تھرڈ ایئر کے انگلش کی کلاس جاری تھی، پروفیسر صاحب انگریزی ادب کی گہرائیوں کو سمجھانے میں مصروف تھے اور طلباء پروفیسر صاحب کی طرف متوجہ کہ اچانک کلاس روم کا دروازہ کھلا، ایک لمباتڑنگا شخص، مناسب داڑھی، کندھے پر چادر، آنکھوں میں ایک عجیب سی اُداسی لئے داخل ہوا۔ دروازے کےکھلنے کی آواز کے ساتھ ہی پروفیسر اور تمام طلباء اچانک اس کی طرف متوجہ ہوئے، اس سے پہلے کو پروفیسر صاحب اُس کے اندر آنے پر کوئی اعتراض کرتے، اُسی وقت اس آدمی کے پیچھے سے تقریباً پانچ چھ سال کی ایک خوبصورت بچی نمودار ہوئی اور اس کے پیر کے ساتھ لپٹ کر کھڑی ہوگئی اور اپنے ایک ہاتھ سے گلے میں پہنے ہوئے پلاسٹک کی موتیوں کے ہار کے دانے ایک عجیب انداز سے گھمانے لگی۔ اپنی خوبصورت گول گول آنکھوں سے اُس نے ساری کلاس کی طرف دیکھا، سب کی نظریں اس بچی پر رک گئیں۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب سی ایک چمک کے ساتھ ساتھ اُداسی اور یاس و حسرت میں لپٹی اُؐمید کی کچھ کرنیں تھیں جس کے سحر نے پوری کلاس کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور ہر طرف ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔ اس سکوت کو توڑتے ہوئے اس نوارد شخص کی آواز فضاء میں گونجی جس نے التجاء کہ کہ میری اس بچی کو خون کی کمی کی شکایت ہے اور ابھی خون کی ضرورت ہے، اگر کوئی میری مدد کرے تو میں ساری زندگی مشکور رہوں گا۔ اس شخص کے لہجے، التجاء، ضرورت، اور بچی کی معصومیت نے پوری کلاس کو اتنا سحرزدہ کردیا ۔ ٹیچر نے کہا کہ جو خون عطیہ کرنا چاہتا ہے ان کے ساتھ چلے جائیں۔ بہت سارے تیار ہوگئے، مطلوبہ خون گروپ کے دو تین طلباء اُن کےساتھ چلے گئے۔ اس باپ کی آنکھوں میں جو کرب، جو تکلیف، جو حسرت اور جو درد سمویا ہوا تھا وہ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اُس بچی کی معصومیت، ایک ہاتھ باپ کی ٹانگ سے لپٹائے اور دوسرے سے اپنے گلے کے ہار کی موتیاں گھماتے ہوئے دیکھنا میں ابھی تک نہیں بھول پایا، جب بھی یہ بچی یاد آتی ہے ایک عجیب سی ٹھیس دل میں اُٹھتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سارے بچے موجود ہیں جو کئی موضی امراض کا شکار ہیں، جن میں سے کچھ بیماریاں ایسی ہیں جن میں اُن کو خون کی کمی کاسامنا کرنا ہوتا ہے۔ تھلیسیمیا اور اینیمیا کی بیماریاں عام مشہور ہیں۔ ان بیماریوں میں انسان کا جسم خون پیدا کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے یا خون کی کمی ہونے لگتی ہے۔ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کو ایک مخصوص وقت کے بعد تازہ خون کی ضرورت پڑتی ہے جن کو دوسرے صحت مند لوگوں سے خون حاصل کرکے دیا جاتا ہے۔ 8 مئی کو پوری دنیامیں تھیلیسیمیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے لوگوں میں تھلیسیمیا کے مرض سے آگاہی، احتیاط اور اس بیماری کا شکار مریضوں کے لئے علاج معالجے اور صحت مند لوگوں کو خون کا عطیہ کرنے کی ترغیب دینے کے لئے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
