Thursday, 10 April 2014

April 10, 2014
4
تین دن جاری رہنے والا سالانہ پھولوں اور پرندوں کی نمائش قومی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ روز اختتام کو پہنچی۔ ملک کے مرکزی شہر کا ترقیاتی ادارہ "کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی" ملک کے باقی شہروں کی طرح ہرسال اسلام آباد میں دوسرے فیسٹیولز کے ساتھ ساتھ پھولوں کی نمائش کا انعقاد بھی کرتا ہے۔ اس سال اس نمائش میں پھولوں کے ساتھ پرندوں اور پالتو جانوروں کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں عوام نے بھرپور شرکت کی اور اپنے پالتو پرندے اور جانور نمائش کے لئے پیش کئے۔ مصروفیت کے اس دور میں سکون اور راحت کے چند لمحات انسان غنیمت ہےاور جب آپ کے شہر میں آپ کو کوئی ایسا موقع مل جاے تو اللہ سے اور کیا چاہئے۔ اس میلے میں بچوں بڑوں اور فیملیز نے کافی تعداد میں شرکت کی۔


پھولوں کی خوبصورتی ہمیشہ انسان کے لئے راحت و سکون کا باعس ہے۔ آپ چاہیں کتنے ہی تھکے اور ڈپریس کیوں نہ ہوں اگر آپ کچھ دیر قدرت کے اس حسن پر اپنی توجہ مرکوز کرکے تھوڑے وقت کے لئے زندگی کے باقی بکھیڑوں کو بھولنے کی کوشش کریں تو یقیناً آپ کو ایک پُرکیف لطف آئے گا۔ اس نمائش میں آنکھوں کو خیرہ کرنے والا بے پناہ حسن موجود تھا۔ کئی انواع و اقسام کے پھول بوٹے بہت خوبصورت انداز سے سجائے گئے تھے۔ یہاں رنگ بھکریتی بہار اپنے جوبن پر تھی اور لوگ جوق در جوق قدرت کے حسن کو دیکھنے آرہے تھے۔اسلام آباد کے بہت سارے اداروں نے یہاں پر اپنے اپنے پھول نمائش کے لئے رکھے تھے جو بہت ہی قرینے اور مہارت سے سجائے گئے تھے۔ قادربخش فارمز نے بھی مشرومز (کھمبیوں) کاتربیتی ورکشاپ کا سٹال سجا رکھا تھا۔ فیصل آباد، لاہور، کراچی میں کامیاب تربیتی پروگرام کرنے کے بعد اسلام آباد میں اُن کا یہ چوتھا پروگرام تھا جس میں خواتین اور مرد حضرات کے ساتھ ساتھ بچوں نے بھی بہت دلچسپی لی اور مشرومز کے نئے نئے ذائقوں سے لطف اندوز ہوئے۔ اس تربیتی پروگرام میں لوگوں کومشرومز یعنی کھمبیوں کی پہچان، کاشت، غذائی وطبی فوائد، پکانے کے طریقے بتائے گئے اور ساتھ  لذیذ مشروم اُسی وقت پکا کرکھلائے بھی گئے۔بہت ساری نرسریوں کے سٹالز لگے تھے جہاں پر مقامی پودوں کی پنیری، بیج، کھاد سمیت درآمد شدہ قیمتی اور نازک پودے بھی عوام کی نمائش اور فروخت کے لئے رکھے گئے تھے۔ 
پھولوں کے ساتھ ہی ملک بھر سے پرندوں کے شوقین افراد اور اس کاروبار سے منسلک لوگوں نےبھی شرکت کی اور نمائش میں بہت سارے قیمتی جانور اور پرندے پیش کئے جن میں عوام نے بہت دلچسپی لی۔ یہاں پر ویٹرنری ڈاکٹرز اور چرند پرند کی صحت اور دیگر سہولیات سے منسلکہ کمپنیوں نے بھی اپنے اپنے پراڈکٹس کے سٹالز لگا رکھے تھے۔ اس نمائش کی خاص بات یہ تھی کہ جہاں پھول اپنی رعنائیاں بکھیر رہے تھے وہاں پر خوبصورت پرندوں و چوپائیوں کا میلہ بھی رونق بڑھا رہا تھا۔ یہاں پر خاص نسل کی مرغیاں، کبوتر، مرغابیاں، بٹیر، قسما قسم طوطے، خرگوش اور حنوت شدہ جانور بھی نمائش کے لئے موجود تھے۔ 



