کبھی آپ نے اُس بچے کو دیکھا ہے جس کو زبردستی اُس کی ماں سے چھینا جاتا ہے اور وہ باہیں پھیلا کر اپنی ماں کو جکڑے رہتا ہے، کسی بھی صورت وہ اپنی ماں کو نہیں چھوڑتااور ہر ممکن صورت جڑا رہتا ہے۔ ماں کی ممتا بھی اُس کو الگ نہیں ہونے دیتی، کہیں اُس کے آنسو نکلتے ہیں تو کہیں آہ وزاری۔ مگر یہ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے لئے ایک دردمند اور رحم بھرا دل ہونا چاہئے۔ خواہ وہ بچہ درخت اور اُس کی ماں زمین ہی کیوں نہ ہوں۔ زرہ چشم تصور سے دیکھیں آپ کو ماں کا دکھ اور بچے کی بے چینی نظر آئے گی۔ شاید اس کٹے درخت پر بھی وہی گزری ہوگی، بے رحم انسان نے اپنے تھوڑے فائدے کے لئے اس کی جان تو لے لی مگر اس نے مرتے دم تک اپنی ماں کی دامن کو نہیں چھوڑا اور جب تک اس کا وجود باقی ہے اس کی باہیں اپنی ماں کی گرد لپٹی رہیں گی ۔
یہ تصویر سیدوٹیچنگ ہسپتال سیدو شریف سوات کی ہے جو کہ ستمبر 2013 میں لی گئی ہے۔ اس تصویر میں ربڑ کے درخت ہیں جن میں سے ایک کو یہاں کی انتظامیہ نے کاٹ لیا ہے جبکہ دوسرا ابھی کھڑا اپنے کٹے دوست کی لاش پر ماتم کررہا ہے اور کسی بھی لمحے کسی ظالم انسان کی ہوس کا شکارہوکر یا تو انگیٹی میں اس کی چتا جلا کردھواں بنا کر اُڑا دیں گے، اس کی لاش پر لوگ اُٹھتے بیٹھتے نظر آئیں گے۔ باقی فیصلہ آپ خود کریں۔
نعیم ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میرے بس میں ہو تو اس درخت کا سر قلم کرنے والے کا سر قلم کرنے کا حکم جاری کر دوں ۔۔۔۔۔ آپ کبھی یورپ جاؤ تو دیکھو کسی ایک درخت کو بچانے کے لئے پوری سڑک کا ڈیزائن تبدیل کر دیا جاتا ہے مگر یہاں ۔۔۔۔ تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteجناب ۔ میں نے ساتویں جماعت (1949ء تا 1950ء) کی اُردو کی کتاب میں نظم پڑھی تھی ”پھول کی فریاد“ جس کا ایک آدھ شعر مجھے اب تک یاد ہے
ReplyDeleteکیا خطا میری تھی ظالم ۔ تُو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک ۔ شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر اس ہنسی کے دردناک انجام کو
میں ہوا کےگُدگدانے سے نہ ہنستا نام کو