Saturday, 15 June 2013

June 15, 2013

ایچ ایم کالامی (کالام، سوات)                موجودہ دھینگا دھینگی، بدامنی، بدعنوانیاں، بے روزگاری، تعلیمی مسائل جیسے ان گنت مسائل کی وجہ سے 11مئی کاالیکشن صوبہ خیبر پختونخواکے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہیں۔ صوبے کی گذشتہ حکمران پارٹیوں کے ریکارڈہمارے سامنے کھلی کتاب کے مانندپڑی ہے ۔جواپنے ریکارڈ کی لسٹ پر نظر ثانی کے بجائے آج کل پھر سے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کونسی پارٹی اقتدار کا حصہ بننے جارہی ہے اور کونسی نہیں۔ سیاست ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے۔ ویسے بھی خیبر پختونخوا کی سیاست ہمارا موضوع نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کی وادی سوات سے بھی چند کلومیٹر شمال کی جانب حلقہ پی کے 85ہمارا زیز موضوع ہے۔

سیلاب کی وجہ سے پی کے 85کے حلقے پر جن مصیبتوں کے کوہ گراں گر پڑے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔سیلاب سڑک کو اس طرح نگل گیا کہ سڑک کا نام و نشان نہ رہا۔بجلی کا ایک کھمبہ بھی باقی نہ رہا۔ ٹیلیفون کے تارے سیلاب اکھاڑ کے لے گیا۔لوگ جزیروں میں محصور ہو گئے۔پوری کی پوری آبادی کاجیسے جھاڑوں پھیر کر صفایا کردیا۔رمضان کے مبارک مہینے میں لوگ کھلے آسمان تلے دانہ دانہ کو ترس رہے تھے۔
سحری افطار کے فرائض انجام دینے کی خاطر پہاڑوں اور چٹانوں کو پار کرتے ہوئے چالیس کلومیٹر دور مدین تک روز پیدل سفر طے کر کے بمشکل ایک آدھ کلو آٹا اور چند دانے چائے چینی شام تک گھر پہنچاتے۔ ہسپتالوں کو تالے لگے۔مریض ڈسپرین اسپرین کے لئے ترس رہے تھے۔ایک بوند پینے کا پانی حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔
اس مصیبت کے دوران ہمارے نمائندے اسلام آباد کے ٹھنڈے اور آرام دہ محلوں میں اقتدرار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ کسی نمائندے نے آکر ہماری خبر تک دریافت نہیں کی۔ بالآخر گمشدگی کا اشتہار دے کر بھی انہیں ڈھونڈ نہ نکال پائیں۔ایک طرف تو رمضان کا مہینہ دوسری طرف آگ برساتی دھوپ لیکن اس حلقے کے حوصلہ مند باشندوں نے ان صاحبان کے منہ تکنے کے بجائے اپنے زور بازو سے پہاڑوں اور چٹانوں کو چھیرتے ہوئے فورویل گاڑیوں کو کالام تک پہنچائی۔
وہی کچی پہاڑی راستہ پھر پاک آرمی کے جوانوں کے جذبوں سے تھوڑی بہت سڑک کا نظارہ پیش کرنے لگا۔
صاحبان اقتدار کو اپنی کرسی کے مزے چھکنے سے فرصت نہ ملی سڑک وہی کے وہی رہ گئی ۔ بجلی محاورہ بن کر رہ گئی۔ٹیلیفون ایکسچینج نامی کوئی عمارت نہ بن سکی۔
پھر سے وہی صاحبان ہمیں بے وقوف سمجھ کر زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ چند دن پہلے ہمارے ایک سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی ووٹ کی خیرات مانگنے کالام آگئے ۔دوران اقتدار شائد اس کو یہ بھی یاد نہ تھا کہ مدین سے اوپر بھی کوئی کالام نامی علاقہ موجود ہے ۔اہل کالام کو لچھے دار باتیں سناتے ہوئے صاحب ہم پر 7ارب روپے نچھاور کرنے کا دعوی کرنے لگا۔ بالآخر یہ 7 ارب روپے کونسے سوراخ میں گئے؟ صورت حال وہی کے وہی ہے تو کیا ہمیں 7 ارب روپے کے خیالی پلاؤ کھلائے گئے ہیں؟
قارئین ہمارے پاس ایک دن مزید سوچنے کی مہلت ہے۔ ووٹ کے حقدار کو جاننے کے لئے ذرا منگورہ سے کالام سڑک پر سفر کو ذہن میں لائیں۔زرا ہسپتال میں جاکر وہاں مریضوں کی حالت زار کا جائزہ لیں۔اگر آپ کے گھر میں ٹیلیفون کی کوئی پرانی سیٹ پڑی ہو تو ریسیور کو زرا کان سے لگائیںآواز آتی ہے کہ نہیں؟ پھر ذرا رات کو شمع جلاتے وقت اپنی گریبان میں جھانکیں۔ سیلاب سے پہلے سے لیکر آج تک کی تمام صورت حال کا بغور جائزہ لیں۔ہم کہاں سے آکر کہاں کھڑے ہیں۔ 
مزید سوچئیں کیا ہم اتنے ہی بے شعور اور بے حس و بے وقوف بن چکے ہیں کہ ایک پتھر سے بار بار ٹھوکر کھاتے رہیں اور اسی پتھر کو راستے سے ہٹانے کے بجائے اس کی بنیاد مظبوط کرتے جائیں؟
کیا ہم چند پائپ اور دو تھیلی آٹے کی قیمت پر اپنا ضمیر بیچ کر ایک محب وطن ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟
قارئین اپنا قیمتی ووٹ کو ضائع کرنے سے بچانا ہو تو ایک دن مزید سوچئیں۔ اگر ٹھپہ تھوڑا بھی ادھر ادھر ہوا تو سمجھو کہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی چلائی۔

0 comments:

Post a Comment