آج 21جون کو دنیا بھر میں جہاں جہاں پشتون پختون آباد ہیں وہاں پشتو زبان کی بقاء اور ترقی کیلئے کام ہورہا ہے. اس وقت دنیاکے ہرکونے میں ایک اندازے کے مطابق 65ملین افراد پشتوزبان بولتے ہیں جنی کی زیادہ تعداد پاکستان اور افغانستان میں ہے. ہر قوم و ملت کی اپنی ایک زبان ہوت ہے جو اس کو اقوام عالم میں ایک پہان دیتی ہے. خوش قسمتی سے ہمارے وطن میں کئ ایک عالمی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کی اپنی اپنی مٹھاس اور ادائگی ہے اور اس مٹھاس کے ساتھ ساتھ ہر زبان کی اپنی ایک تاریخ اور حیثیت بھی ہے. وطن عزیز میں بولی جانے والی زبانوں کے گلدستے کا ایک پھول “پختو“ (پشتو) زبان بھی ہے، جس کی اپنی ایک وسیع وعریض تاریخ کے ساتھ ساتھ خوبصورت لب و لہجہ اور ادب و آداب کے تقاضے اور اصطلاحات بھی ہیں.
بدقسمتی سے ہم پختون ہو کر بھی اپنی پختو (پشتو) سے بہت دور ہیں. ہم میں سے بہت سو کو نہ تو پشتو پڑھنا آتا ہے اور نہ ہی صحیح الفاظ جبکہ لکھنا تو بہت دور کی بات ہے. جس طرح ہمارے اداروں میں قومی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر توجہ دی جاتی ہے اگر ہر علاقے کی زبان کو بھی وہی توجہ اور اہمیت دی جاتی تو یہ مادری زبان کی ایک بڑی خدمت ہوتی، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم جدیدیت کے نشے میں اپنے اسلاف و تاریخ ، ثقافت اور اپنی مادری زبانوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں. ہم اپنی قومی زبا اور دوسری عالمی زبانوں کو تو سیکھ رہے ہیں مگر اپنی مادری زبانوں کو وہ توجہ نہیں دے رہے جو کہ ہماری بنیاد ہے. سب سے زیادہ مسئلہ ان بچوں کو ہوتا ہے جو ایک مخلوط معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں. وہ کئ زبانوں میں بہ یک وقت بات کرنا شروع کردیتے ہیں جو کہ ایک اچھی بات ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری اپنی مادری زبان بھی ہے اس تجربے سے میں خود بھی گرا ہوں مگر اللہ کا شکر ہے کی میں نے جو چوتھی جماعت تک پشتو کا قاعدہ پڑھا تھا اس کی بدولت میں تھوڑی بہت پشتو لکھ اورپڑھ لیتا ہوں. اس بات کا احساس پہلی مرتبہ تب ہوا جب میرے والد صاحب کا تبادلہ سوات ہوگیا اور ہم کو وہاں پر صرف اور صرف پشتو زبان پر انحصار کرنا پڑا حالانکہ گھر میں ہم لوگ اپنی مادری زبان پشتو میں ہی بات کرتے تھے مگر روانی اور صحیح الفاظ کی کمی ہر وقت آڑے ہوتی تھی. مجھے یاد ہے جب میں نے جہانزیب کالج میں ایک تقریری مقابلے میں اچانک حصہ لیا اور جوالٹی سیدھی انگریزی اردو مکسچر پشتومیں نے بولی وہ مجھے ابھی بھی یاد ہے، میرےدوست اکثر میری اس گلابی پشتو کی وجی سے میرامذاق اڑاتے تھے کچھ دن پہلے بھی میرے ایک دوست نے مجھے ریڈیو پاکستان میں پشتوزبان کے ایک پروگرام میں مدعو کیا اور یہاں بھی میں نے بہت دقت محسوس کی کیونکہ میں اس طرح سے نہیں بول پا رہا تھاجس طرح مجھے چاہئے تھا. جب سے یہاں پر لکھنے کا آغاز کیا ہے تو دل میں یہ امنگ بھی جاگی کہ کیوں نی اردو کے ساتھ ساتھ پشتو میں بھی طبع آزمائی کی جائے میں مشکور ہوں عمر بنگش بھائی کا جنہوں نے پشتو زبان کا فانیٹیک کی بورڈتک رسائی ممکن کی اور دوسرے بلاگر احباب کا جنہوں نے اپنی مادری زبان میں لکھنے کی سوچ کو سراہا. پشتو زبان میں بلاگنگ کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کے لئے ایک دن مسرت اللہ بھائی اور مدثر شاہ بھاءٰ کت ساتھ پشاور یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا. ارادہ یہ تھا کہ نوجوان طلبائ کو اس برف راغب کرنے کی اپنی سی کوشش کریں لیکن افسوس اس وقت ہوا جب جرنلزم ڈپارٹمنٹ اور خاص کر پشتو ڈپارٹمنٹ کے طلباء سے ملاقات کی اور ان کی پشتو تو چھوڑئے انگلش بلاگنگ اور انٹرنیٹ پر لکھنے لکھانے کی معلومات جان کر بہت ہی افسوس ہوا. آج کا استاد، لیکچرروپروفیسر صرف اور صرف رٹے لگوا کر امتحانات میں بھیج رہا ہے، بہت کم اساتذہ کرام ہونگے جو نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے ہونگے ورنہ باقی تو خیریت ہے. افسوس اس بات کا بھی ہے کہ گزشتہ حکومت جو اپنے آپ کو پختون قوم کی ترجمان کہا کرتی تھی صرف اور صرف رویائتی دفتری کارروائیوں کے علاوہ پشتو زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے کچھ نہ کرسکی. میں اب بھی پشتو میں کھل کر بحث و مباحثہ نہیں کرسکتا اور نہ ہیاپنے دل کی بات کو پشتو زبان کے پیراہن میں اچھے طریقے سے بیان کرسکتا ہوں ـ اب یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی اپنی مادری زبان کے مطالعہ کو وقت دیں اور اس کی ترویج واشاعت میں بھی اپنا کردار ادا کریں. کی
0 comments:
Post a Comment