انسانى بقا اور زندگى كا تعلق رزق سے وابستہ ہے.اگر كسى انسان كو رزق ميسر نہ ہو تو اس سے انسانيت يا تہذيب كى توقع ركهنا يا اسے تہذيب يامذہب كے قصيدے سنانا بالكل ايسے ہى بيكار ہے جيسے كسى بهوكےشير سےشاعرى كى توقع كى جائے.
كسى صاحب بصيرت نے خوب كہا ہے."بهوک تہذيب كے آداب بُهلا ديتى ہے"
نظريات و عقل و شعور كى بارى طبعى بقا كے بعد ہى آتى ہے.خالى پيٹ منطق و دليل سے قطعى ناآشنا وعارى ہوتا ہے.
بهوک اور خالى پيٹ كسى بهى مہذب قوم كو ناراض جانوروں كےجهنڈ ميں تبديل كرسكتا ہے.
ايک اندازے كے مطابق غذائى قلت سے عدم تحفظ تقريباً پاكستان كے ہر ضلعے ميں ہے پاكستان كے سب سے زياده آبادى والے صوبے پنجاب ميں كُل 34 اضلاع ميں سے صرف 9 اضلاع غذائى قلت سے محفوظ ہيں اسى طرح صوبہ خيبر پختون خوا ميں كُل 16 اضلاع ميں صرف 5 اضلاع غذائى قلت سے محفوظ ہيں۔بلوچستان كے25 اضلاع ميں سے صرف 4 اضلاع غذائى قلت سے محفوظ تصور كئے جاتے ہيں اور سندھ كے 15 اضلاع ميں سے 9 اضلاع غذائى قلت سے محفوظ ہيں .
برطانيہ كے ايک نشرياتي ادارے کے مطابق دنيا بھر کي مجموعي غذا کا نصف حصہ سالانہ ضائع ہو جاتا ہے ،برطانوي تحقیقی ادارے کي رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں سالانہ تقريباً دو ارب ٹن غذا خراب ہو جاتی ہے ،برطانيہ ميں30فيصد سبزياں کھيتوں ميں ہي گل سڑ جاتي ہيں.پاکستان ميں غذائي اشياء کي پيداوار کا 16فیصد جو کہ سالانہ 3.2ملين ٹن ہے، ناقص ذرائع مواصلات کي وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے،دنيا کي مجموعی چار ارب غذائي اشياء ميں سے30سے50فیصد کے درميان خراب ہو جاتی ہيں۔ يورپ اور امريکا ميں خريدي جانے والي غذائي اشياء ميں سے نصف باہرپھينک دي جاتي ہے، عالمی سطح پر سالانہ 550ارب کيوبک ميٹر پانی ان سبزيوں کی کاشت پر ضائع کرديا جاتا ہے جنہيں کبھی کاٹا ہی نہيں گيا۔
اس كے برعكس ہم بحيثيت مجموعى شيمپو اور ٹوتھ پيسٹ كو تو بچا بچا كر استعمال كرتے ہيں ليكن روزانہ ڈهير سارا رزق ايسے ضائع كرتے ہيں جيسے رزق كے كارخانے ہمارے گهر سے نكلتے ہو اور يا تو ايسے جيسے نعوذباالله رزق كےسرچشموں كا اختيار بهى ہمارے پاس ہو۔
ہمارے معاشرے ميں شادى كے تقريبات ہو وليمے و دعوتيں ہوں يا دوسری سماجى تقريبات ہم كهانوں كى بهر مار لگاتے ہيں اور تقريبات ختم ہونے پر بچا ہوا رزق ضائع كركے اس سے ردى كی ٹوكرياں بهر ديتے ہيں ہميں احساس ہى نہيں ہوتا كہ ہم كتنےبڑے جرم كا ارتكاب كررہے ہيں۔
اسى طرح ہمارے معاشرے كے بگڑے ہوئے "رئيس زادے" اور كارٹون نما "نو دولتئے" اكثر اوقات كهانا گهر سے باہر كهاتے ہيں اور كسى اونچے كلاس كے ريسٹورانٹ ميں جاكر پانچ آدميوں كيلئے پندره آدميوں كى خوراک آرڈر كرديتے ہيں یعنی اپنے باپ كے جائيز و ناجائيز پيسوں سے "پانچ كا پندره" اور تهوڑى سى خوراک كهاكر باقى كو ميز پر چهوڑ جاتے ہيں.
