پروفیسر سیف اللہ خان (مینگورہ، سوات)۔۔۔۔اخباری اطلاعات کے مطابق خٹک سرکار بچیوں کو اسکول کی طرف راغب کروانے کے لئے دو سو روپیہ فی بچی"وظیفہ"دے گی۔ ائیر کنڈیشنڈ کمروں اور ڈرائینگ رومز میں بیٹھ کر کئے جانے والے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ زمینی حقائق سے ماوراء تحریک انصاف حکومت کے فیصلے اس کے اعلان کردہ مقاصد کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے۔ آج کل اخبارات یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ "کرپٹ وزراٗ کو نہیں چھوڑیں گے، کرپٹ وزراٗ مستعفی ہوجائیں" وغیرہ وغیرہ۔ یہ بیانات حکم رانوں کے اندر "کچھ موجود" ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہمیں اُمید نہیں کہ تحریک انصاف کے وزراء کرپشن میں ملوث ہوں گے۔
گزشتہ چند سالوں میں قوم نے دیکھ لیا کہ سرکاری خزانہ ، وسائل اور عوام لٹتے رہے لیکن مجرم کوئی نہیں ٹھہرا۔ بڑے مجرم ، بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے اُصول پر وہ بہت احتیاط اور کامیابی کے ساتھ واردات کرتے ہیں۔ پھر سیاسی مخالفت اور ہمارے یہاں کا اخلاقی معیار ایسا ہے کہ مخالف شخص یا فریق کو جس طرح بھی ہو خراب کیا جاسکتا ہے، ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے وزراء کے ساتھ کسی نے کھیل کھیلا ہو۔ وہ صاف ہوں لیکن کسی ذہین مخالف کا نشانہ بنے ہوں۔ اس لئے عمران خان اور دوسرے فیصلہ سازوں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنا چاہئے، کہیں وہ صاف آدمی کو ضائع نہ کردیں۔
پرائمری سکولوں میں مرد؍خواتین اساتذہ کی انگریز دانی کافی اصلاح طلب معاملہ ہے ۔ پھر انگریزی ، قومی ترقی اور ذاتی فلاح کے لئے اہم ترین ذریہ نہیں لیکن تحریک انصاف نے ایک غلط فیصلہ کیا اور صوبے کی آئندہ نسلوں کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا۔ اگر یہ حکومت اس صوبے کے عوام کی ترقی میں مخلص اور سنجیدہ ہے تو اسے مقامی زبانوں کو مناسب مقام دے کر پورے صوبے میں اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانا چاہئے۔ اگر تمامکے تمام پٹھان روانی سے انگریزی بولنے کے قابل ہوجائیں ، لیکن اُن میں قابلیت ، حب الوطنی، عوام دوستی ، نیکی اور بدی کااحساس نہ ہو، اُن میں فائدے اور نقصان کا ادراک نہ ہو، تو یہ صوبہ اور اسکے عوام کون سی ترقی کریں گے؟ جرائم انگریزی سیکھنے سے کم نہیں ہوجاتے ۔ یہ شعور و آگہی اور احساس ذمے داری کی فراوانی سے محروم ہوجاتے ہیں اور یہ خواص انگریزی نصاب کی نسبت اُردو نصاب کے ذریعے جلدی اور گہرے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
۱۱ نومبر ۲۰۱۳ ء کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ تعلیم لازمی قراردی گئی ہے اور جو بچے اسکولوں کو نہیں جاتے، اُن کے والدین کو سزاملے گی۔ معلوم نہیں کہ خٹک سرکار کو عوام سے لڑانے کی کوشش کون کررہا ہے۔ زمینی حقائق کو سمجھ کر قانون سازی کرنی چاہئے۔ صوبے کے "ماہرین تعلیم" ذرا اس حقیقت سے بھی حکومت کو آگاہ کریں کہ غریب سے غریب ترین شخص اپنے بچوں کو قریبی مذہبی مدرسے میں تو رضاکارانہ بھیجتا ہے، لیکن سکول نہیں بھیجتا۔ پہلے تو عوام کے اس پکے عقیدے کی طرف توجہ فرمائیں، جس کے مطابق \"علم صرف مذہبی مدرسے اور ملاوالا ہے، باقی علم ہے ہی نہیں\"۔
