Tuesday 3 September 2013

September 03, 2013

گاؤری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروگرام اورلٹریسی سروے

تحریر: ایچ ایم کالامی

گاؤری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروگرام (جی سی ڈی پی) وادی کالام کی ایک’ کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن‘ ہے، جوکہ وادی کالام، اتروڑ، اشو،تھل کوہستان اور دیر کوہستان میں بولی جانے والی زبان ’گاؤری‘ کے تحفظ اور فروغ کے لئے مصروف عمل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ تعلیم ، صحت اور قدرتی آفات سے نمٹنے اور بحالی جیسے کاموں میں بھی یہ تنظیم ہر اول دستے کا کردار اداکرتی ہے۔ 
جی سی ڈی پی نے حال ہی میں ایک تعلیمی پروگرام’ تعلیم بالغان‘ کے ذریعے وادی کالام میں ایسے بالغ مرد اور خواتین جو تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں، کو ملٹی لنگول ایجوکیشن کے ذریعے اس بنیادی تعلیم سے آشنائی کی ٹھان لی ہے، جو وہ صرف انہیں لکھنے پڑھنے کے قابل بنا سکے ، اس ضمن میں ہم نے وادی کالام کے مضافات میں مختلف علاقوں کا ایل این اے LNA یعنی( Literacy Need Assisment) کا ایک سروے کیا۔ مذکورہ سروے کے ذریعے اس حسین وادی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شرحِ تعلیم اور مسائلِ تعلیم کے متعلق جو شرمناک اور افسوسناک نتائج برآمد ہوئے اس سے ہماری طبیعیت بوجھل ہوکر رہ گئی۔
حسین وادی کالام میں تعلیم کے مسائل پر تو ہم نے پہلے بھی کئی بار قلم کو جنبش دی، لیکن نتیجہ سیاہی اور کاغذ کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہ نکلا ، یہاں پر ہم صرف اس سروے کی مدد سے حاصل ہونے والے خواتین کے تعلیمی مسائل پر چندصفحے اور تھوڑی سی سیاہی اور ضائع کرتے ہیں۔ 
چونکہ ہم نے وادی کالام کے صرف تین ایسے علاقوں کا سروے کیا تھا جو کہ تعلیمی لحاظ سے دوسرے علاقوں سے قدرے بہتر تھے،پھر بھی خواتین کی شرحِ تعلیم انتہائی کم نکلی، تینوں علاقوں میں پرائمری سطح پر زیادہ سے زیادہ کوئی پندرہ سے بیس فیصد بچیاں ایسی ملیں، جو تعلیم یافتہ تھی ، مڈل سے لیکر میٹرک کی سطح پر بارہ سے پندرہ بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ تھیں اور انٹرمیڈیٹ سے لیکر گریجویٹ تک زیادہ سے زیادہ کوئی تین چار لڑکیوں کا ہی بمشکل سراغ ملا۔ ماسٹر کرنے والی لڑکیوں میں صرف ایک یا دو کے علاوہ تینوں اپنے علاقہ میں نہیں تھیں۔
سروے کی مدد سے ہم نے تعلیم نسواں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اسباب کا جو مشاہدہ کیا ، ان میں سب سے پہلے خاندانی پابندی ، اس کے بعد معاشرتی پابندی اور تیسرا بڑا سبب سکول کا نہ ہونا یا سکول سے لڑکیوں کا دور ہونا شامل ہیں۔
انسانی حقوق علمبردار دعوی کرتے ہیں کہ حقوق نسواں کے متعلق پاکستان میں ضعیف الاعتقادی کوشعور و آگہی کے ذریعے ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں، چلو مان لیتے ہیں کہ حقوق نسواں اور تعلیم نسواں پر کے متعلق کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیمیں انتہائی کامیابی کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں اور کافی حد تک مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، لیکن میں یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہوں کہ یہ کامیابی صرف شہروں اور چند مخصوص مقامات تک ہی محدود ہیں۔
کالام اور اسی طرح کے لاکھوں آبادی والے پہاڑی علاقوں کے ساتھ ہر برسراقتدار آنے والی حکومت نے روز اول سے سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا ہے، تعمیر وترقی ، فلاح و بہبود، شعبہ صحت، ہو یا شعبہ تعلیم کسی بھی حکومتی نمائندوں اور سرکاری یاغیر سرکاری تنظیم نے اس طرف نظر کرم نہیں کی۔
حقوق النسواں کے علمبرداروں کو شائد یہ معلوم نہیں کہ ایسے علاقے بھی پاکستان میں موجود ہیں جہاں خواتین کو کھیتی باڑی ،مال مویشیوں کی دیکھ بھال،کھانا پکانا اور کپڑوں کی دھلائی کی مشین سے ذیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا، جہاں ان کے حقوق کو پاؤں تلے روندا جاتا ہے ،خواتین ملکی و معاشرتی ترقی میں ہمیشہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہیں، لیکن حقوق النسواں کا علم بلند کرنے والوں نے کبھی اس طرف کان دھرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی،اور ان بے بس اور لاچار خواتین کی آواز فلک بوس پہاڑوں سے ٹکرا کردم توڑ دیتی ہے۔ 
اب ’جی سی ڈی پی‘ نے تعلیم بالغان کے اس پروگرام کو ترتیب دینے کی ٹھانی ہے، تو یقیناًیہ وادی کالام میں حصول تعلیم اور خاص کر خواتین کی تعلیم کے متعلق شعور اجاگر کرنے کی خاطر ایک قابل ستائش اور مثبت قدم ہے ’ جی سی ڈی پی‘ نے اپنے آئندہ پروگراموں میں وادی کالام کے علاوہ ، اتڑوڑ ، اشو، تھل کوہستان اور دیر کوہستان کو بھی اپنے اہداف میں رکھا ہے’ جی سی ڈی پی‘ کاطریقہ تعلیم ایم ایل ایMLE یعنی Multi Lingual Education کی شکل میں ہے، بس اس کی راہ میں حائل سب سے بڑی وجہ فنڈنگ ہے اس لئے فی الحال تنظیم کا دائرہ صرف ایسے علاقوں تک محدود ہیں، جہاں پر مادری زبان گاؤری بولی جاتی ہیں۔
تحریک انصاف کے قائدین کو اگر اپنے نئے پاکستان اور تبدیلی کے خواب کو عملی جامہ پہنانا مقصود ہو تو ایسے علاقے جہاں ہر شعبے میں ہمیشہ انصاف کا خون ہوتا رہا ہے، ان کو اور نہیں تو صرف تعلیم کی حصول میں انصاف فراہم کیا جائے ، تبدیلی کے آثار خود بخود نظر آنے لگ جائیں گے، کیونکہ تبدیلی کا آنا قلم اور کتاب کے بغیر ناممکن ہے۔

0 comments:

Post a Comment