جاہ وجلال، شہرت اور خودنمائی ، اگر میں کہوں کہ یہ انسانی خواہشات ہیں جو اُس کے خون میں شامل ہیں اور بہت کم لوگ ہیں جو اس نشئہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے بڑی بڑی جگہوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ انکساری، خاکساری اور عاجزی جیسے صفات بہت کم لوگوں میں ہوتے ہیں جو کہ شہرت کی بھوک سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ پاتے
ہیں اور قوم کی خدمت کرتے ہیں۔
ہیں اور قوم کی خدمت کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ عام بات ہے اور اب تو ہم لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں کہ جہاں بھی کوئی سڑک بند کردی جائے، راستے روک لئے جائیں تو سمجھ جائیں کہ کوئی نہ کوئی وی آئی پی بندہ آرہا ہوگا اور یہ مذاق سوات میں بہت کھیلا جارہا ہے۔ سیکیورٹی وجوہات اپنی جگہ پر مگر ایسی جگہوں پر کیوں وی آئی پیز کو بلایاجاتا ہے جہاں عام عوام کا آنا جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں عمران خان صاحب اپنی پوری کابینہ کے ساتھ سوات کے دورے پر آئے۔ کچھ ترقیاتی کاموں کا افتتاح کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے پروگرام میں سیدوٹیچنگ ہسپتال کا دورہ بھی شامل تھا۔ سوات جو کہ آج کل ہیضہ اور ڈینگیو بخار کی لپیٹ میں ہے اس وقت عمران خان کا علاقے کا دورہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اُنہوں نے دورہ کیا اور ہدایات بھی جاری کیں ہونگی مگر اُن کے آنے جانے کے دوران پورا دن سوات کی مین شاہراہ مینگورہ سیدو شریف روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بلاک کردیا گیا۔ چونکہ سوات کے دونوں بڑے ہسپتال سیدو ٹیچنگ ہسپتال اور سنٹرل ہسپتال سیدو شریف میں واقع ہیں اور یہی ایک سڑک اس طرف جاتی ہے کوئی اور دوسرا راستہ نہیں ہے اس وجہ سے جب بھی یہ روڈ بن کردیا جاتا ہے تو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مریضوں کے لئے بہت مشکل وقت ہوتا ہے۔ وی آئی پیز کو تو علم ہی نہیں ہوتا یا شاید کسی مصلحت کے تحت چھپ رہتے ہیں مگر انتظامیہ اپنی کارکردگی کو چھپانے اور نمبر بڑھانے کے لئے سب کچھ ٹھیک ہے کا شوشہ چھوڑنے کے لئے تمام راستے بند کردیتی ہے جو کہ اُن کی نااہلی کا اشارہ ہے۔ مریض خواہ مرے یا جئے اُن کو کیا، کس تکلیف سے وہ گزریں گے اُن کو تو اپنی نوکریاں عزیز ہیں اور وی آئی پیز کے سامنے نمبر بڑھانے ہیں۔اس دورے کا ایک فائدہ ہوا کہ صبح ہی سے ہسپتال کو غسل کروایا گیا، تمام سٹاف جو کبھی کبھار ہی دکھائی دیتا ہے ہاتھ باندھے کھڑے تھے، کہیں چونے کی لکیریں لگائی جارہی تھی تو کہیں پر برسوں پرانی زنگ لگی جھالیوں اور بوسیدہ پلنگ پوشوں کو صاف کیا جارہا تھا۔ بقول ایک سٹاف نرس کے اُس نے اپنی پوری دس سالہ ملازمت میں ہسپتال میں اتنی صفائی ستھرائی اور سٹاف کی مستعدی نہیں دیکھی۔ سوات میں تباہ حال سکولوں کی تعمیر کے بعد کسی نہ کسی وی آئی پی کو اس کی افتتاح کے لئے بلایا جاتا ہے، پورا دن سڑکوں پر جوانوں کو تعینات رکھا جاتا ہے اور جب وی آئی صاحب کے آنے کا وقت ہوجاتا ہے تو تمام راستوں اور سڑکوں کو بند کردیا جاتا ہے خواہ کوئی مرے یا جئے کسی کو اس سے کیا اُنہوں نے تو اپنی کارکردگی دکھانی ہے اور دادوصول کرنی ہے۔ ہمارے ایک محترم محمد جاوید صاحب (مرحوم) کے ساتھ ایک دفعہ میں کہیں جارہا تھا تو یہی مسئلہ درپیش آیااُنہوں نے کہا کہ برطانیہ میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے ٹریفک ایک ذرہ سے لمحے کے لئے اپنی ترتیب سے زیادہ وقت کے لئے روک لی گئی جب میں نے پاس کھڑے ٹریفک سارجنٹ سے پوچھا تو اُس نے کہا کہ ملکہ کی سواری گزری ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں جب حکمران راستوں سے گزرتے ہیں تو گھنٹوں کیا پورا پورا دن سڑک بند ہوتے ہیں اور ایسے موقعوں پر اموات اور پیدائش کا ہونا اب معمول کی بات ہے۔
