خوبصورتی اور حسن سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں بہت سارا حسن پنہا رکھا ہوا ہے کچھ ظاہر ہے اور کچھ کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ باغبانی، پالتو جانور اور پرندوں کو گھروں،حجروں، ڈیروں اور فارمز وغیرہ میں رکھنے کا شوق بھی کوئی نیا نہیں ہے، جہاں انسان ہیں وہاں یہ شوق عام ہے یا تو ضرورت کی خاطر یا صرف شوق کے لئے۔ خوبصورت پرندے گھر کے آنگن میں ہوں تو اُن کے خوبصورت چمکدار رنگوں سے گھرمیں قوس وقزاح اُتر آتی ہے اور دیکھنے والے کادل اللہ تعالیٰ کا شکر اداکئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پاکستا ن میں ایسے کروڑوں افراد ہیں جو کہ خوبصورت پرندوں اور پالتو جانورگھر میں بہت پیار اور محبت سے پال رہے ہیں اور ان میں سے ایک ہیں جناب سید عباس رضا مشہدی صاحب ۔ ان کا تعلق صوفیوں کی سرزمین ملتان سے ہے ۔ مخدوم صاحب فینسی مرغیوں ، مرغابیوں ، بٹیر ، شترمرغ ، نایاب کبوتراور دیگر اقسام کے پرند چرند پالنے کا نہ صرف شوق رکھتے ہیں بلکہ باقاعدہ ان کی فارمنگ بھی کرتے ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی فینسی مرغیوں کے ساتھ ساتھ لیئر اور برائلراور بٹیر فارمنگ بھی کرتے ہیں ، اس لئے گاہے بگاہے مختلف نمائشوں اور مقابلوں میں اُن کی خدمات بطور جج اور ایکسپرٹ کی لی جاتی ہیں۔
وہ نجی دورے پر پشاور آئے ہوئے تھے توسوچا اُن کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کی جائے۔ اُنہوں نے گفتگو کاآغازملک میں پرندوں کا شوق رکھنے والے افراد کے اعداد وشمار سے کیا۔ اُن کے مطابق اس وقت ملک میں ایسے افراد کی تعداد ایک ہزار سے پندرہ سو کے درمیان ہے جو باقاعدہ فینسی مرغیوں کو تجارتی پیمانے پر پالتے ہیں جبکہ گھریلو سطح پر ایسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہیں جو کئی کئی نسلوں کی مرغیاں صرف شوق کی خاطر گھر میں پالتے ہیں۔ چونکہ یہ فینسی مرغیاں قیمتاً مہنگی ہوتی ہیں اور اُن کو مختلف نسلوں، فر، پَر، سائز؍جسامت ، خوبصورتی اور صحت کے معیار کے مطابق مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے اورزیادہ تر مرغیاں باہر ممالک سے برآمد کی جاتی ہیں، اس لئے ان تمام عوامل کو مدنظر رکھ کر ان کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے، اس لئے ان کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ہر ملک میں مختلف اقسام کی فینسی مرغیاں ہوتی ہیں اس لئے ان کو دوسرے ممالک سے درآمد کیاجاتا ہے۔ پاکستان بھر میں فینسی پرندوں کے برآمدکنندگان کی تعداد بیس سے پچیس ہے جو کہ مختلف اقسام کے پرندے درآمد کرتے ہیں۔ اس طرح اس کاروبار سے تقریباً ۳۰۰افراد وابستہ ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی ممالک سے فینسی مرغیاں لائی جاتی ہیں، ان کی حفاظت اور خوراک کا انتظام بہتر انداز میں کرتنا پڑتا ہے کیونکہ ان میں سے بہت ساری مرغیاں موسم کی شدت کو برداشت نہیں کرسکتی یا تو وہ سرد علاقوں کی ہوتی ہیں یا گرم کی ، جن کو اپنے علاقے کے موسم کے مطابق تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ان پرندوں کو وبائی امراض سے بچاو کا بھی ہے۔ سال کے دوران کئی ایک وبائی امراض آتے رہتے ہیں اگر ان سے بے خبر رہا جائے تو بڑے پیمانے پر نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی پرندے پالیں تو وٹرنری ڈاکٹر زسے ضرور رابطہ کیجئے جو گاہے بہ گاہے آپ کی رہنمائی کرتے رہیں گے اور وقت پر پرندوں کے لئے ویکسین اور دیگر ادویات دیتے رہے ہیں گے۔ دوسری ضروری بات پرندوں کی خوراک اور پانی دینے کا ہے۔ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ہمیشہ اپنے پرندوں کو صحت مند خوراک دیں خاص کر بریڈنگ (یعنی نسل کی پیداور ) کے موسم میں ۔ پاکستان اور انڈیا میں بھی کئی اقسام کی مرغیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے \"اصیل\" اور عام گھریلو مرغیاں زیادہ پالی جاتی ہیں جو کہ مختلف خوبصورت اور دلفریب رنگوں کا حسن لئے ہوتی ہیں۔ فینسی مرغیوں کی بہت ساری اقسام ہیں جن میں سے زیادہ تر پاکستان میں آسانی سے پالی جاسکتی ہیں ۔ کوچین اور پالش دو ایسی اقسام ہیں جو کہ سرد علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کو گرم علاقوں میں پالنا ذرہ مشکل ہوتا ہے باقی انگلش گیم، جاپانی نسل،سلورسبرائٹ، سلکی، منارکا، ریڈ آئی لینڈ، پلے ماوتھ راک، لائٹ سکسیس کو باآسانی پالا جاسکتا ہے۔ جبکہ انڈوں کی پیداوار کے لئے گولڈن لیئر اور گوشت کی پیداوار کے لئے برائلر مرغیاں عام دستیاب ہیں اور ان کی بڑے پیمانے پر فارمنگ کی جاتی ہے۔فینسی مرغیوں کی ہزاروں اقسام ہیں جن کو دو بڑے گروپس : ۱) ہیوی (بڑا سائز) اور ۲) بینٹم (چھوٹے سائز) جسامت کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں درمیانے سائز کی فینسی مرغیاں بھی دستیاب ہوتی ہیں مگر بین الااقوامی مارکیٹ میں درمیانے سائز کی فینسی مرغیوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ یہ یہاں کی پیداوار ہیں جو کہ کسی بھی سیٹ یا جوڑے میں ایک مرغ یا مرغی کے ضائع ہونے کی وجہ سے ہیوی یا بینٹم کے ساتھ میل سے پیدا کی ہوئی بریڈ ہے جو درمیانے قد کی نکلتی ہے۔ جو پرندے اپنی اصل نسل کے ہوتے ہیں اُن کو عام اصطلاح میں \"رنگ برڈز \" کہتے ہیں (اُن کی ٹانگوں یا جسم پر ٹیگ لگا ہوتا ہے اور اُس پر ایک خاص کوڈ لکھا ہوتا ہے جو اُن کی نسل اور ملک کے بارے معلومات ملتی ہیں۔)۔سائز کی تقسیم کے بعد ان کو پروں اور فروں (نرم رواں نما پر)کے لحاظ سے بھی مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فرزل اُلٹے پروں والے پرندے ہوتے ہیں، مولٹڈ وہ پرندے ہوتے ہیں جن کے پروں پر مختلف رنگوں کے دھبے (ڈاٹس ) ہوتے ہیں۔ پھر ان کو رنگوں کے حساب سے بھی رکھا جاتا ہے جیسے سلور، بلیک، بلیو، بف(گولڈن ) وغیرہ۔ لیسڈ پرندے وہ ہوتے ہیں جن کے پروں کے اردگرد مختلف رنگوں میں لائنز ہوتی ہیں۔ فیورس مرغیوں کی وہ نسل ہوتی ہے جن کی کلغی کے نیچے فر یا پر ہوتے ہیں جو داڑھی نما دکھتے ہیں ، ان کو فیورس یا نان فیورس کی کیٹگریز میں ڈالا جاتا ہے جبکہ وہ مرغیاں جن کی ٹانگوں اور پنجوں پر ، پَر یا فر ہوتے ہیں اُن کو فوٹنگ کے زمرہ میں ڈالا جاتا ہے۔
