ڈاکٹر ظہور احمد اعوان مرحوم
تحریر و تحقیق : عمر قیاز خان قائل ادارہ فروغ قومی زبان
خیبر پختون خوا کی مٹی نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں کو با ہنر فن کار عطا کیے وہاں فی زمانہ ادبی اْفق پر ایسے ستارے بھی اْبھرے، جن کی چمک دمک نے آسمانِ ادب کو زینت و سنگھار بخشا۔ پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان بھی اِسی آسمانِ ادب کا ایک تابندہ ستارہ تھا۔ وہ خیبر پختون خوا کے اْردو زبان و ادب کا ایک بڑا نام تھا، بلکہ وہ اْردو ادب کی دْنیا میں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتے تھے۔ اْردو ادب میں ایسے اْدبا بہت کم ملتے ہیں، جو بہ یک وقت چار پانچ اصنافِ نثر میں یکساں مقام و مرتبہ رکھتے ہوں، چونکہ ایسی لازوال ادبی شخصیات کے اذہان میں اتنے خیالات، افکار اور معلومات جمع ہوتے ہیں کہ کسی ایک صنفِ ادب میں وہ سمائے نہیں جا سکتے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کا نام قدر آور ادبی شخصیات کی فہرست میں شامل تھا۔ وہ ایک جہاں دیدہ شخص تھے اس لیے اْن کے ذہن میں افکار و خیالات اور معلومات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود تھا۔ اور یہ ذخیرہ اتنا بڑا تھا کہ وہ بیک وقت چار، پانچ اصنافِ ادب میں منتقل ہو کر محفوظ ہو کر رہا۔ اس لحاظ سے سفر نامہ نگاری، خاکہ نگاری، رپورتاژ نگاری، کالم نگاری اور ترجمہ نگاری کے علاوہ اْنہوں نے تحقیق و تنقید کا بھی قابلِ قدر سرمایہ اْردو ادب کو دیا۔
ظہوراعوان ۱۹۴۲ء کوپشاور شہر میں پیدا ہوئے۔ دفتری کاغذات میں آپ کی تاریخِ پیدائش ۴ جنوری۱۹۴۲ ء لکھی گئی ہے لیکن خود ظہور اعوان کے مطابق وہ اگست ۱۹۴۲ء میں پیدا ہوئے۔ان کا آبائی شہر پشاور تھا اور مادری زبان ہندکو تھی۔اْنھوں نے۱۹۶۶ء میں پشاور یْونی ورسٹی سے ایم۔ اے اْردو درجہ اول میں پاس کیا اِس کے بعد بہ طور اْردو لیکچرارملازمت اختیار کرلی ۔بعد ازاں انھوں نے ۱۹۶۹ء میں ایم۔ اے انگریزی اور ۱۹۷۴ء میں ایم۔ اے پولیٹیکل سائنس کی ڈگریاں حاصل کیں۔۱۹۸۸ء میں ''اقبال اور افغان'' کے موضوع پر انگریزی میں سنٹرل ایشین سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ پشاور یْونی ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی لیکن اْن کی علمی پیاس پھر بھی بجھ نہ سکی تو۱۹۸۹ء میں وہ امریکہ تشریف لے گئے، جہاں ۱۹۹۲ء میں ایم۔ایس اِنٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگری حاصل کی اور انٹرن شپ کے سلسلے میں یو۔این۔او میں اپنی خدمات سر انجام دیں پھر پشاور واپس آگئے۔
ظہور اعوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حد درجہ باخبر شخصیت تھے۔ اپنی طویل تعلیمی زندگی میں یْوں تو اْنہیں بہت سے اْستاد ملے لیکن جن اساتذہ نے اْن کی کردار سازی و شخصیت سازی میں خاص کردار ادا کیا وہ ماسٹر عبداللہ جان، ماسٹر عبدالسلام، ماسٹر عتیق الرحمان، پروفیسر ناصر احمد، پروفیسر ٹھاکر داس اور ڈاکٹر طاہر فاروقی تھے۔
مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات سر انجام دینے کے بعدوہ۱۹۹۶ء میں شعبہء اْردو پشاور یونیورسٹی میںآ گئے۔ ۱۹۹۶ء سے۲۰۰۲ء تک وہ شعبہ ء اْردو پشاور یونی ورسٹی سے منسلک رہے اور طالب علموں کے دل و دماغ کو تعلیم کی روشنی سے منور کرتے رہے۔ اِ س کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی لیکن تدریس کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔ شعبہ ء اْردو جامعہ پشاور اور شعبہ ء اْردو قرطبہ یونی ورسٹی پشاور کیمپس میں بہ طور وزیٹنگ پروفیسر کے بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔وہ پانچ برس تک پبلک سروس کمیشن خیبرپختونخوا کے ممبر بھی رہے۔
