Thursday 27 February 2014

February 27, 2014
دانشمندی، باہمی احترام، صبروسکون، مستقل مزاجی اور پرامن طریقوں کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے سے عموماً کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اب جبکہ حکومت نے "طالبان" کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کردیا ہے، تو ان اور ان جیسے خواص صالحہ کے ساتھ اُس وقت تک یہ عمل جاری رکھنا چاہئے، جب تک پر امن طریقوں سے تمام متعلقہ مسائل حل نہیں ہوتے۔ بے شمار معزز خواتین وحضرات  میرے ساتھ متفق ہوں گے کہ پاکستان کی مشکلات میں صرف اور صرف مذہبی طلبہ سرگرم عمل نہیں۔ ممکن ہے کہ اُن کی ایک تعداد ان حالات میں ملوث ہوں لیکن مختلف پاکستانی اور غیر پاکستانی عناصر بھی ان وارداتوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اگر صبر کے ساتھ موجودہ مذاکرات کو جاری رکھا جائے، تو ان سے تیسری قوتوں کا وجود سامنے آجائے گا جو یہ عناصر کبھی نہیں چاہیں گے اور اُن مذاکرات کو ناکام بنانے کے سب طریقے استعمال کریں گے۔ خصوصاً منفی طور طریقوں کا استعمال۔
یہ درست ہے کہ حکومت اور جواب میں طالبان نے ایسے افراد کو بات چیت کے لئے منتخب کیا ہے جو غیر جانبدار ہیں، وہ حکومت کے ارکان ہیں اور نہ طالبان تحریک کے۔ معلوم نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے کیوں ان مذاکرات سے پہلو تہی کی۔ حالانکہ مذاکرات شروع ہونے سے قبل وہ کافی سرگرم تھے بلکہ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وہ ان مذاکرات کی سربراہی خود کرنا چاہتے ہیں۔ اب اُن کی پر اسرار عدم شمولیت سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ وہ تیسری قوت کے وزن کو محسوس کرچے ہیں یا اُس تیسری طاقت نے اُن کو اور عمران خان کو ایک طرف کیا ہو۔ تیسری طاقت کو شناخت کرنا مشکل کام ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں خود غرضی، کرپشن اور قوانین سے انحراف، طاقت رکھنے والے طبقوں اور افراد میں کافی زیادہ ہوگیا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو مغرب اور مشرق کی طرف سے آنے والی سمگلنگ اور اچھے برے افراد کے لئے مکمل طور پر کھلا ہے۔ مارکیٹ سرکاری افراد سے مل کر وطن عزیز کے کونے کونے میں اسلحے اور بارود کے ذخائر جمع کرچکاہے۔ بیرون ممالک سے جن حلقوں نے یہ اسلحہ وبارود سپلائی کیا ہے، اُںہوں نے ایک لمبے عرصے تک بہت ہی محتاط اور ماہرانہ منصوبہ بندی کی ہوگی۔ اپنی روائتی نالائقی اور بددیانتی سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کا ارب ہا زرمبادلہ ہونڈی جیسے طریقہ کار کے حوالہ کرکے نہ صرف وطن عزیز کو اس سے محروم کیا لیکن غلط کاموں کے لئے سرمایہ بھی فراہم کیا۔ عزت نفس کی فراہمی میں ناکامیاں اسی طرح رہیں تو دہشت گردی کی یہ لہر نامعلوم زمانوں تک جاری رہے گی۔ اگر اسلام آباد اسی طرح ملکی سرحدات کو بیرونی افراد کے لئے کھلا رکھتا ہے، اسی طرح غیر ملکی افراد کو دو روپے کے عوض پاکستانی شناختی کارڈ بلکہ پاسپورٹ تک مہیا کرتا ہے، اسی طرح بیرونی اشیاء کی سمگلنگ کو جاری رکھتا ہے، اسی طرح عوام کی تربیت سے چشم پوشی کرتا ہے، اسی طرح عوام کا اپنے اداروں اور مارکیٹ کے ذریعے استحصال کرتا ہے تو نہوطن عزیز میں گولہ بارود اور اسلحے کی کمی آئے گی اور نہ ان کو استعمال کرنے والے کم ہونگے۔