مخدوم صاحب نے فارمز حضرات کو یہ تجویز بھی دی کہ انڈوں اور گوشت کی پیداوار کے ساتھ ساتھ اگر ان فینسی مرغیوں کی بھی باقاعدہ فارمنگ کی جائے تو نہ صرف یہ اُن کے لئے بہت منافع بخش فارمنگ ہوگی بلکہ پاکستان جو نسلیں درآمد ہوتی ہیں کل کو وہی نسلیں ہم باقی ماندہ دنیا کو برآمد کریں گے۔ اسی طرح پاکستان میں بہت ساری جگہوں پر پرندوں کی نمائشوں کا اہتمام کیاجاتا ہے جو کہ ایک بہت عمدہ اور مثبت سرگرمی ہے جن سے نہ صرف عوام میں فینسی مرغیوں کو پالنے اور اُن کی نسلوں کو بڑھانے کے شوق کو تقویت ملتی ہے بلکہ پہلے سے اس شعبے سے منسلک لوگوں کو اپنے پرندے عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ چونکہ ایسی نمائشوں میں ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ شرکت کے لئے آتے ہیں اس لئے اُن کی خاص حوصلہ افزائی ہونی چاہئے مگر بدقسمتی سے جہاں ان نمائشوں کے انعقاد کے دوران غیر ضروری چیزوں پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے وہاں اگر ان غیر ضروری اخراجات کو روک کر ان کی جگہ نمائش میں شرکت کرنے والے پرندوں کے مالکان کی مالی معاونت کی جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ زرعی یونیورسٹیاں اور دیگر ادارے جب ایسی نمائشوں کا اہتمام کریں تو مقابلوں میں حصہ لینے والے شوقین افراد کے پرندوں کو کیش انعامات بھی اگر دیں تو بہت مناسب ہوگا کیونکہ ایسے مقابلوں میں پاکستان کے کونے کونے سے لوگ شرکت کے لئے آتے ہیں اور مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے پرندوں کو نقصان پہنچنے کا بہت اندیشہ ہوتا ہے اور کئی ایک نمائشوں میں تو یہ بھی ہوا ہے کہ ٹرانسپورٹیشن یا وہاں پر قیام کے دوران بہت سارے قیمتی پرندے ضائع ہوگئے ہیں۔
گفتگو کے دوران اُنہوں نے حکومت سے گلہ بھی کیا کہ جو لوگ معدوم ہوتے ہوئے خوبصورت اور نایاب پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کی نسلوں کو اپنے گھروں اور فارمز وغیرہ میں پال کر اُن کی نسل کو بڑھاتے ہیں اُن کے لئے تو بہت ساری رکاوٹیں لائسنس اور اجازت ناموں کی شکل میں پیدا کردی جاتی ہیں مگر جو لوگ بے دریغ ان قیمتی پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتے ہیں تو پہلے تو اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور اگر کسی کے خلاف کوئی اقدام اُٹھا بھی لیا جائے تو معاملہ بس چند تادیبی کارروائیوں اور معمولی سے جرمانے کے بعد رفع دفع کردیا جاتا ہے ۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ حکومت ایسے کسانوں، فارمرز اور شوقیہ پرندے رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے جو نجی فارمز، گھروں اور دیگر جگہوں پر نہ صرف خوبصورتی کے لئے بلکہ کاروبار کے لئے ان قیمتی پرندوں اور جانوروں کو پالتے ہیں اور اُن کی نسل کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی گزارش کی کہ اگر حکومت عوامی سطح پر قیمتی پرندوں اور جانوروں کی تحفظ اور بقاء کے لئے مناسب طریقوں سے آگاہی مہم چلائیں تو کوئی شک نہیں کہ ہم اُن جانوروں اور پرندوں کی حفاظت اچھے طریقے سے کرسکیں گے جن کی نسلیں اس دنیا سے ختم ہوتی جارہی ہیں کیونکہ یہ خوبصورتی ہمارے آنے والے نسلوں کی امانت ہے جن کی ہم نے حفاظت کرنی ہے۔