چونکہ یہ ایک فیملی نمائش تھی اس لئے بہت سارے لوگوں نے اس میں انفرادی طور پر بھی سٹال لگا کر اپنی مصنوعات نمائش اور فروخت کے لئے رکھے تھے خاص کر شہد بنانے والی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی مختلف پھولوں کے مختلف ذائقوں اور تاثیر والے شہد، مگس بانی کے آلات کے ساتھ مصنوعی طریقہ سے بنائے گئے شہد کی مکھیوں کے چھتے اور موم (ویکس) بھی عام عوام کے معلومات کے لئے اپنے اپنے سٹالز پر دکھائے۔
بڑھتی ہوئی الودگی اور فصلوں اور پودوں پر بے دریغ زہریلی ادویات و سپریز کے استعمال نے جہاں شہد کی مکھی کی زندگی کے لئے خطرات پیدا کردئے ہیں وہاں پر نازک تتلیاں بھی ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ یہ ساری نمائش تتلیوں کے بغیر ادھوری سی تھی مگر ایک خاتون نے مصنوعی تتلیاں بنا کر  اس نمائش میں پھولوں پر منڈلاتی، اُڑتی پھرتی تتلیوں کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت تھوڑے سے سرمائے سے یہ کام شروع کرچکی ہیں اور اپنے گھر میں گھر کے کام کاج کے بعد یہ تتلیاں ڈیزائن کرتی ہیں اور مختلف نمائشوں میں سٹال لگا کر نہ صرف اپنے  طور پر اپنے خاندان کی آمدنی میں اضافہ کررہی ہیں بلکہ یہ پیغام پورے ملک کی خواتین کے لئے دے رہیں کہ کسی بھی سطح پر آپ اپنا کاروبار شروع کرکے خود کفیل ہوسکتی ہیں اور نہ صرف اپنا بلکہ اپنے خاندان کا بھی ہاتھ بٹاتی ہیں۔
یہاں پر دیگر بہت سارے سٹالز کے ساتھ ساتھ پتھر پر خوبصورت کام بھی دیکھا اور ہاتھ کی بنی ہوئی جیولیری اور ڈیکوریشن کا سامان بھی جس کے بارے میں ہمارا عام خیال ہے کہ ایسی جیولری صرف باہر کے ممالک سے درآمد کی جاتی ہے مگر نہیں جناب، ہمارے ہاں کے ماہر اور محنتی کاریگر بہت عمدہ کام کررہے ہیں جس کی مثال "دی کرافٹ" کا ہے جن کی خوبصورت جیولری اور دیگر اشیاء خواتین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔
  

  نمائش ہو اور کھانے پینے کے سٹالز نہ ہوں یہ تو ممکن ہی نہیں۔ یہاں پر روائیتی لذیذچٹ پٹے کھانوں کے ساتھ لائیو آئس کریم کا بھی سٹال تھا جس میں بقول سٹال کے مالک کے پاکستان میں پہلی مرتبہ آپ کے سامنے آئس کریم بنا کر کھلائی جائے گی اور واقعی اُنہوں نے ایسا کیا بھی، اس مقصد کے لئے مائع کیمیکل نائڑوجن کا استعمال کیا گیا اب یہ صحت کے لئے کتنا مفید ہے یہ تو ڈاکٹرز اور سائنسدان ہی بتا سکتے ہیں۔ البتہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ انسانی صحت کے لئے مضر نہیں اور ان کی یہ ٹیکنالوجی آسٹریلیا سے درآمد شدہ ہے۔
لاہور، کراچی، فیصل آباد، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں مقامی انتظامیہ نے بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے اور قدرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے اور عوام کی تفریح کے لئے بہت سارے میلوں کا انعقاد کیا اور کیا جارہا ہے۔ البتہ پشاور میں کئی سالوں سے جاری خاموشی فی الحال برقرار ہے اور اُمید ہے کہ بہت جلد یہاں کی انتظامیہ عوامی مقامات پر ایسے خوبصورت میلوں کا انعقاد کرکے عوام کی ذہنوں پر حاوی خوف کے اثر کو کم کریں گے۔ پشاور میں ہر سال گلِ داودی کی نمائش کی جاتی ہے مگر "خالد بن ولید باغ" تک عوام کی دسترس نہ ہونے اور فوجی چھاونی ہونے کی وجہ سے عوام اس سے الطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ایسے مقامات کا انتخاب کیا جائے جہاں لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ آسانی سے جا کر سکون کا تھوڑا سا وقت گزار سکیں اور قدرت کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔

4 comments:

  1. دستکاری کی صنعت کو سہارا ملنا چاہیئے ۔ یہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہمارے چھوٹے شہروں اور دیہات کے لوگ بہت ہُنرمند ہیں ۔ سرمایہ دار ان کی محنت کا پھل اُچک رہے ہیں ۔ جس کے نتیجہ میں یہ صنعت مرتی جا رہی ہے اور شہروں میں بسنے والے عوام تک بھی اس ہُنر کا فائدہ نہں پہنچ رہا

    ReplyDelete
    Replies
    1. بالکل جناب آپ کی بات سو فیصد درست ہے.

      Delete