شعبہ تعلیم ایک کمزور محاذ ہے۔ اس پر ہر سیاسی کارکن چڑھ دوڑتاہے۔ اس میں ہر خوشامدی اور زبان دراز بڑی سے بڑی کرسی حاصل کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ ایک اہم ترین شعبہ بھی ہے۔ اس لئے اس کو قابل محفوظ اور مطمئن و خوشحال عملے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس طرف توجہ فرمائے۔ دوسوروپیہ فی بچی کی ادائیگی ، والدین کو سزا دینے والی باتیں شاید تعلیم میں اضافہ نہ کر سکیں، البتہ حکومت کے لئے مشکلات ضرور پیدا کریں گے۔ اس ادائیگی سے کرپشن میں اضافہ ہوگا۔
مینگورہ میں بچیوں کو داخلے نہیں ملتے کیوں کہ سکولوں کی ناقص ترین عمارات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی طالبات آبادی کے لئے ناکافی ہیں۔ کمزور اور قوت فیصلہ سے محروم سکول افسران ان کو چھوڑ کر ، خٹک سرکار کسی اور گروہ سے زمینی حقائق معلوم کرے، تو اسے اپنے اقدام اور منصوبے قابل اصلاح معلوم ہوں گے۔ آپ طالبات اور اُستانیوں کو سہولیات اور اپنائیت دیں، درکار شرح گنجائش فراہم کریں، بچوں کے داخلے کی شرح خود بخود بڑھ جائے گی۔ ہماری چند تجاویز ہیں:
دوراُفتادہ اور پسماندہ علاقوں میں داخلوں کی شرح بڑھانے اور تعلیم کی ترقی اور تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے \"والئی سوات\" والی پالیسی اختیار کی جائے۔ اساتذہ(خصوصاً زنانہ اساتذہ) پر سے ڈومیسائل ، عمر ، ڈویژن اور ٹریننگ کی شرائط ختم کی جائیں۔
شہری علاقوں کے اسکولوں میں ڈبل اور ٹرپل شفٹ کا سلسلہ رائج کیا جائے۔
پرائمری سکولوں کے لئے صفائی کا علیحدہ عملہ اور ہر سکول میں عملے اور طالبات کے لئے قابل استعمال بیت الخلاء (ٹوائلٹس) اور وافر پانی کا بندبست مستقل اور بلا روک بنیادوں پر مہیا کیا جائے۔
طالبات اور خواتین اساتذہ کی سفری مشکلات پر ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں مسلسل نظر رکھی جائے اور ان مشکلات کو ختم کروایا جائے۔
ٹرانسپورٹرز کا لالچ اور اُن کا تعلیم دشمن رویہ قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔
پرائمری سکول کی بچیوں سے یونیفارم کی پابندی ہٹا دی جائے ۔ اس طرح تعلیم سے مارکیٹ کا قبضہ کم ترین کیا جائے۔ مفت کتب کے سلسلے کو پیسوں کے لالچ سے بے شمار خرابیوں کا خدشہ ہے۔
اس لئے " رشوت نہیں، سہولت دیں" کا طریقہ اختیار کیا جائے تو تعلیم عام بھی ہوگی اور مفید بھی۔
گزشتہ چند سالوں میں قوم نے دیکھ لیا کہ سرکاری خزانہ ، وسائل اور عوام لٹتے رہے لیکن مجرم کوئی نہیں ٹھہرا۔ بڑے مجرم ، بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے اُصول پر وہ بہت احتیاط اور کامیابی کے ساتھ واردات کرتے ہیں۔ پھر سیاسی مخالفت اور ہمارے یہاں کا اخلاقی معیار ایسا ہے کہ مخالف شخص یا فریق کو جس طرح بھی ہو خراب کیا جاسکتا ہے، ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے وزراء کے ساتھ کسی نے کھیل کھیلا ہو۔ وہ صاف ہوں لیکن کسی ذہین مخالف کا نشانہ بنے ہوں۔ اس لئے عمران خان اور دوسرے فیصلہ سازوں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنا چاہئے، کہیں وہ صاف آدمی کو ضائع نہ کردیں۔
پرائمری سکولوں میں مرد؍خواتین اساتذہ کی انگریز دانی کافی اصلاح طلب معاملہ ہے ۔ پھر انگریزی ، قومی ترقی اور ذاتی فلاح کے لئے اہم ترین ذریہ نہیں لیکن تحریک انصاف نے ایک غلط فیصلہ کیا اور صوبے کی آئندہ نسلوں کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا۔ اگر یہ حکومت اس صوبے کے عوام کی ترقی میں مخلص اور سنجیدہ ہے تو اسے مقامی زبانوں کو مناسب مقام دے کر پورے صوبے میں اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانا چاہئے۔ اگر تمامکے تمام پٹھان روانی سے انگریزی بولنے کے قابل ہوجائیں ، لیکن اُن میں قابلیت ، حب الوطنی، عوام دوستی ، نیکی اور بدی کااحساس نہ ہو، اُن میں فائدے اور نقصان کا ادراک نہ ہو، تو یہ صوبہ اور اسکے عوام کون سی ترقی کریں گے؟ جرائم انگریزی سیکھنے سے کم نہیں ہوجاتے ۔ یہ شعور و آگہی اور احساس ذمے داری کی فراوانی سے محروم ہوجاتے ہیں اور یہ خواص انگریزی نصاب کی نسبت اُردو نصاب کے ذریعے جلدی اور گہرے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
