Sunday 16 June 2013

June 16, 2013

ایچ ایم کالامی (کالام، سوات):      تمباکونوشی ایک ایسی معاشرتی لت ہے جس سے وطن عزیز کا کوئی بھی کونامحفوظ نہیں ۔وطن عزیزپاکستان میں بھی تمباکونوشی کا رواج عام ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ پاکستان میں بجائے چند صورتوں کے تمباکونوشی کو قانونی استثنی حاصل ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں تمباکو کی صنعت ،کاروبار، اشتہار اور استعمال کا قانون کی کتابوں میں کسی قسم کی ممانعت نہیں جوکہ تمباکونوشی کے لحاظ سے پاکستان ایشیاء میں پہلے نمبر پر ہے۔اورپاکستان میں تمباکونوشی کا رواج بالخصوص نوجوانوں میں پایا جاتا ہے۔پاکستان میں اوسطاََ چالیس فیصد مرد اور آٹھ فیصد خواتین تمباکو مستقل طور پر نوش کرتے ہیں۔اور صرف پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں اٹھائیس فیصد نوجوان تمباکونوشی کی لت کاشکار ہیں۔پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے حالیہ رپورٹ کے مطابق سکول جانے والے ایک ہزار بچے روزانہ تمباکونوشی شروع کرتے ہیں۔پاکستان میں مختلف طریقوں سے تمباکو نوش کیا جاتا ہے ۔ جس میں سگریٹ، نسوار ، پان، حقہ اور عام ہیں۔ سگریٹ ، پان اور حقہ پنجاب میں اور نسوار ذیادہ تر صوبہ خیبر پختونخوا میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ستر فیصد لوگ نسوار کے عادی ہیں۔اور دنیا میں سب سے ذیادہ نسوار افغانستان میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی نسوار کا ذکر کیا جائے کا تو اس کی دریافت کا ذمہ دار پختون قوم کو ٹہراکر ان کی جگ ہنسائی کی جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ نسوار کی دریافت یورپی ممالک میں ہوئی ہے ۔ نسوار کولمبس میں دریافت ہوا اور یورپ سے چائنہ تک پھیل گیا۔یورپی مشہور شخصیات میں نیپلین اور کنگ لوئس نے بھی نسوار کا استعمال کیا ہے ۔نسوار کے عادی لوگ ذیادہ تر یہ سوچ کر اس کو چھوڑنے کی کوشش نہیں کرتے کہ یہ سگریٹ جیسی خطرناک نشہ نہیں لیکن محققین کے مطابق نسوار منہ کے سرطان ، دانت اور معدے کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ تمباکونوشی خواہ نسوار کی صورت میں کیا جائے یا کسی اور صورت میں یہ بہت بری لت ہے اگر کسی کو لگ جائے تو مشکل سے ہی چھٹکارا پاسکتا ہے۔اگرچہ نسوار، سگریٹ کو معمولی نشہ سمجھ کر اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی لیکن انہی معمولی عادات سے انسان رفتہ رفتہ شراب اور پاؤڈر کا ہی خواراک بن جاتا ہے ۔تمباکونوشی کینسر کے موذی مرض کی مانند معاشرے میں پھیل کر معاشرے کو اپنی مضرات کا نشانہ بناتی ہے ۔ تقریباََ تمام تر معاشرتی بے قاعدگیاں، جس میں غربت، بے روزگاری، ڈکیتی ، راہزنی اور اس قبیل کے تمام جرائم میں بھی تمباکونوشی نمایاں کردار ادا کرتا ہے لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم لوگ اسے ایک فیشن ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔
ماہرین کے مطابق تمباکونوشی کئی موذی امراض کا سبب بنتا ہے۔جس میں خاص طور پر پھیپڑوں ، اور منہ کا کینسر، دل کے عوارض اور نفسیاتی امراض شامل ہیں۔پاکستان میں نوے فیصد پھیپڑوں کی کینسر براہ راست تمباکونوشی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔
تمباکونوشی معاشی صورت حال کو بھی تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کرتی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں متوسط طبقے کے لوگ اپنی کل آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ تمباکونوشی کی نذر کرتے ہیں۔
اکتیس مئی کو دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن منایا گیا۔جس کا مقصد واک اور سیمناروں کے ذریعے تمباکونوشی کے مضرات کے متعلق شعور اجاگر کرنا تھا۔ابھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بلا سے چھٹکاراپانے کا کوئی ہموار راستہ کیسے ڈوھونڈا جائے؟
کیا صرف واک اور سیمنار ہی اس معاشرتی لت کا علاج ہے؟یا ہمارے حکمران اسے سنجیدگی اور عملی طور پر لے کردیگر ترقیافتہ ممالک کی طرح کوئی خاطر خواہ حکمت عملی وضع کریں تو اس کے دور رس نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ہمارے خیبر پخونخوا کے سابقہ وزیر اطلاعات جناب میاں افتخار حسین نے خیبر پختونخوا میں تمباکونوشی کی پابندی پر ایک بل بھی صوبائی اسمبلی میں پیش کی تھی جو کہ ان کا ایک اچھا اقدام تھالیکن اس پر بھی کوئی خاطرکاروائی نہ ہوسکی۔کیا ہی اچھا ہوگا اگر دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی صرف ’خبردار ! تمباکونوشی صحت کے لئے مضر ہے‘ کا لیبل لگانے کے بجائے کوئی واضح حکمت عملی وضع کی جائے اور تمباکو کمپنیوں کو لاٹری کا اہتمام کرنے اور فیسٹیولوں جیسی سرگرمیوں میں سپانسر کے طور پر حصہ لینے سے محروم رکھا جائے اور تمام عوامی مقامات پر تمباکونوشی پر پابندی عائد کیا جائے۔
قارئین پیارے وطن عزیز پاکستان کو تمباکونوشی کی لت سے پاک ملک بنانے میں حکمرانوں کا منہ تاکنے سے بہتر ہے ہمیں بھی اپنا حصہ ڈال کر اس فریضہ سر انجام دینا چاہئیے۔انسداد تمباکونوشی کا عالمی دن منانے کا مقصد واک اور سیمنار کے ذریعے شعور اجگر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ عزم بھی کرنا ہے کہ ممکن حد تک تمباکونوشی کی لت سے خود کو بھی محفوظ رکھیں اور دوسروں کو بھی اس لت سے محفوظ رکھنے کا سہارا دیں۔ہمارے اساتذہ کرام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ تمام تر دوسری تربیتوں کے ساتھ ساتھ اس مسلے پر بھی اپنے سٹوڈنٹس کی بہتر تربیت پر خاص توجہ دیں۔ میڈیا بھی اس لت سے نبرد آزما ہونے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔صحافی برادری کو بھی اپنے قلم کے ذریعے ایسے مسائل کو مسائل کو اجاگر کریں۔تو آئیں یہ عہد کر لیتے ہیں کہ تمباکونوشی کی عادت کا اپنے معاشرے سے قلع قمع کردیں اور پیارے پاکستان کو اس لت سے پاک کرنے میں اپنا بھر پور کردار اداکریں گے۔  ۔

0 comments:

Post a Comment