Monday, 24 February 2014

February 24, 2014
7
اکثر دوست احباب بلاگرز کو صحافی/جرنلسٹ سمجھتے ہیں اور اُن کے مطالبات و مسائل ، کسی کا انٹرویو، اُن کے ذاتی مسئلے یا تقاریب وغیرہ کی تصاویر اور رپورٹ وغیرہ اخبارورسائل میں شائع کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن اُن کےلئے جواب یہی ہوتا ہے کہ جناب "میں ایک بلاگر ہوں"۔ بلاگر جو اپنے تجربات، نظریات، احساسات و جذبات کو فی البدیہہ، اشاعتی اداروں کی قیود و حدود سے آزاد ہوکر اخلاقی دائرہ اختیار کے اندرلکھ کرانٹرنیٹ پر شائع کرتا ہے، اس لحاظ سے بلاگنگ صحافت کے وسیع مضمون کا ایک حصہ ہے۔ بلاگر اپنے چاروں طرف، معاشرے میں پھیلی ہوئی بدامنی، بدانتظامی، خودغرضی، نفسانفسی ِجہالت و غربت دیکھ کر اُس پر قلم اُٹھاتا ہے اور اپنے اندر کے احساسات دوسروں سے شیئر کرتا ہے۔ بلاگ آپ کی اپنی ذاتی ڈیجیٹل ڈائری ہے، جس میں آپ اپنے احساسات وڈیو، آڈیو، تصاویر یا تحریر کی شکل میں اپنی زبان میں دنیا کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں۔ اپنے علاقے، اپنے اردگرد کے مسئلے مسائل بغیر کسی پر منحصر ہوئے آپ خود دنیا کے سامنے لاسکتے ہیں۔  
بلاگنگ اس وقت دنیا میں اپنا پیغام پہنچانے کا سب سے بہتر اور مقبول و تیزترین ذریعہ ہے۔  بلاگنگ آپ اپنی تفصیلی ڈائری لکھ کر بھی کرسکتے ہیں اور مائیکرو بلاگنگ (سمارٹ فون، ایس ایم ایس، فیس بک اور ٹویٹڑ کے پیغامات کی شکل میں بھی) کرسکتے ہیں۔ بلاگنگ  کی اہمیت کا اندازہ عرب دنیا کے انقلاب اور پاکستان میں گزشتہ سال منعقدہ انتخابات کے دوران مہمات اور نتائج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہمارے زیادہ تر جامعات میں جہاں صحافت کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے فی الحال اس تیزی سے ترقی کرتے ہوئے زرائے ابلاغ کے اس شعبے کو اتنی اہمیت نہیں دی جارہی۔ کئی ایک یونیورسٹی کے جرنلزم کے طلباء بلاگنگ اور بلاگرز کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور نہ ہی اُن کے کام کو وقعت، لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں بلاگرز اپنی پوسٹوں سے انقلاب برپا کررہے ہیں وہاں جرنلزم کے شعبے سے منسلک افراد و طلباء کے رویہ میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ بلاگر ایک آزاد منشاء بندہ  ہے جس کے جی میں جو آتا ہے وہ لکھ لیتا ہے، کسی بھی ادارے کی پابندیوں سے آزاد لیکن اخلاقی حدود کے اندر۔ اَب تو پاکستان میں بھی کئی مئوقر روزناموں نے بلاگرز کی تحریر کی دم کو مان لیا ہے اور اُنہوں نے باقاعدہ اپنے ایڈیشنز میں بلاگرز کے لئے جگہ دے دی ہے۔ یہ پاکستان میں بلاگرزاور بلاگنگ کی ترقی کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس ضمن میں روزنامہ "دنیا" نے قدم اُٹھا کر فی الوقت تمام اخبارات میں یہ برتری حاصل کی اور پاکستان کے اُردو بلاگرز کی بہترین تحاریر کو اپنے روزنامہ میں جگہ دی، اسی طرح روزنامہ "ایکسپریس نیوز" نے بھی بلاگرز کو دعوت دی اُن کے پلیٹ فارم پر لکھنے کی جبکہ ہر اخبار کے انٹرنیٹ ایڈیشن اور ویب سائٹ پر اُردو میں لکھنے کے لئے بلاگرز کو جگہ دی جارہی ہے۔ اسی طرح سے کئی ایک علاقائی اخبارات بھی تسلسل سے پاکستان کے اُردو بلاگرز کی معیاری تحاریر کو شائع کررہے ہیں۔  
کچھ عرصہ پہلے ہم لوگوں نے پروگرام بنایا کہ پشاور یونیورسٹی اور آس پاس کی دیگر یونیورسٹیوں میں جاکر وہاں کے طلباء کو اپنی مادری اور قومی زبان میں بلاگنگ کرنے کی طرف راغب کریں، اس سلسلے میں ہم لوگوں ( مسرت اللہ بلاگر اور جرنلسٹ دنیا نیوز، مدثر شاہ جرنلسٹ اورمیں) جرنلزم ڈپارٹمنٹ  اور پشتو اکیڈمی (پشتو ڈپارٹمنٹ) پشاور یونیورسٹی گئے، وہاں کے طلباء سےغیر رسمی طویل ملاقات اور بلاگنگ کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ اس محفل میں جرنلزم ڈپارٹمنٹ کے پرویس اور فائنل کے طلباء شریک تھے مگر اُن میں سے ایک طالبعلم کے علاوہ باقی کسی کو بھی بلاگنگ کے بارے میں علم نہیں تھا۔ اُن کو جناب مدثر شاہ اور مسرت اللہ بھائی نے اُردو بلاگنگ کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا اور تیکنیکی باتیں بھی سمجھائیں مگر اُن کی طرف سے اب تک کوئی مثبت ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ جب تک پاکستان کی جامعات میں جرنلزم کے ڈپارٹمنٹس باقاعدہ طور پر بلاگنگ کو اہمیت نہیں دیں گے تب تک ذرائعے ابلاغ کے اس انقلابی شعبے سے آنے والے صحافی بہتر انداز میں فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔
 

