Monday 18 November 2013

November 18, 2013
7
فیس بک پر مختلف شہروں میں بلاگرز کی ملاقاتوں کی تصاویر اور احوال پڑھ کر بہت دل کرتا ہے کہ یہاں بھی میل ملاقات کا سلسلہ چل پڑے مگر کس کے ساتھ؟ پشاور میں تو پہلے سے ہی قحط البلاگرز رہا ہے جس کی وجہ سے ملنے بیٹھنے اور آپس میں اپنا دکھ درد بانٹنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ شاید یہی دکھ سکندرحیات بابا نے محسوس کیا اور اپنی مصروفیات میں سے ہمارے لئے وقت نکالا۔ پہلی دفعہ جب سکندربابا نے فیس بک پر پوسٹ کی تھی کہ وہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ٹور پر ہیں تو اُن سے رابطہ کرنے میں مجھ سے دیر ہوگئی اور اُس وقت اُن سے فون پر بات ہوئی جب وہ واپس جار ہے تھے۔ کچھ دن پہلے پھر فیس بک پر اُن کی پوسٹ دیکھی کے ہمارے صوبے آئے ہوئے ہیں تو میں سمجھا شاید یہ پرانی والی پوسٹ ہے مگر پھر منصور مکرم بھائی نے اعلان کیا کہ سکندر بابا دوبارہ یہاں آئے ہوئے ہیں اور ہفتہ ۱۶نومبر کا دن تجویز کیاملاقات کے لئے۔ چونکہ محرم کی چھٹیوں کی وجہ سے ہم لوگ گھروں کو گئے ہوئے تھے اس وجہ سے ہفتے کو تو نہیں البتہ دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اتوار کا دن مقرر کیا۔ پشاور میں ملنے کے لئے بہت ساری جگہیں ہیں مگر محرم اور سیکیورٹی کے مخدوش حالات کی وجہ سے ہم نے باہر کہیں ملنے سے گریز کیا۔ ویسے علمی اور ادبی بحث مباحثوں کے لئے ہمارے پاس پاک ٹی ہاوس لاہور کی جیسی جگہ تو نہیں مگر، پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج، قصہ خوانی بازار کے تاریخی قہوہ خانے موجود ہیں مگر یہ جو شورش کی لہر ملک بھر میں اُٹھی ہے اس کے مدنظر ان جگہوں کو نظر انداز کردیا مگر دل میں خلش رہ گئی لیکن اُمید ہے کہ بہت جلد دوبارہ کسی تاریخی مقام پر ملاقات ہوسکے گی۔
دوبجے دوپہر اتوار کے دن ۱۶نومبر کو ملنے کا پروگرام فائنل ہوگیا۔ میں صبح سویرے سوات سے چل پڑاجبکہ سکندر حیات باباصوابی سے روانہ ہوئے اور پھر ہمارے محترم منصور مکرم صاحب بھی پہنچ گئے۔ سکندر بھائی کے ساتھ تو فیس بک اور گوگل ہینگ آوٹ پر علیک سلیک تھی مگر ایک شہر میں رہتے ہوئے منصور بھائی سے ملاقات کبھی نہ ہوسکی۔ اس سے پہلے وہ اپنے قلمی نام \"درویش خراسانی \" سے پردے کے پیچے قلمکاری کرتے رہے ہیں اور اب اُنہوں نے ملنے کا عندیہ دے کر دل خوش کردیا تھا۔ہماری یہ جو قلمی دوستی ہے یہ ہمارے درمیان ہر قسم کے فاصلوں کو مٹا دیتی ہے، جب بھی کسی بلاگرسے پہلی دفعہ ملنا ہوتا ہے تو بالکل بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی اور اپنے پن کا احساس حاوی ہی رہتا ہے اور یہی اپنایت کا احساس ہمیں ایک دوسرے کے اور بھی قریب لے آتی ہے۔ سکندر حیات بابا اور منصور مکرم بھائی سے یہ پہلی ملاقات تھی مگر بالکل بھی محسوس نہیں ہورہا تھا کہ ہم پہلی دفعہ مل رہے ہیں۔ ہماری اس بیٹھک میں سب سے اہم دوست ہمارے مسرت اللہ بھائی ہیں، اُنہوں نے اپنی بیماری کی اطلاع دی اور وقت پر پہنچنے سے معذرت کی اور کہا کہ جیسے ہی ڈاکٹر سے فارغ ہوتا ہوں سیدھا شرکت کرنے آجاوں گا، مگر مجھے مناسب نہ لگا اوربیماری کی حالت میں آنے سے منع کردیا ۔ مدثر بھائی نے بیٹھک میں حسب معمول اپنے وعدے کے مطابق شرکت کی اور مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ اُنہوں نے اپنے دوستوں کو بھی ہماری محفل میں شرکت کرنے کے لئے بلایا۔ اُن کے ساتھ چارسدہ کے دو دوست جناب داود درانی صاحب اور سراج علی بھائی آئے اور باڑہ کے علاقہ سے سلیم الرحمن صاحب نے شرکت کی۔ یہ صاحبان پیشے کے لحاظ سے صحافت کے شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ساتھ ہی ہمارے دوست عاشق نبی بھی موجود تھے جو کہ ویب ڈویلپر ہیں اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں مگر ابھی تک شروعات نہیں کی، شاید یہ میری کوتاہی ہے کہ ان کو ترغیب نہ دے سکا۔تعارف کے بعد بحث مباحثہ شروع ہوا اور مدثر بھائی نے معاشرے میں موجود دوغلے پن اور معاشرتی برائیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے ایک پراجیکٹ کا حوالہ بہت دلچسپ انداز سے دیا ۔پھر منصوربھائی کے کام کے ساتھ ساتھ سکندربھائی کے افسانچوں اور شاعری پر بھی باتیں ہوئی، پشتو بلاگنگ کا بھی ذکر ہوا. محرم کے دوران راولپنڈی میں رونما ہونے والے دلسوز واقعات اور دوست بلاگر خرم ابن شبیر کے بلاگ پوسٹ پر بھی بات ہوئی اور لوگوں کے تبصرے بھی زیر بحث رہے۔ ہمارے نئے مہمانوں نے بلاگنگ میں دلچسپی ظاہر کی، سکند ربھائی، منصور بھائی نے اُن کو بلاگنگ کے بارے میں بریفنگ دی ۔ بہت ساری اور بھی باتیں زیر بحث آئیں اور خوب گپ شپ کا ماحول رہا۔ کچھ تصویریں تو بنائیں ہیں مگر خاص نہیں جو کہ یہاں پیش خدمت ہے۔ عصر کے بعد مدثر بھائی کو کسی کام سے جانا تھا اور اُن کے مہمانوں نے واپس چارسدہ ، اس لئے اُنہوں نے رخصت لی ۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو یاد آیا کہ گروپ فوٹو تو لی ہی نہیں سکندر بھائی نے یہ بات کہی تو وہ لوگ جاچکے تھے ۔ منصور بھائی رات گئے تک ہمارے ساتھ رہے اور رات کے کھانے کی میزبانی اُنہوں نے کی اور ایک نئے ہوٹل میں مزے کا ڈنر کرایا۔ آج صبح جب سکندر بھائی رخصت ہورہے تھے تو عجیب سا محسوس کررہا تھا، یوں لگ رہا تھا جیسے بچپن کا کوئی دوست بچھڑ رہا ہو۔ میں بہت مشکور ہوں کہ اُنہوں نے ہم سے ملنے کے لئے وقت نکالا اور صوابی سے پشاور تشریف لائے حالانکہ وہ خود کراچی سے صوابی آئے ہوئے تھے۔ اور منصور مکرم بھائی کا بھی بہت بہت شکریہ ، اُن سے جان پہچان "درویش خراسانی" کے نام سے تو تھی مگر ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی اُن سے کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی۔ کل اُن کی وجہ سے ہم مل بیٹھے اور شناسائی ہوئی۔ مدثربھائی کا بہت شکریہ جنہوں نے نہ صرف خود شرکت کی بلکہ اپنے دوستوں کو بھی بلایا اور اُمید ہے کہ وہ ہم تین (معلوم) بلاگرز کے گروپ میں شامل ہوکر باقاعدہ بلاگنگ شروع کرکے ہمارے خاندان کا حصہ بنیں گے اور ہم تین سے چھ ہوجائیں گے۔ مجھے جہاں تک معلوم پڑتا ہے ، یہاں سے صرف منصور مکرم بھائی، مسرت اللہ بھائی اور میں ناچیز بلاگنگ کررہے ہیں، اگر اور بھی کوئی ہے پشاور اور خیبر پختونخواہ کے دیگر علاقوں سے تو برائے مہربانی رابطہ کریں۔ مسرت اللہ بھائی نے طبیعت کی خرابی کی وجہ سے شرکت نہیں کی، اُن کی کمی بہت محسوس ہوئی۔
پشاور میں بلاگرز کی یہ تیسری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات میں ہم لوگ اُس وقت اکٹھے ہوئے تھے جب میں ، مدثر اور مسرت اللہ بھائی پشاور یونیورسٹی کے پشتو اور جرنلزم شعبہ جات گئے اور وہاں پر نئے لکھنے والوں کو \"اُردو\" ؍ \" پشتو\" بلاگنگ کی ترغیب اور تھوڑی سی تربیت دی (افسوس کہ وہاں سے ابھی تک کوئی مثبت جواب موصول نہ ہوسکا)، دوسری ملاقات۲۳مئی ۲۰۱۳ ؁ء جب محسن عباس صاحب یہاں تشریف لائے تھے اور ہماری ملاقات ہوئی تھی اور اب یہ ملاقات۔ اُمید ہے کہ یہ ملاقاتیں جاری رہیں گی اور ہم لوگ اُردو اور پشتو زبان کو انٹرنٹ پر فروغ دینے میں اپنے حصے کی کوشش کرتے رہیں گے اور سماجی و معاشرتی مسائل اور برائیوں کو سامنے لاتے رہیں گے۔ 