اس معاملے کو سرسری نہ لیا جائے۔ وطن عزیز کی اشرافیہ اوردانشمند طبقہ حکمرانوں کو مجبور کرے کہ وہ جاری حالات میں بنیادی تبدیلی پیدا کرے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں کی تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتے ہی اپنے افراد انتظامیہ شامل کرتی رہی ہیں۔ رشوت سفارش سے ملازم ہونے والے صرف اپنے مفادات کے غلام ہوتےہیں۔ اُن میں اخلاص اور قابلیت اور وطن محبت نہیں ہوتی ۔ اگر کسی جگہ ایک معمولی کلرک یا کانسٹیبل قابل خرید ہوتو وہاں بڑے سے بڑے آفیسر کی کاوشیں رائیگاں جاتی ہیں۔
پورے ملک میں مسلم لیگ کی اور ہمارے صوبے میں تحریک انصاف کی حکومتوں سے عام آدمی کو تاحال کوئی سہولت نہیں پہنچی۔ میڈیا تاحال آزادی کی آڑ میں نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کررہا ہے۔ سرکاری افراد کا رویہ تاحال زمینی حقائق کا روادارنہیں۔ حکومت طالبان مذاکرات پر بڑے ذمہ دار افراد بہت ہی غیر ذمہ دار بیانات اور خیالات پھیلا رہے ہیں۔ عوام کو ایک اور صرف ایک گرہ یعنی طالبان سامنے لائے جا رہے ہیں۔ قوم کو ذہنی اور اعصابی طور پر اس حقیقت کے لئے تیار ہی نہیں کیا جاتا کہ دہشت گردی کے واقعات میں غیر طالبان افراد عناصر شامل ہوسکتے ہیں۔ حقائق سے چشم پوشی اور عوام کو بے خبر رکھنا شدید ترین نقصان پر منج ہوسکتا ہے۔ جو خواتین وحضرات سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ صرف یہ سوچیں کہ سخت کاررائی، کہاں اور کس کے خلاف ہوگی؟  یہ گرم جنگ نہیں کہ آپ کا دشمن فوج پر اپنی فوج سے حملہ کروائیں بلکہ یہ بہت ذہین طریقہ کار کے تحت ایک گوریلا قسم کی جنگ ہے جو جذباتیت اور گرم جوشی ، تدبر اور غیر فوجی اقدام سے جیتی جاسکتی ہے۔ ہمار یہاں سب سے بڑی ضرورت سرکاری، کاروباری، ابلاغ عامہ اور مذہبی اداروں کی کارکردگیوں میں بہتری لانے کی ہے۔ مذاکرات مستقل مزاجی، سکون اور تدبر کے ساتھ جاری رہنے چاہئیں جو لوگ گولی کی بات نہیں کرتے، اُنہی کو بندوق دے کر یہ کام سونپا جائے تاکہ وہ بیان بازی کی جگہ کچھ قربانی بھی دیں۔ جو لوگ یا جماعتیں شدید فوجی کارروائی کی باتیں کرتی ہیں، وہ ملک وقوم اور افواج کو ایک خونی دلدل میں دانستہ یا غیر دانستہ طورپر پھنسانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان میں س اکثر حلقوں /جماعتوں کا گزشتہ ٹریک ریکارڈ ایسا ہے جس سے نہ صرف وطن عزیز کو دوسرے نقصانات پہنچے بلکہ ایک شرم ناک طریقے سے وطن عزیز دولخت بھی ہوا۔
صبر، سکون، مستقل مزاجی اور اخلاص کے ساتھ مذاکراتجاری رکھے جائیں۔ حملے ہوتے رہیں گے۔ نقصانات پہنچائے جات رہیں گے تاکہ تیسری چوتھی قوتیں پوشیدہ رہیں۔ ریاست کو بہت زیادہ بردباری اور دانشمندی سے غصے اور طیش میں آئے بغیر یہ اعصاب شکن جنگ لڑنی چاہئے۔ رحمن ملک اور چوہدری نثار علی خان میں فرق ہونا چاہئے۔
یہ مضمون 20فروری 2014 کو شائع ہوچکا ہے

0 comments:

Post a Comment