Thursday 14 November 2013

November 14, 2013
پروفیسر سیف اللہ خان  (سوات):                            پاکستانیوں کے کلچر میں علماء صرف اُن افراد کو کہتے ہیں جو کسی اسلامی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے عالمہ کا لفظ بھی مستعمل ہے، یعنی وہ خاتون جو کسی اسلامی مدرسے سے فارغ التحصیل ہو، اب خواتین کے مدرسے بھی کافی تعداد میں ہیں۔
مرحوم جنرل ضیاء الحق کے عہد تک ہمارے علاقوں میں علماء کی اور اسلامی مدارس کی تعداد کم تھی۔ افغانستان کی سیاست میں مذہبی لوگوں کے حوالے سے ہمارے یہاں بھی مذہبی مدارس اور مذہبی نصاب پڑھنے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا اور بقول ایک سابقہ مرکزی وزیر اس وقت سالانہ اندازاً ایک لاکھ نوجوان مذہبی تعلیم میں اسناد حاصل کرتے ہیں۔ اب گویا کہ وہ زمانہ گزر چکا، جب عوام کسی مذہبی مسئلے کے لیے خطوط لکھتے یا دور کے مولوی صاحبان کے پاس جاتے۔ اب ہر محلے میں علماء موجود ہیں اور ہر معاملے میں اپنا مؤقف یا مذہبی نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔
پہلی صدی ہجری میں اقتدار پر اُمویوں کے قبضے اور معاملات کو قرآن و سنت کی بجائے بادشاہوں کی خواہش پر فیصلہ کرنے کے رواج سے اُمت مسلمہ پہلے دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوگئی اور پھر مزید ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ امویوں اور اُن کے بعد عباسیوں نے مذہب کو اپنے اقتدار کے لیے اس انداز کے ساتھ استعمال کیا کہ ریاستی اور حکومتی امور سے اس کو چلتا کردیا۔ اس کو کسی ایک مرکزی چھت کے نیچے نہ رہنے دیا گیا۔ آج مسلمان مغربی طرز جمہوریت کے اندھیروں میں سرگردان ہے، جس میں اقتدار اور وسائل صرف اور صرف مال داروں کا حق ہے۔ اسلام کا عادلانہ نظام حکومت کہیں بھی موجود نہیں۔ مسلمان علماء اور عوام کے غیر سیاسی جذبے نے اسلامی علوم کو جاری و ساری رکھا اور ان میں اتنی عظیم ترقی کی کہ دنیا کی کوئی قوم مسلمانوں کی ہم سری کا اس میدان میں دعویٰ نہیں کرسکتی۔ صرف علم حدیث پر اتنا قابل فخر کام ہوا ہے، جس کی مثال نہیں۔ خلافت سے بادشاہت میں اقتدار کی تبدیلی نے مختلف سوالات کو جنم دیا۔ ان سوالات پر بحث و مباحثے نے بے شمار مواقع پر قتل و غارت گری کی صورت پیدا کر دی۔ بادشاہوں کا فائدہ اسی میں تھا کہ عوام آپس میں لڑائیوں میں مصروف ہوں اور وہ آرام سے اقتدار کے مزے لوٹیں۔ سیاسی معاملات (حق خلافت کا سوال اور دوسری کئی سیاسی باتیں) کے علاوہ روبہ ترقی ذہنی استعداد نے کئی مسائل پر سوالات اٹھائے اور کئی نئے مسائل پیدا کیے۔ قرآن شریف مسلمانوں کا بالا ترین راہ نما تھا، اُس کے بعد ہدایاتِ نبی ؐ اُن کے معیار تھے۔ اس لیے نئے اور کچھ پرانے مسائل کے جوابات کو قرآن و سنت ہی میں تلاش کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں اور اس سلسلے میں قابل قدر کام کیا گیا۔ لیکن ایک مرکزی چھتری نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں یک سانیت نہ آسکی۔ پھر صدیوں پر محیط زمانوں، پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں اور اُن کے علماء کے مختلف حالات، جغرافیائی، موسمی، معاشی اور معاشرتی تنوع نے بھی یکسانیت پر اثر ڈالا۔ کسی جگہ بادشاہ عادل ہے کسی جگہ ظالم، کسی جگہ مسلمان آزاد ہیں، تو کسی جگہ غلام۔ کوئی عالم واقعی عالم اور ثقہ ہے، تو کوئی ’’عالم‘‘ کسی اور تعریف میں آتا ہے۔ غالباً اس عدم مرکزئیت نے ایسے معاملات کو جنم دیا جن پر اختلافات ہوسکتے تھے، پھر ان خالصتاً علمی اختلافات کو قتل و غارت گری تک پہنچایا گیا۔ کچھ سیاسی اور دوسری اشرار قوتوں نے ان اختلافات کو شدید ترین کروادیا اور یوں مسلمانوں میں شدت پسندی، انتہا پسندی نے جڑیں پکڑیں۔ آج اس ایٹمی دور میں جب دوسری اقوام مکالمے اور مباحثے کو ترقی کا ذریعہ سمجھتی ہیں، مسلمانوں کے یہاں کوئی معمولی یا بڑا اختلاف رائے قابل گردن زدنی سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی جماعتوں کے لٹریچر کو دل پکڑ کر پڑھا جاسکتا ہے۔ سوات میں ’’علماء‘‘ نے حالیہ انتخابات میں صرف ایک سیاسی جماعت کے خلاف ’’علماء‘‘ مذہب کا حربہ استعمال کرنا ضروری سمجھا، خود تو نہ جیت سکی لیکن دوسری مذہبی جماعت کو ناکام کروانے سے ثواب دارین ضرور حاصل کی۔
اب جب کہ فکری اور عملی میدانوں میں دنیا بہت آگے جاچکی ہے۔ ہر مولوی کو کفر کا فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ ہر مولوی اور مولویوں کے گروہوں کو اختلافات کے الاؤ میں نہیں کودنا چاہیے۔ اور نہ ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں، جن سے مسلمان کم زور ہوتے ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے علمائے کرام کی ایک با اختیار مجلس مستقل بنیادوں پر قائم کی جائے۔ جس میں ہر مکتبۂ فکر کے کم از کم تین تین علماء بشمول غیر مسلم علماء، قانون، سائنس اور تاریخ کے علماء شامل ہوں۔ صرف اس مجلس کو اختلافی مسائل سننے اوران پر کثرت رائے کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا اختیار ہو۔ کسی ملا، کسی پادری، کسی پنڈت کو فتویٰ دینے کا اختیار نہ ہو۔ تمام سابقہ فتوؤں کی صحت اور جواز کا یہی مجلس جائزہ لے کر اپنا فیصلہ ریکارڈ کرائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت دونوں اپنی جگہ رہیں۔
علماء کی یہ مجلس شوریٰ جو فیصلے کرے گی اُن کو گزٹ آف پاکستان میں باقاعدگی کے ساتھ شائع کیا جایا کرے۔ یہی مجلس جہاں ضروری سمجھے قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو اپنی سفارشات پیش کیا کرے۔ اس کا مستقل سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ہو اور اس کے ارکان کی شرائط ایسی ہوں کہ نالائق اور خوشامدیوں سے یہ بچا رہے۔ یہ مجلس پارلیمنٹ کو قائل کرنے کی پابند ہو، تاکہ ملّا مناپلی کی شکل میں متوازی مقننہ قائم نہ ہو، جس کا تلخ تجربہ عثمانی ترک سلطنت نے کیا۔
اس مجلس کے قیام کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ علماء کی متحدہ قوت متحرک ہوجائے۔ آج کل نواز سرکار ’’طالبان‘‘ سے مذاکرات کی خواہش مند ہے لیکن کون سے طالبان؟ ان کا وجود بظاہر بوسیدہ ہے، اسی طرح ہمارے علماء بھی بکھرے ہیں۔ علماء کی مجلس شوریٰ سے بے شمار سوالات کے جوابات اور بے شمار مسائل کا حل ممکن ہوسکے گا۔ دورِ جدید کے بے شمار مسائل کے درست فیصلے ہوں گے۔ نفرت، عدم برداشت کی جگہ محبت، احترام اور قبولیت اور مکالمے کی فضا ترقی اور پیش رفت کے لیے ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے پیچھے ڈانگ اٹھانے کی بجائے برداشت، احترا م اور رواداری کے ساتھ مکالمے کا طریقہ زیادہ سود مند اور پائیدار ہوتا ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*

0 comments:

Post a Comment