Monday 15 July 2013

July 15, 2013
2

ایچ ایم کالامی (اسلام آباد):         وطن عزیز میں آج کل قطاریں بہت لمبی ہوتی جارہی ہیں۔’’جس رفتار سے وطن عزیز کے سرکاری و نجی اداروں میں انتظامی سہولیات کا فقدان بڑھتا جارہا ہے اس رفتار سے قطاریں بھی لمبی ہوتی جارہی ہیں۔‘‘

سی این جی فلنگ سٹیشن کا تو دوسرا نام ہی قطار سٹیشن بن گیا ہے۔سی این جی کا نام سنتے ہی تاحد نگاہ لمبی لمبی قطاریں ذہن کے پردے پر اپنا عکس ڈال دیتی ہیں۔دیہاتوں میں لوگ ایندھن کی لکڑی کاٹنے کے پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کرتے ہیں تودو ٹائم کے لئے دانہ پانی کا بھی بندوبست کرکے ساتھ لے جاتے ہیں۔اب ماشااللہ شہروں میں لوگ سی این جی بھروانے سے پہلے یہ انتظام کرکے گھر سے نکل پڑتے ہیں،لیکن دیہاتوں کی نسبت شہریوں کے لئے خاصا اچھا انتظام ہے۔منتظرین سی این جی کے لمبی قطاروں کے آس پاس غریب محنت کش سی این جی زدہ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوتے ہیں بلکہ اکثر سی این جی سٹیشنوں کے آس پاس تو چائے کی کیفی اور ریستوران کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ ان کا کاروبار اس دن مست ہوتا ہے جس دن سی این جی ملنی ہوتی ہو۔
قارئین جیسے ہی میں اوپر والے چند سطور زیر قلم لاچکا تھا تو ایک دوست کی کال آئی، وہ بیچارا بھی سی این جی کی بھیک مانگنے ’جی سیکس سیکٹر‘ سے ہمارے ’جی ٹین سیکٹر ‘اسلام آباد میں قدم رنجہ فرما چکا تھا۔اس نے سوچا کیوں نہ ایک تیر سے دو شکار کرے سی این جی بھی بھروالے اور ہم سے ملاقات بھی کرے۔
میں اپنا قلم کاغذ رکھ کر ان کے پاس گیا گاڑی میں سیٹوں پر ٹیک لگاکر خوب خوش گپیاں کرتے رہے۔گھنٹوں بعد ہی جاکر ان کی باری آئی اور وہ سی این بھرواکر اس قید بامشقت سے باعزت بری ہوا۔
خیر سی این جی والی قطاریں گھٹن والی نہیں اس پر جتنا بھی بحث کریں بے فائدہ ہے۔بجائے سی این جی کے بحران پر قابو پانے کے، حکومت اور سی این جی مالکان اسی طرح آپس میں گھتم گھتا رہیں گے اور قطاریں بھی اسی طرح بڑھتی جائیں گی، لیکن مقام افسوس ہے کہ جب بے چارے عوام کو اپنی محنت مزدوری سے کمائی ہوئی پیسوں کو بنکوں میں جمع کروانے کی خاطر ایک اور قطار میں سڑتا ہوا دیکھتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ جھلستی دھوپ ہو، دھول دار بارش ہو، طوفان ہو یا خون جمانے والی سردی ہو ہر موسم میں بنکوں کے سامنے دیوارچین کے مانند لمبی قطاریں ضرور دکھائی دیتی ہیں۔
کسی کے ہاتھوں میں بجلی، ٹیلیفون وغیرہ کا بل، کسی کے ہاتھ میں بنک چیک کسی کے ہاتھ میں گاڑی کا چالان اور دامن قیامت سے دامن باندھی ہوئی قطار۔یہ تو بنکوں کے اندر کا ماحول ہے ۔ بنکوں کے باہر جو صارفین کی سہولیات اور آسانی سے ٹرانسیکشن کرنے کی خاطر لگی ہوئی اے ٹی ایم مشینیں ہیں ان کے سامنے تو شرمناک قسم حد تک ایک اور لمبی ’’قطار‘‘ جو چھٹیوں میں بھی اسی تواتر سے کھڑی رہتی ہیں۔ 
چھوٹے موٹے شہروں میں تو اے ٹی ایم مشین نام سے پیسوں سے خالی صندوقچے بنکوں کے ساتھ نصب کئے گئے ہوتے ہیں اندر نہ ایک دمڑی موجود ہوتی ہے، نہ اس میں بجلی کاکرنٹ ہی موجود ہوتا ہے۔ جب کوئی ان کے منہ میں اے ٹی ایم کارڈ دے کر قسمت آزمائی کرتا ہے ، تو یہ صندوق نما مشینیں سالم کارڈ کو ہی نگل لیتی ہیں پھر ان کے بٹن نہیں ، ان کے پیر بھی پڑو تو یہ کارڈ واپس نہیں اگلتیں، لیکن وطن عزیز کے دارلحکومت اسلام آباد جیسے بین الاقوامی شہر میں بھی جس اے ٹی ایم مشین کے درشن کرنے کی دل خواہش کرے، تودروازے پر ضرور تکنیکی خرابی کی پرچی چسپاں ہوتی ہے۔اے ٹی ایم مشین بنک ملازمین پر ورک لوڈ کم کرنے اور صارفین کو سہولیات بہم پہنچانے کی خاطر بنکوں کے ساتھ نصب کی جاتی ہیں ۔ پرسوں اتوار کی رات مجھے اے ٹی ایم سے کچھ ٹرانسیکشن کی ضرورت پڑی تو آس پاس اے ٹی ایم مشینوں پر قسمت آزمائی کی تو ایک میں بھی پھوٹی کوڑی موجود نہیں تھی۔ جب میں دارلحکومت کے گنجان مارکیٹ کراچی کمپنی گیا، تو وہاں الحبیب بینک کے اے ٹی ایم مشین کے سامنے لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر تو میں چکرا ہی گیا۔خیر ٹرانسیکشن ضروری تھی، اس لئے چار رونا چار قطار میں کھڑا ہونے میں ہی عافیت جانی ۔ جوں ہی میری باری قریب ہونے کو آئی تو ایک صاحب منہ پھلاتے ہوئے واپس نکلے اور کہا کہ مشین آوٹ آف بیلنس ہوگئی ۔ہم وہاں سے نا امید ہوکر جب ساتھ والی میزن بنک کے ایک لمبی تڑنگی قطار میں کھڑے ہوگئے، تو دو تین بندوں کے ٹرانسیکشن کے بعد وہاں بھی بیلنس ختم ۔ پھرپورے سیکٹر میں صرف ایک ہی اے ٹی ایم مشین رہ گئی تھی جس میں بھی صارفین صرف یہ امید لے کر داخل ہوتے کہ شائد کچھ رقم باقی بچی ہو۔ خیر کافی دیر انتظار کے بعد ہماری باری آہی گئی ۔اے ٹی ایم مشین کے ساتھ کھینچاتانی کرتے کرتے جب مشکل سے ٹرانسیکش ہوئی تو وہاں سے بھاگ نکلے ، لیکن مشین کے سامنے قطار تھی جو بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔
قارئین !ہمارے سرکاری اور نجی اداروں کے منتطمین بے چارے عوام کے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کو لوٹنے سے فرصت نہیں ملتی کہ ان اداروں کا کوئی انتطامی ڈھانچہ تریب دے کر عوام کو سہولیات پہنچائیں۔ اور ہم عوام بھی ہیں کہ بڑے بڑے مسائلستان کے پہاڑوں میں قید ہوکر ان چھوٹے موٹے مسائل کی طرف کیا توجہ دیں۔ اور ہانکنے والے کے تو مزے ہیں۔