اُردوبلاگنگ اور بلاگرز کی ارتقاء، پاکستان میں اُردو بلاگرز اور دیگر اہم موضوعات پر  سینئراُردو بلاگراور"پاک اُردو انسٹالر" کے خالق ہمارے دوست جناب ایم بلال ایم صاحب نے ایک بہترین تحریر ضبط قلم کی ہے جس کا لنک یہاں میں آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔ اُنہوں نے اپنی تحریری میں عرق ریزی سے کام لیتے بلاگنگ اور اُردو بلاگنگ سے متعلقہ موضوعات کا ایک نہایت بہتر انداز میں احاطہ کیا ہے، جو عام قاری کے ساتھ ساتھ صحافت کے شعبہ سے وابستہ افراد اور جرنلزم کے طلباء و طالبات کے لئے بہت معلومات افزاء ہے۔ 


7 comments:

  1. آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ میں بھی ایک بلاگر ہوں :)

    ReplyDelete
  2. بہت اعلیٰ تحریر اور آپ کی کوششوں پر خراجِ تحسین

    ReplyDelete
  3. آپ نے پشاور کی بات کی ہے ۔ مجھے اسلام آباد میں کوئی پوچھے کہ دن میں کیا کرتے رہتے ہو تو میں کہتا ہوں کہ پڑھتا اور لکھتا رہتا ہوں ۔ پوچھتے ہیں کس اخبار میں ۔ میں بتاتا ہوں اپنے بلاگ پر ۔ سوال آتا ہے وہ کیا ہوتا ہے ۔ جب بتاتا ہوں تو گُم سُم ہو جاتے ہیں ۔
    آپ کو چاہیئے تھا کہ جامعہ میں تعلیم صحافت کے سربراہ سے مل کر اُنہیں یہ مشورہ دیتے کہ بلاگنگ کو صحافت کے نصاب میں شامل کیا جائے ۔ چاہے بطور اختیاری مضمون ہی ہو ۔

    ReplyDelete
  4. محترم فکر نہ کریں۔ کیونکہ جس طرح اردو بلاگرز اور دیگر ساتھی محنت کر رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب ہر کوئی اس جدید ہتھیار کے بارے میں جانتا ہو گا اور اس کے مثبت پہلوؤں سے فائدہ اٹھا کر معاشرے میں بہتر تبدیلی کا سبب بنے گا۔ ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔

    ReplyDelete
  5. آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی مجھے نئی توانائیاں بخشتی ہے۔

    ReplyDelete
  6. بالکل یہی بات ہے کہ "بلاااااااااگ" ؟ اور ان سب الف کے درمیان منہ کھلا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔اچھی پوسٹ لکھی اور خوب کاوش کی

    ReplyDelete