وہ نجی دورے پر پشاور آئے ہوئے تھے توسوچا اُن کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کی جائے۔ اُنہوں نے گفتگو کاآغازملک میں پرندوں کا شوق رکھنے والے افراد کے اعداد وشمار سے کیا۔ اُن کے مطابق اس وقت ملک میں ایسے افراد کی تعداد ایک ہزار سے پندرہ سو کے درمیان ہے جو باقاعدہ فینسی مرغیوں کو تجارتی پیمانے پر پالتے ہیں جبکہ گھریلو سطح پر ایسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہیں جو کئی کئی نسلوں کی مرغیاں صرف شوق کی خاطر گھر میں پالتے ہیں۔ چونکہ یہ فینسی مرغیاں قیمتاً مہنگی ہوتی ہیں اور اُن کو مختلف نسلوں، فر، پَر، سائز؍جسامت ، خوبصورتی اور صحت کے معیار کے مطابق مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے اورزیادہ تر مرغیاں باہر ممالک سے برآمد کی جاتی ہیں، اس لئے ان تمام عوامل کو مدنظر رکھ کر ان کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے، اس لئے ان کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ہر ملک میں مختلف اقسام کی فینسی مرغیاں ہوتی ہیں اس لئے ان کو دوسرے ممالک سے درآمد کیاجاتا ہے۔ پاکستان بھر میں فینسی پرندوں کے برآمدکنندگان کی تعداد بیس سے پچیس ہے جو کہ مختلف اقسام کے پرندے درآمد کرتے ہیں۔ اس طرح اس کاروبار سے تقریباً ۳۰۰افراد وابستہ ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی ممالک سے فینسی مرغیاں لائی جاتی ہیں، ان کی حفاظت اور خوراک کا انتظام بہتر انداز میں کرتنا پڑتا ہے کیونکہ ان میں سے بہت ساری مرغیاں موسم کی شدت کو برداشت نہیں کرسکتی یا تو وہ سرد علاقوں کی ہوتی ہیں یا گرم کی ، جن کو اپنے علاقے کے موسم کے مطابق تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ان پرندوں کو وبائی امراض سے بچاو کا بھی ہے۔ سال کے دوران کئی ایک وبائی امراض آتے رہتے ہیں اگر ان سے بے خبر رہا جائے تو بڑے پیمانے پر نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی پرندے پالیں تو وٹرنری ڈاکٹر زسے ضرور رابطہ کیجئے جو گاہے بہ گاہے آپ کی رہنمائی کرتے رہیں گے اور وقت پر پرندوں کے لئے ویکسین اور دیگر ادویات دیتے رہے ہیں گے۔ دوسری ضروری بات پرندوں کی خوراک اور پانی دینے کا ہے۔ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ہمیشہ اپنے پرندوں کو صحت مند خوراک دیں خاص کر بریڈنگ (یعنی نسل کی پیداور ) کے موسم میں ۔ پاکستان اور انڈیا میں بھی کئی اقسام کی مرغیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے \"اصیل\" اور عام گھریلو مرغیاں زیادہ پالی جاتی ہیں جو کہ مختلف خوبصورت اور دلفریب رنگوں کا حسن لئے ہوتی ہیں۔ فینسی مرغیوں کی بہت ساری اقسام ہیں جن میں سے زیادہ تر پاکستان میں آسانی سے پالی جاسکتی ہیں ۔ کوچین اور پالش دو ایسی اقسام ہیں جو کہ سرد علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کو گرم علاقوں میں پالنا ذرہ مشکل ہوتا ہے باقی انگلش گیم، جاپانی نسل،سلورسبرائٹ، سلکی، منارکا، ریڈ آئی لینڈ، پلے ماوتھ راک، لائٹ سکسیس کو باآسانی پالا جاسکتا ہے۔ جبکہ انڈوں کی پیداوار کے لئے گولڈن لیئر اور گوشت کی پیداوار کے لئے برائلر مرغیاں عام دستیاب ہیں اور ان کی بڑے پیمانے پر فارمنگ کی جاتی ہے۔فینسی مرغیوں کی ہزاروں اقسام ہیں جن کو دو بڑے گروپس : ۱) ہیوی (بڑا سائز) اور ۲) بینٹم (چھوٹے سائز) جسامت کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں درمیانے سائز کی فینسی مرغیاں بھی دستیاب ہوتی ہیں مگر بین الااقوامی مارکیٹ میں درمیانے سائز کی فینسی مرغیوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ یہ یہاں کی پیداوار ہیں جو کہ کسی بھی سیٹ یا جوڑے میں ایک مرغ یا مرغی کے ضائع ہونے کی وجہ سے ہیوی یا بینٹم کے ساتھ میل سے پیدا کی ہوئی بریڈ ہے جو درمیانے قد کی نکلتی ہے۔ جو پرندے اپنی اصل نسل کے ہوتے ہیں اُن کو عام اصطلاح میں \"رنگ برڈز \" کہتے ہیں (اُن کی ٹانگوں یا جسم پر ٹیگ لگا ہوتا ہے اور اُس پر ایک خاص کوڈ لکھا ہوتا ہے جو اُن کی نسل اور ملک کے بارے معلومات ملتی ہیں۔)۔سائز کی تقسیم کے بعد ان کو پروں اور فروں (نرم رواں نما پر)کے لحاظ سے بھی مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فرزل اُلٹے پروں والے پرندے ہوتے ہیں، مولٹڈ وہ پرندے ہوتے ہیں جن کے پروں پر مختلف رنگوں کے دھبے (ڈاٹس ) ہوتے ہیں۔ پھر ان کو رنگوں کے حساب سے بھی رکھا جاتا ہے جیسے سلور، بلیک، بلیو، بف(گولڈن ) وغیرہ۔ لیسڈ پرندے وہ ہوتے ہیں جن کے پروں کے اردگرد مختلف رنگوں میں لائنز ہوتی ہیں۔ فیورس مرغیوں کی وہ نسل ہوتی ہے جن کی کلغی کے نیچے فر یا پر ہوتے ہیں جو داڑھی نما دکھتے ہیں ، ان کو فیورس یا نان فیورس کی کیٹگریز میں ڈالا جاتا ہے جبکہ وہ مرغیاں جن کی ٹانگوں اور پنجوں پر ، پَر یا فر ہوتے ہیں اُن کو فوٹنگ کے زمرہ میں ڈالا جاتا ہے۔
مخدوم صاحب نے فارمز حضرات کو یہ تجویز بھی دی کہ انڈوں اور گوشت کی پیداوار کے ساتھ ساتھ اگر ان فینسی مرغیوں کی بھی باقاعدہ فارمنگ کی جائے تو نہ صرف یہ اُن کے لئے بہت منافع بخش فارمنگ ہوگی بلکہ پاکستان جو نسلیں درآمد ہوتی ہیں کل کو وہی نسلیں ہم باقی ماندہ دنیا کو برآمد کریں گے۔ اسی طرح پاکستان میں بہت ساری جگہوں پر پرندوں کی نمائشوں کا اہتمام کیاجاتا ہے جو کہ ایک بہت عمدہ اور مثبت سرگرمی ہے جن سے نہ صرف عوام میں فینسی مرغیوں کو پالنے اور اُن کی نسلوں کو بڑھانے کے شوق کو تقویت ملتی ہے بلکہ پہلے سے اس شعبے سے منسلک لوگوں کو اپنے پرندے عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ چونکہ ایسی نمائشوں میں ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ شرکت کے لئے آتے ہیں اس لئے اُن کی خاص حوصلہ افزائی ہونی چاہئے مگر بدقسمتی سے جہاں ان نمائشوں کے انعقاد کے دوران غیر ضروری چیزوں پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے وہاں اگر ان غیر ضروری اخراجات کو روک کر ان کی جگہ نمائش میں شرکت کرنے والے پرندوں کے مالکان کی مالی معاونت کی جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ زرعی یونیورسٹیاں اور دیگر ادارے جب ایسی نمائشوں کا اہتمام کریں تو مقابلوں میں حصہ لینے والے شوقین افراد کے پرندوں کو کیش انعامات بھی اگر دیں تو بہت مناسب ہوگا کیونکہ ایسے مقابلوں میں پاکستان کے کونے کونے سے لوگ شرکت کے لئے آتے ہیں اور مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے پرندوں کو نقصان پہنچنے کا بہت اندیشہ ہوتا ہے اور کئی ایک نمائشوں میں تو یہ بھی ہوا ہے کہ ٹرانسپورٹیشن یا وہاں پر قیام کے دوران بہت سارے قیمتی پرندے ضائع ہوگئے ہیں۔