دس ستمبرکو عمران خان صاحب نے پشاور کا دورہ کیا اور اس موقع پر پشاور صدر کی مین شاہراہ بند کردی گئی، پہلے اس قسم کے موقعوں پر مال روڈ استعمال کیا جاتا تھا مگر اب تو آس پاس کی تمام سڑکیں بند کردیں جاتی ہیں۔ جس کی کچھ تصاویر میرے دوست عاشق نبی نے اپنے کیمرے میں محفوظ کیں ہیں جو کہ تحریر کے آخر میں موجود ہیں۔
میرے دوست شاید مجھ سے ناراض ہوجائیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کا نام ہی کیوں لے رہا ہوں تو جناب عرض یہ ہے کہ یہ لوگ تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے، وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا نعرہ لگا تھا، عوام کی تکالیف دور کرنے کا نعرہ لگا تھا، ووٹ ہم نے ان کو اس لئے نہیں دیا تھا کہ یہ بھی وہی لائحہ عمل اختیار کریں جو گزشتہ ناکام حکومتوں نے اپنائے رکھا تھا۔ میں نے اگر ووٹ دیا ہے تو میرا حق بنتا ہے کہ میں اعتراض بھی کروں۔ میری بہت ساری اُمیدیں اُن سے وابستہ ہیں۔ بے شک اپنا آنا جانا فول پروف رکھیں، مگر عوام کو تو تکلیف نہ دیں نا۔ سنا تھا کہ جب فضل حق صاحب صوبہ کے گورنر تھےتو صبح وہ اپنے پرائیوٹ سیکرٹری کے ساتھ بازار کا چکر لگا لیتے تھے، کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی غلط کام کرتا، کہیں گندگی ہوتی یا کوئی گرانی ہوتی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے سیکیورٹی کے نام پر اپنے آپ کوسیکیورٹی گارڈز اور پولیس کی حصار میں قید کردیا ہے ، نہ عام آدمی کی اُن تک پہنچ ہے اور نہ ہی وہ عوام کی آواز سنتے ہیں بس اُن کے اردگرد جو حواری موجود ہوتے ہیں اُن کی بنبناہٹ ہی اُن کے کانوں میں گونج رہی ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ مغربی دنیا میں بہت سارے ممالک کے سربراہان عام سی زندگی گزارتے ہیں، سائیکل پر دفتر آتے جاتے ہیں، آدھی دنیا پر حکمرانی کرنے والی حکومت کے وزیر اعظم صرف دو کمروں کے فلیٹ میں مقیم ہوتے ہیں، دنیا کی سپر پاور کہلانے والے ملک کے صدر کو اختیار نہیں کہ اُس کو ملنے والے تحائف وہ گھر لیں جائےتو پھر ہمارے حکمران کیوں بنکرز میں بیٹھ کر حکمرانی کرتے ہیں؟
فیس بک پر جب پشاور میں روڈ بلاک کی تصویر شئیر کی تو ایک بہت محترم دوست نے اپنے تبصرے میں جو لکھا وہ پیش خدمت ہے
Kitne dair keliye traffic band ti? Yaar he is an important leader and has got security concerns..
میں تو سمجھ رہا تھا کہ جب یہ لوگ آئیں گے حکومت میں تو حقیقی تبدیلی لائیں گے۔ سیکیورٹی خطرات تو اُن کو بھی تھے اور اِن کو بھی ہیں۔ وی وی آئی پی پروٹوکول وہ بھی لے رہے تھے اور یہ بھی لے رہے ہیں۔ فرق کیا رہ گیا۔
بھئی آپ جہاں بھی جائیں سادگی کے ساتھ جائیں، روڈز بلاک نہ کریں، سڑکوں اور گلیوں پر اپنی سیکیورٹی کے لئے پہرے نہ بٹھائیں۔ اگر افتتاح کا اتنا ہی شوق ہے تو وزیر اعلیٰ ہاؤس یا سیکرٹریٹ یا کسی اور محفوظ جگہ پر تختی کی نقاب کشائی کریں جیسے جلوزئی انجینئرنگ یونیورسٹی کی سنگ بنیاد گورنر ہاؤس میں رکھ دی گئی تھی۔اگر تمام وی وی آئپیز اپنے قلعوں کے اندر رہتے ہوئے افتتاح کریں تو یہ اُن کے لئے بھی محفوظ ہوگا اور عوام بھی محفوظ ہونگے۔
نعیم بھائی ، تبدیلی کا نعرہ خواب بنا دیا ہے ان لوگوں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ہم یہاں لکھ کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں جو یہ نہیں کر سکتے وہ یا تو خود کشیاں کر رہے ہیں یہ اپنے ہی بچوں کو قتل کر رہے ہیں ۔ اللہ پاک ہمارے وطن عزیز پر اپنا رحم فرمائے
ReplyDeleteورورہ یا خو تہ سا
ReplyDeleteدہ اے یا بیا ہسے لگیا اے۔
زمونگ قام سیاسی کلچر ہوم داسے جوڑ دے۔ کہ تہ تبدیلی غواڑے نو بیا بنیاد نہ شروع کہ۔ تبدیلی چرے ہم دہ پاسہ نہ نہ دا راغلے۔
ایک اچھی اور سچی تحریر
ReplyDeleteعمران خان روڈ بلاک کر کے وعدہ خلافی کرے گا ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ سچ کہتے ہیں کہ جب تک آدمی کو آزمایا نہ جائے اس کے کھوٹا کھرا ہونے کا پتہ نہیں چلتا۔
ReplyDelete