چناں چہ میں نے قرطبہ کی اموی سلطنت کو جدید ثقافتی خطوط پر آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔
 قرطبہ کی مٹی بے حد زرخیز تھی، بس اسے ذرا سے نم کی ضرورت تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے فیشن کے ضمن میں میری ہر بات کو حرفِ آخر سمجھا جانے لگا۔
سب سے پہلے تو میں نے خورد و نوش پر توجہ دی۔ میں نے دیکھا کہ ہر طرح کا کھانا بغیر کسی خاص ترتیب یا قرینے کے تناول کر لیا جاتا ہے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ کھانے میں سب سے پہلے یخنی پیش کی جائے گی،  اس کے بعد اصل کھانے کی باری آئے گی، اس کے بعد شیرینی اور آخر میں خشک میوے یا پھل۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ترتیب نہ صرف اندلس کے طول و عرض میں رائج ہو گئی بلکہ کچھ برسوں کے بعد معلوم ہوا کہ ارضِ کبیر یعنی یورپ میں بھی کھانے کے ان آداب نے قبولِ عام کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔
میں نے دیکھا کہ لوگ مجھ سے اس قدر عقیدت اور محبت رکھتے تھے کہ جو لباس میں پہنتا، وہ راتوں رات قرطبہ بھر میں مقبول ہو جاتا۔ میں نے اس خوش گوار صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر   موسم کے لحاظ سے لباس اور اس کا رنگ منتخب کرنے کے چلن کو فروغ دیا۔ گرمیوں میں سفید یا ہلکے رنگوں کے کپڑے اور سردیوں میں شوخ رنگوں کے بھاری روئی دار لبادے۔ اس کے علاوہ میں نے موقعے کی مناسبت سے کپڑے تبدیل کرنے کی طرح بھی ڈالی ورنہ  اس زمانے میں اندلسی تاریخ دان البکری کے بقول
'شمال میں بسنے والے عیسائیوں کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک بار پہننے کے بعد کپڑے کبھی نہیں اتارتے ، حتیٰ کہ وہ چیتھڑا چیتھڑا ہو کر ان کے جسموں سے گر جاتے ہیں۔'
میں نے بالوں کی نئی تراش بھی متعارف کروائی جو راتوں رات مقبولِ عام و خواص ہو گئی۔ مجھے الکیمیا میں تھوڑا بہت درک تھا، اسی سے فائدہ اٹھا کر میں نے اہلِ اندلس کو سب سے پہلا بوکُش اور دانتوں کے منجن کا استعمال سکھایا۔
زریاب نے ٹوتھ پیسٹ بھی متعارف کروایا تھا۔ اس کے ٹوتھ پیسٹ کا نسخہ محفوظ نہیں رہ سکا، تاہم تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ نہ صرف دانتوں کی خوب صفائی کرتا تھا بلکہ خوش ذائقہ بھی تھا۔
                          اس عہد ساز نابغۂ روزگار کا انتقال 857ء میں ہوا۔ لیکن اپنے مرتے مرتے وہ قرطبہ کو نہ صرف اندلس کا بلکہ تمام یورپ کا ثقافتی اور تمدنی مرکز بنا گیا۔ اس نے اپنی نفاست، اعلیٰ ذوق اور شائستگی سے جس تہذیب کی بنیاد رکھی، وہ عبدالرحمن ثالث کے عہد تک رشکِ بغداد و دمشق بن گئی۔
 جلد ہی دورِ ظلمات میں گھرے ہوئے یورپ بھر سے علم و فن کے پروانے قرطبہ کا رخ کرنے لگے ، اور اس خیرہ کن تہذیب کی شمع کی روشنی سے فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے تاریک گوشے منور ہونے لگے۔ وہ شمع، جس کو منور کرنے میں ایک اہم کردار زریاب بھی تھا۔
 موسیقی کی بات کریں تو مشہور مستشرق ٹائٹس برک ہارٹ کے مطابق یہ زریاب ہی تھا جس نے فارسی انداز یورپ میں متعارف کروایا جو آگے چل کر جدید فلیمنکو کی بنیاد بنا۔ اس موضوع پر آنے والی قسطوں میں تفصیلی بحث کی جائے گی۔
میں نے شاہی محل کے قریب خواتین کے لیے مشاطگی کا سکول بھی کھولا جس میں بالوں کی نئی نئی تراش، ابروؤں کو سنوارنے ، غیر ضروری بالوں کو بال صفا سے ختم کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ترین خوشبویات اور عطریات اور نت نئی حسن افزا مصنوعات کے استعمال کی تربیت دی جاتی تھی۔
عبدالرحمن ثانی مجھے بے حد عزیز رکھتا تھا اور وہ مجھ سے انتظامی اور سیاسی امور میں بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ میرے ہی مشورے پر امیرِ اندلس نے دوسرے ملکوں سے علما و فضلا، شعرا و ادبا اور دانش وروں کو قرطبہ بلایا۔ حتیٰ کہ اس دور میں ہندوستان تک سے ماہرینِ نجوم اندلس گئے۔ جس سے بہت جلد قرطبہ یورپ کا سب سے متمدن شہر بن گیا۔ 

0 comments:

Post a Comment