ادبی دْنیا میں ظہور اعوان کی قابلیت اور صلاحیت کسی مخصوص صنفِ ادب تک محدود نہ تھی ، بل کہ وہ ادبی میدان میں کئی حوالوں سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ وہ جس صنف پر قلم اْٹھاتے تو اس کے حْسن کو نکھار بخشتے چلتے جاتے۔ اْردو ادب آپ کی گراں قدر ادبی خدمات اور تخلیقات کا ہمیشہ احسان مند رہے گا، وہ ایک بڑی علمی ادبی اور ثقافتی شخصیت تھے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے لکھنے کا باقاعدہ آغاز۱۹۶۶ء میں کیا۔ اْن کی پہلی کتاب ''نذرِ نظیر'' (نظیر اکبر آبادی) پر ہے۔ یہ کتاب ۱۹۶۶ء میں یونی ورسٹی بک ایجنسی پشاور نے چھاپی تھی۔ انھوں نے خاکہ نگاری کا باقاعدہ آغاز ۱۹۸۹ء میں کیا۔خاکہ نگاری کی بابت مولوی عبدالحق اور ممتاز مفتی سے متاثر ہوئے ۔رپورتاژنگاری کا باقاعدہ آغاز اْنہوں نے ۱۹۹۵ء میں کیا ۔رپورتانگاری کی بابت کرشن چندر سے متاثر ہوئے، جب کہ کالم نگاری کا باقاعدہ آغاز۱۹۹۲ء میں کیا۔ کالم نگاری میں ابنِ انشا، منو بھائی، جمیل الدین عالی اور انتظارحسین سے متاثر ہوئے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے پسندیدہ شاعر غالبؔ ، اقبالؔ ، فیضؔ اور گل زار تھے۔ پسندیدہ نثر نگار کرشن چندر، قْدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی ، سعادت حسن منٹو اور مشتاق احمد یوسفی تھے۔ پسندیدہ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، کرشن چندر ،
عصمت چغتائی اور بیدی تھے۔
آپ نے ۵۶ مستقل کتابیں جب کہ تین سو سے زیادہ مقالات رقم کیے۔آپ نے سفرنامہ نگاری، خاکہ نگاری، رپورتاژنگاری، کالم نگاری، جیسی مختلف النوع اصناف میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ان کے سفر ناموں کے مجموعے ''امریکہ نامہ''، ''دی امریکن ڈائری'' ، ''دیکھ کبیر ا رویا''، '' گنگا جمنا کے دیس میں''، ''گم شْدہ سفر نامہ''، ''مشرق کا جنیوا''، ''چہار سفر نامہ''، ''سفرتمام'' اور ''ابنِ بطوطہ کے خطوط''، غیر ملکی سفر کی شان دار اور یادگار تحریریں ہیں، جِن کو ادبی ناقدین نے فنِ سفر نامہ نگاری کا سنگِ میل قرار دیاہے۔
آپ کی تین تصانیف: ''دو اقبالؔ ''، ''اقبال و علی شریعتی'' اور ''علامہ اقبال و علامہ مشرقی'' اقبالیات کے موضوع پر منفرد اور ممتاز تحریریں خیال کی جاتی ہیں۔ پاکستانی موضوعات پر آپ کے مقالات کا مجموعہ: ''دو پاکستان'' اور مسئلہ کشمیر پر آپ کی انگریزی ریسرچ ''کشمیر انتفادہ'' کے نام سے چھپ چْکی ہے۔ ادبی موضوعات پر ان کی تصانیف: ''نگارشات''، نذرِ نظیر (نظیراکبر آبادی)۔ ''نذرِ نیاز'' (نیاز فتح پوری)، ''عسکری، میراجی اورساختیات ''داستانِ تاریخ رپورتاژ نگاری'' اہلِ علم سے داد وصول کر چْکی ہیں۔ ''داستانِ رپورتاژنگاری'' کو نقادوں نے مْنفرد اور بہت بڑی تحقیقی و تنقیدی کتاب قرار دیا ہے۔ اِ س کے علاوہ تراجم پر بھی آپ کی توجہ رہی، جس کی مثالیں ''گرفتار ہوا'' اور ''خواب گرکھلونے'' ہیں۔ حکیم محمد سعید پر اْن کی زندگی میں ''کتابِ سعید'' کے نام سے تالیف کی۔ خان عبدالقیوم خان پر ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل کسی بھی زبان میں پہلی کتاب آپ نے لکھی۔