۱۱ نومبر ۲۰۱۳ ء کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ تعلیم لازمی قراردی گئی ہے اور جو بچے اسکولوں کو نہیں جاتے، اُن کے والدین کو سزاملے گی۔ معلوم نہیں کہ خٹک سرکار کو عوام سے لڑانے کی کوشش کون کررہا ہے۔ زمینی حقائق کو سمجھ کر قانون سازی کرنی چاہئے۔ صوبے کے "ماہرین تعلیم" ذرا اس حقیقت سے بھی حکومت کو آگاہ کریں کہ غریب سے غریب ترین شخص اپنے بچوں کو قریبی مذہبی مدرسے میں تو رضاکارانہ بھیجتا ہے، لیکن سکول نہیں بھیجتا۔ پہلے تو عوام کے اس پکے عقیدے کی طرف توجہ فرمائیں، جس کے مطابق \"علم صرف مذہبی مدرسے اور ملاوالا ہے، باقی علم ہے ہی نہیں\"۔
شعبہ تعلیم ایک کمزور محاذ ہے۔ اس پر ہر سیاسی کارکن چڑھ دوڑتاہے۔ اس میں ہر خوشامدی اور زبان دراز بڑی سے بڑی کرسی حاصل کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ ایک اہم ترین شعبہ بھی ہے۔ اس لئے اس کو قابل محفوظ اور مطمئن و خوشحال عملے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس طرف توجہ فرمائے۔ دوسوروپیہ فی بچی کی ادائیگی ، والدین کو سزا دینے والی باتیں شاید تعلیم میں اضافہ نہ کر سکیں، البتہ حکومت کے لئے مشکلات ضرور پیدا کریں گے۔ اس ادائیگی سے کرپشن میں اضافہ ہوگا۔
مینگورہ میں بچیوں کو داخلے نہیں ملتے کیوں کہ سکولوں کی ناقص ترین عمارات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی طالبات آبادی کے لئے ناکافی ہیں۔ کمزور اور قوت فیصلہ سے محروم سکول افسران ان کو چھوڑ کر ، خٹک سرکار کسی اور گروہ سے زمینی حقائق معلوم کرے، تو اسے اپنے اقدام اور منصوبے قابل اصلاح معلوم ہوں گے۔ آپ طالبات اور اُستانیوں کو سہولیات اور اپنائیت دیں، درکار شرح گنجائش فراہم کریں، بچوں کے داخلے کی شرح خود بخود بڑھ جائے گی۔ ہماری چند تجاویز ہیں:
دوراُفتادہ اور پسماندہ علاقوں میں داخلوں کی شرح بڑھانے اور تعلیم کی ترقی اور تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے \"والئی سوات\" والی پالیسی اختیار کی جائے۔ اساتذہ(خصوصاً زنانہ اساتذہ) پر سے ڈومیسائل ، عمر ، ڈویژن اور ٹریننگ کی شرائط ختم کی جائیں۔
شہری علاقوں کے اسکولوں میں ڈبل اور ٹرپل شفٹ کا سلسلہ رائج کیا جائے۔
پرائمری سکولوں کے لئے صفائی کا علیحدہ عملہ اور ہر سکول میں عملے اور طالبات کے لئے قابل استعمال بیت الخلاء (ٹوائلٹس) اور وافر پانی کا بندبست مستقل اور بلا روک بنیادوں پر مہیا کیا جائے۔
طالبات اور خواتین اساتذہ کی سفری مشکلات پر ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں مسلسل نظر رکھی جائے اور ان مشکلات کو ختم کروایا جائے۔
ٹرانسپورٹرز کا لالچ اور اُن کا تعلیم دشمن رویہ قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔
پرائمری سکول کی بچیوں سے یونیفارم کی پابندی ہٹا دی جائے ۔ اس طرح تعلیم سے مارکیٹ کا قبضہ کم ترین کیا جائے۔ مفت کتب کے سلسلے کو پیسوں کے لالچ سے بے شمار خرابیوں کا خدشہ ہے۔
اس لئے " رشوت نہیں، سہولت دیں" کا طریقہ اختیار کیا جائے تو تعلیم عام بھی ہوگی اور مفید بھی۔
0 comments:
Post a Comment