اسى طرح ہوٹلوں اور ريستورانوں ميں جو خوراک بچ جاتى ہے وه كسى غريب كى پيٹ كى آگ بجھانے كيلئے ہرگز دستياب نہيں ہوتى بلكہ يہ لوگ اسےشہروں كا ماحول خراب كرنے كيلئے ندى ناليوں ميں پهينک آتے ہيں.جو نتیجتامختلف بيماريوں كا سبب بنتے ہيں.
صرف ہوٹل ہى نہيں بلكہ معاشرتى سطح پر بهى يہ غلطياں ہم ميں عرصہ دراز سے پل رہى ہيں اور اكثر ديكها جاتا ہے كہ گلى كوچوں كى ناليوں ميں بہنے والى گهريلو گندگى ميں بهى زياده تر ضائع شده رزق ہى ہوتا ہے جوكہ ہم روزانہ كے حساب سے بنا احاسِ ندامت و احساسِ شرمندگى كے ضائع كرتےہيں۔دوسرى طرف گندگى كے ڈھير سے كھانا چننے والے بچوں اور بے بس و بے وسيلہ لوگوں كو ہم انسان ہى نہيں سمجھتے اور انہيں ايسے نظر انداز كرتے ہيں جيسے گندگى كے ڈھير پر كتوں كو نظر انداز كرتے ہيں۔اس اجتماعى بے حسى كے ساتھ ساتھ انفرادى طور پر بھى ہم رزق كو ضائع كرنے ميں كمال كو پہنچے ہيں بلكہ فضول خرچى پر ايسے فخر كرتے ہيں جيسے كوئى تير مارا ہو۔كچھ لوگ تو اشياء خورد و نوش كى خريدارى ميں بهى دكهاوے كى عادت سے باز نہيں آتے اور اكثر ضرورت سے زياده خريدارى كرتے ہيں جوكہ زياده تر گهر كے نا مناسب فريج سٹوريج
كى وجہ سے اپنى تازگى برقرار نہيں ركھ پاتےيا خراب ہوجانے كى وجہ سے يہ لوگ بہت ساره رزق ضائع كرديتے ہيں.
اسلام ہميں اعتدال كى تعليم ديتا ہے اور انتہا پسندى سے روكتا ہے.الله تعالٰى قران مجيد كے سوره الفرقان كى ايت نمبر 67 ميں فرماتا ہےترجمہ: "اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم"
مطلب اعتدال ہى واحد راستہ ہے۔اس كے ساتھ ساتھ قومى سطح پر ایک آگاہى مہم شروع كردينى چاہئے جس ميں مستقبل كے ممكنہ غذائى بحران سے نمٹنے پر آگاہى پهلائى جاسكےاور رزق كى ضياع كى شعورى طور پر حوصلہ شكنى كى جاسكے اور رزق كے متعلق اعتدال كى تعليم دى جاسكے.
بہت توجہ طلب موضوع ہے جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ توجہ دلانے کا بہت شکریہ۔ رزق کے لئے انسان جیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور پھر جو لوگ اس کا شکر ادا کرتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں اور جو ناشکری کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو اس کی سزا بھی دیتا ہے، خواہ وہ رزق کی کمی ہو، معاشرتی معاشی بدحالی ہو یا کسی دوسری شکل میں، لیکن جو لوگ قدر نہیں کرتے اُن کو سزا ضرور ملتی ہے۔
ReplyDeleteبھارت کی معروف سوشل ورکر آنجہانی "مدرٹریسا" نے شہر کے ریستورانوں میں بڑے بڑے برتن رکھوائے تھے، جس میں ہوٹل اور ریستورانوں کا عملہ گاہکوں سے بچ جانے والا کھانا صفائی سے جمع کرتے رہتے اور شام کو مخصوص اوقات میں مدرٹریسا کے ادارے کے لوگ آکر ان برتوں کو اُٹھا کر لے جاتے۔ شہر کے مختلف جگہوں پر اُنہوں نے غریب غرباء کے لئے کیمپ لگائے ہوتے تھے جو یہی بچ جانے والا کھانا ضرورت مندوں کو کھلاتے۔ یہی سوچ اور طریقہ کار اگر ہم اپنا لیں تو نہ رزق ضائع ہوگا اورکسی ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہوگی۔
بہت اچهی تحریر ہے
ReplyDeleteاللہ ہمارے دن میں رزاق کی قدر غریبوں کا احساس بهر دے
"بهوک تہذيب كے آداب بُهلا ديتى ہے"
ReplyDeleteٹھیک کہا بھائی لیکن ہمیں تو اُس معاشرے سے واسطہ ہے جہاں پیٹ بھر جاتے ہیں لیکن نیّتیں نہیں بھرتی۔
Hello mate great bblog post
ReplyDelete