کالج میں ہم کلاس فیلوز اور دوستوں نے بھی ایک خون عطیہ کرنے والے طلباء کی ایک سوسائیٹی بنائی تھی۔ جس کا نام ہم نے "جہانزیبین بلڈ ڈونڑز سوسائٹی" رکھا تھا۔ چہانزیب کالج سیدوشریف سوات میں ایسے مقام پر واقع ہے جس کے ایک طرف مینگورہ کی طرف "سنٹرل ہسپتال" جبکہ سیدوشریف کی طرف "سیدوٹیچنگ ہسپتال" واقع ہیں اور آس پاس اس علاقے میں بہت سارے پرائیوٹ ہسپتال بھی واقع ہیں۔ ایسے جگہ پر ہونے کی وجہ سے خون کے عطیہ کے طلبگار بہت سارے مریضوں کے لواحقین کالج کا رُخ کرتے ہیں اور تقریباً روزانہ کئی طلباء اپنے خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ جہانزیب کالج سوات میں بلڈ ڈونر سوسائٹی بہت پہلے سے موجود تھی اور ہمارے والد صاحب (پروفیسر سیف اللہ خان ) بھی اس میں بطور ممبر رہ چکے ہیں اور باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے رہے ہیں۔ اسی ہمارے بہت سارے بڑے باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے رہے ہیں۔ 2000ء سے 2002 تک میں اور ہمارے دوست بھی جہانزیب کالج میں رہے اور ہمارے دوستوں نے "جہانزیبینز بلڈ ڈونرز سوسائٹی " کی بنیاد دوبارہ تازہ کی اور باقاعدہ ایک ٹیم بنائی اور کالج میں آنے والے ضرورت مندوں کی خدمت کی۔ جہانزیبینز بلڈ ڈونرز سوسائٹی نے خون عطیہ کرنے والے طلباء کی حوصلہ افزائی اور دوسرے طلباء کو راغب کرنے کے لئے تعریفی اسناد بھی تقسیم کئے، میرے والد صاحب نے بھی مجھے ایک چھوٹا سا گول بیج دکھایا تھا جو اُن کو خون عطیہ کرنے پر کالج کی طرف سے ملا تھا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے کالج سے جانے کے بعد یہ سوسائٹی بھی ختم ہوگئی۔ ہمارے پاس لسٹیں موجود ہوتی تھیں جن میں خون عطیہ کرنے والے افراد کی مکمل تفصیل، ایڈریس، خون کا گروپ اور رابطہ نمبر درج ہوتے تھے۔ اگر کالج سے چھٹی ہوتی تو بھی ضرورت مند رابطہ کرنے پر جہانزیبینز عطیہ دینے پہنچ جاتے تھے۔ میرے رابطے میں جتنے بھی دوست ہیں وہ اب بھی باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے " جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی، گویا اُس نے تمام انسانیت کی زندگی بچالی"۔
بہت سارے لوگ خون کا عطیہ دینے سے گھبراتے ہیں، بہت صحت مند اور جوان لوگ ڈرتے ہیں کہ صحت خراب ہوجائے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے خون میں یہ خاصیت پیدا کی ہے کہ ہر تین ماہ بعد انسانی جسم میں خون اپنی مقدار خود برابر کرلیتا ہے اور کسی قسم کی کوئی کمزوری محسوس نہیں ہوتی۔ اگر آپ ایک صحت مند انسان ہیں تو ضرور خون عطیہ کیجئے۔ آپ کے خون سے ایک انسان کو نئی زندگی مل سکتی ہے، کسی ماں کو اُس کے بچے کی مسکراہت نصیب ہوسکتی ہے۔ کسی نئے آنے والے بچے کو ماں کی آغوش مل سکتی ہے۔ بہت ساری خواتین زچگی کے دوران خون کے ضائع ہونے کی وجہ سے اموات کا شکار ہوجاتی ہیں ، اُن کو بھی خون کے عطیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عرض یہ ہے کہ آپ اپنے دوست احباب، رشتہ داروں، کلاس فیلوز کی فہرستیں بنا لیں اور اُس میں اُن کے خون کا گروپ اور رابطہ نمبر درج کرلیں اور جب بھی خدا نخواستہ ضرورت پڑے مطلوبہ گروپ کے حامل بندے کو رابطہ کرکے آسانی سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرلیں۔ اپنے سکول، کالج، یونیورسٹی، آفس، کاروبار کی جگہ کہیں بھی اگر ہوسکے تو ایسی سوسائیٹیز بنالیں، اگر یہ مشکل ہو توکم از کم فہرستیں ہی مرتب کرلیں۔ جن مریضوں خون کی ضرورت ہو اُس کے لواحقین کا رابطہ نمبر، مریض کا بلڈ گروپ اور دیگر تفصیلات ایک پیغام میں تحریر کرکے فون سے ایس ایم ایس، سوشل میڈیا پر ٹیوٹر، فیس بک اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھیجیں، کہیں نہ کہیں سے تو ان کی ضرورت پوری ہو ہی جائے گی اور آپ کو انسانیت کی خدمت کرکے کے ایک منفرد سکون ملے گا۔ ہمارے آس پاس بہت سارے ادارے اور سوسائٹیز ایسے مریضوں کی خدمت کے لئے موجود ہیں، اُن کو بھی خون کے عطیات دے کر ہم مریضوں کی مدد کرسکتے ہیں۔
تھیلیسیمیا، اینیمیا، بلڈ کینسر، خون کے مختلف گروپس، پاکستان اور دنیا میں ایسے مریضوں کی تعداد، مرض، علاج اور مختلف سوسائٹیز وغیرہ کے بارے میں معلومات گوگل کی ویب سائٹ پر تلاش کرنے سے آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہیں۔
تھیلیسیمیا، اینیمیا، بلڈ کینسر، خون کے مختلف گروپس، پاکستان اور دنیا میں ایسے مریضوں کی تعداد، مرض، علاج اور مختلف سوسائٹیز وغیرہ کے بارے میں معلومات گوگل کی ویب سائٹ پر تلاش کرنے سے آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہیں۔
کچه دن پہلے میرے ایک بیٹے کے دوست کے والد کا دل کا آپریش تها بیٹے نے گهر سے خود اور دوسرے بهائیوں کو بهی ساته لے کر خون دے آئے یہاں کوئی بهی گروپ کا خون دواخانے والے لیتے ہیں اور مطلوبہ خون مریض کو دیتے ہیں تو جناب بیٹوں نے خون دے آئے اور میں نے خوب ناراضگی کا اظہار کیا مگر بچوں کے نیا خون آنے کی بات پر یقین نہیں کیا ..آج آپ نے وہی بات کہی تو اپنی غلطی کا احساس ہوا.
ReplyDeleteیہ تو سچ ہے کہ ماں ہمیشہ ماں ہی ہوتی ہے، میری امی بھی ایسا ہی ردعمل ظاہر کرتی ہیں، میں اور بھائی جب بھی کسی کو خون عطیہ کرتے ہیں تو بعد میں اُن کو بتا دیتے ہیں اگر پہلے بتا دیں تو بہت فکرمند ہوتی ہیں۔
Deleteاور حقیقت یہ کہ ابھی تک ماں کو بتایا ہی نہیں ،کہ ہم نے پھر کسی کو خون دیا ہے۔ورنہ تو وہ ضرور غصہ کرتی ہے۔
Deleteہم تو کل خون دئے آئے ،ایک کینسر کے مریض کو
ReplyDeleteبہت خوب، اللہ ہی آپ کو اس کا سلہ دے گا، کسی کی زندگی بچ سکتی ہے اور ہمارا کچھ خرچ نہیں ہوتا، جو ہوتا ہے اُس سے زیادہ تازہ اور بہتر خون بن جاتا ہے۔ یعنی ہم خرما ہم ثواب
Delete