گفتگو کے دوران اُنہوں نے حکومت سے گلہ بھی کیا کہ جو لوگ معدوم ہوتے ہوئے خوبصورت اور نایاب پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کی نسلوں کو اپنے گھروں اور فارمز وغیرہ میں پال کر اُن کی نسل کو بڑھاتے ہیں اُن کے لئے تو بہت ساری رکاوٹیں لائسنس اور اجازت ناموں کی شکل میں پیدا کردی جاتی ہیں مگر جو لوگ بے دریغ ان قیمتی پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتے ہیں تو پہلے تو اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور اگر کسی کے خلاف کوئی اقدام اُٹھا بھی لیا جائے تو معاملہ بس چند تادیبی کارروائیوں اور معمولی سے جرمانے کے بعد رفع دفع کردیا جاتا ہے ۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ حکومت ایسے کسانوں، فارمرز اور شوقیہ پرندے رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے جو نجی فارمز، گھروں اور دیگر جگہوں پر نہ صرف خوبصورتی کے لئے بلکہ کاروبار کے لئے ان قیمتی پرندوں اور جانوروں کو پالتے ہیں اور اُن کی نسل کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی گزارش کی کہ اگر حکومت عوامی سطح پر قیمتی پرندوں اور جانوروں کی تحفظ اور بقاء کے لئے مناسب طریقوں سے آگاہی مہم چلائیں تو کوئی شک نہیں کہ ہم اُن جانوروں اور پرندوں کی حفاظت اچھے طریقے سے کرسکیں گے جن کی نسلیں اس دنیا سے ختم ہوتی جارہی ہیں کیونکہ یہ خوبصورتی ہمارے آنے والے نسلوں کی امانت ہے جن کی ہم نے حفاظت کرنی ہے۔
Photos : from Google search
اچھا موضوع اور بہت معلوماتی تحریر
ReplyDeleteبہت ہی معلوماتی مضمون ہے، بہت خوب نعیم خان
ReplyDeleteبہت ہی معلوماتی مضمون ہے، بہت خوب نعیم خان
ReplyDeleteآپ کے دوست مخدوم صاحب تو فینسی برڈ کے موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا تھے مگر آپ نے بھی جزئیات لکھنے لکھنے کیلئے جتنی عرق ریزی کی ہے اس کیلئے شکریہ قبول فرمائیں۔
ReplyDeleteپاکستان میں برے حکمرانوں کی گندی پالیسیوں نے آج کے دن تک عوام کو روٹی روزی کے چکر سے باہر نہیں نکلنے دیا جبکہ ایسی اضافی چیزیں تو بعد کی باتیں ہیں۔ شکریہ
بہت عمدہ جی
ReplyDeleteملتان کا بندہ ہے اور ہمیں پتہ نہیں
فینسی برڈز کے بارے میں تو میں نہیں جانتا مگر آسٹریلین طوطوں اور فینسی چڑیوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے دنیا بھر میں۔آپ دو جوڑوں سے اپنے کام کا آغاز کرسکتے ہیں اور ایک سے ڈیڑھ سال میں ماہانہ معقول آمدنی کا سلسلہ بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
ReplyDeleteشکریہ برادرم۔ آپ کی حوصلہ افزائی اور بہتر کام کرنے کی تقویت عطاء کرتی ہے۔ آپ کے مشورے اور تجاویز پر عمل پیرا ہونگا انشاء اللہ۔
ReplyDeleteبہت اچھے نعیم صاحب
ReplyDelete