2 comments:

  1. آپ عام ڈگر سے ہٹ کر موضوع چُنتے ہیں اور لکھنے کا طرز بھی اپنا ہی ہے ۔ میں آپ کی تحاریر پڑھنے کا لطف اٹھاتا رہتا ہوں ۔ آج معلوم ہوا کہ آپ اسلام آباد کے باسی ہیں ۔ آپ کا نام ماشاء اللہ نعیم ہے ۔ اس نام سے میں مانوس ہوں ۔ میں سکول کالج کے زمانہ میں نعیم کے نام سے شعر اور نثر لکھا کرتا تھا ۔ اگرآپ کالام کے رہنے والے ہیں تو کالام سے بھی مجھے پیار ہے ۔ اللہ نے کیا خوبصورت جگہ بنائی ہے ۔ اب ذرا سوچئے کہ میں کن جذبات کے ساتھ یہاں آیا اور لگ گیا سی این جی کی قطار میں ۔ سارا عشق برباد ہو گیا ۔ اللہ بچائے مجھے سی این جی سے ۔ مجھے ہمدردوں نے سی این جی لگوانے یا سی این جی والی گاڑی خریدنے کا مشورہ بار بار دیا مگر میں اصولی طور پر اس کے خلاف ہوں ۔ میں نے کہا ” اللہ نے گاڑی دی ہے تو پٹرول کے پیسے بھی دے گا ۔ گاڑی اپنی جان کو آرام پہنچانے کیلئے لینا ہے تو جان کو فالتو خطرہ میں کیوں ڈالا جائے“۔

    ReplyDelete
  2. افتخار بھائی! بہت بہت شکریہ ، آپ کے یہ قیمتی الفاظ ہمارے لئے بہت اہم ہیں۔ یہ کالم میرے دوست ایچ ایم کالامی کا تحریر کردہ ہے۔ میں نے اس بلاگ کو صرف اپنا نہیں بنایا ہے بلکہ وہ دوست جو لکھتے ہیں مگر بلاگ نہیں بنا سکتے اُن کے کالمز/تحاریر یہاں میں پوسٹ کرتا ہوں۔ یہ میرا نہیں بلکہ ہمارا بلاگ ہے۔ایچ ایم کالامی بھائی بسلسلہ روزگار اور تعلیم اسلام آباد میں مقیم ہیں اور تعلق کالام (سوات) سے ہے۔ جبکہ میں پشاور میں رہتا ہوں اور تعلق سوات سے ہے۔ میں خوش ہوں کہ میرا نام اور آپ کا قلمی نام ایک ہے۔ کوشش ہے کہ ہم لوگ آپ سے بہت کچھ سیکھیں ۔ اللہ آپ کو خوشیاں اور راحتیں نصیب کرے۔

    ReplyDelete