7 comments:

  1. بہت خوب ۔واقعی بہت مزہ آیا بلاگر دوستوں سے مل کر۔
    سکندر بھائی کی برکت تھی کہ ہم سب دوست اکھٹے ہوئے۔
    اور پھر نعیم بھائی کی وساطت سے ہم نئے دوستوں سے ملے ۔
    میں دونوں حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    ReplyDelete
  2. ڈئیر نعیم !
    آج خصوصی طور پر بلاگ دیکھا کہ بلاگ میٹنگ کا کیا بنا محرم کی ڈیوٹی کی وجہ سے سخت ذہنی تنائو کا شکار رہا اس رات کھانے میں غلطی سے گوشت کھالیا تھا جس کی وجہ سے تیزابیت سے بیڑہ غرق رہا ساری رات گھر میں پھرتا رہا دوائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا پھر ڈاکٹر کے پاس گیا تو میڈیسن سے بہتری آئی یقینی طور پر بہت افسوس کررہا ہوں کہ ملاقات نہیں ہوئی نہ ہی دوستوں سے ملاقات ہوئی مدثر سے بھی کافی دنوں سے رابطہ نہیں ہورہا شکر ہے کچھ لوگ بلاگنگ کے میدان میں آرہے ہیں اور اس میں یقینی طور پر نعیم خان کاکردار قابل ذکر ہے فیلڈ میں رہتے ہوئے ہم شائد اتنے ایکٹیو نہیں جتنا نعیم ہے ویل ڈن نعیم ڈئیر

    ReplyDelete
  3. بہت خوب
    ایسی محفلیں ضرور منعقد ہونی چاہیں ۔۔ایک تو پیار بڑھتا ہے دوسرا سب کے خیالات سے مستفید ہونے کے مواقع میسر آتے ہیں
    تصاویر میں موجود سب محترم دوستوں کو میرا سلام

    ReplyDelete
  4. نعیم خاں بھائی ، جناب تعداد کی کمی کا بھلےسامنا ہو لیکن محافلِ یاراں کا انعقاد محبتوں کو تازہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی پورے پاکستان کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے ۔ ویسے ایک بات جس کی خصوصی تعریف کی جانی چاہئیے وہ ہے حاضرین کی کم تعداد کے باوجود آپ کی تحریر کا جادو جس نے ایک بھرپور محفل کی روداد جتنا مزہ دیا ۔ اللہ آپ کی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشے۔

    ReplyDelete
  5. بہت اچھا لگا ساری باتیں پڑھکر

    ReplyDelete
  6. تمام دوستوں کی محبت اور خلوص کا تہہ دل سے شکریہ اور میں اُمید کرتا ہوں کہ ایک دن آپ سب کو یہاں اکٹھا کرکے ایک خوبصورت ادبی محفل سجائیں گے۔

    ReplyDelete