ظہور اعوان صاحبِ طرز نثر نگار تھے اْن کی نثر میں زندگی کی حرارت اور معنی کی بے شمار پر تیں تھیں۔ اْن کی تحریر میں مزاح کی ہلکی سی چاشنی کے ساتھ طنز کی بے پناہ کاٹ بھی پائی جاتی تھی۔
کالم نگاری ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کا خاص میدان اور محبوب مشغلہ تھا۔ معاشرتی مسائل کی عْمدہ عکاسی اور انسانیت دوستی کی بِنا پر اْنہوں نے لاکھوں قارئین کے دِلوں میں گھر بنایا۔ مقامی و بین الاقوامی مسائل پر اْن کا تجزیہ اور تبصرہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آپ کے اب تک کالم نگاری کے مجموعے ''کالم کلامیاں''، ''دِل پشوری''، ''بیکار مباش''، ''فاسٹ فوڈ''، '' سب سے پہلے پاکستان''، ''پچیسواں گھنٹہ'' اور ''اْردو ادبی صحافت'' شائع ہوچکے ہیں۔ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک بہترین کالم نگار تھے۔ اْن کے کالم ''دل پشوری'' اور ''پشاور نامہ'' صحافتی تحریریں ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی چاشنی بھی رکھتی تھیں وہ اپنے کالموں میں پاکستان کے عوام الناس کے مسائل کو جیداری سے پیش کرتے اور قلم کو تلوار اور پرچم بنا کر استعمال کرتے تھے۔ منفرد روشن سوچ کے حامل ادیب و دانشور ظہور اعوان خیبر پختون خوا اور پاکستان کا وقیع اثاثہ تھے جو علم کو عبادت سمجھ کر سیکھ اور سیکھا ر ہے تھے۔
آپ کا ضخیم پی ایچ۔ ڈی مقالہ ''اقبال اور افغان'' اپنے موضوع پر ایک منفرد دستاویز ہے۔ ان کو بزمِ علم و فن انٹرنیشنل اِسلام آبادکی طرف سے گذشتہ دہائی کا سب سے بڑا نثر نگار قرار دیتے ہوئے ان کی کتاب ''داستانِ تاریخ رپورتاژنگاری'' کو ۱۹۹۹ء کی بہترین تصنیف کا ایوارڈ دیا گیا۔
حکومتِ پاکستان نے اْن کوتمغۂ امتیاز اور بعد از مرگ تمغہ برائے حْسنِ کار کردگی سے نوازا۔ زمانہء سکول، کالج اور یونی ورسٹی کے حالات کے متعلق ظہور اعوان کہتے ہیں:
'' ماریں بہت کھائیں، بہت مفلسی کا دور گزرا، گھر میں بجلی کا فقدان رہا، زیادہ تعلیم پرائیویٹ حاصل کی، اکثر شاہی باغ (پشاور) جاکر دوپہر کو پڑھا کر تے تھے۔شعبہ ء اْردو جامعہ پشاور میں دو سال اچھے گزارے، موجاں ہی موجاں، مگر عشق و رومانس کے بغیر۔ صرف پڑھائی اور اس میں ترقی پر توجہ رہی''۔
اْردو ادب کے بارے میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے تاثرات یہ تھے:
''ادب ایک مشن ہے اگرمشن نہیں تو کچھ بھی نہیں''۔
سیاسیات، انگریزی، اْردو، ہندکو اور پشتو زبانوں سے واقف ہونے کی بنا پر اْن کی گفت گو میں ایک عالمانہ شان ہر جگہ جلوہ نماہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مخاطب کو قائل کرنے میں وہ اکثر کامیاب رہتے ،جس طرح اْن کی شخصیت اندرو باہر سے پاکیزہ اور صاف ستھری تھی اسی طرح اْن کی گفت گو بھی واضح، غیر مبہم، پُر مغز ا ور پراز معلومات ہوتی۔ اْن کا طرزِ گفت گو بڑا محتاط انداز لیے ہوئے ہوتا ،جس سے کسی کی دلآزاری کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔
ظہور اعوان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ مطالعہء کْتب تھا۔ کتابوں سے آپ کو دلی محبت تھی۔ اْن کے کمرے میں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں پڑی ہوتی تھیں۔ وہ ان کی بہت حفاظت کرتے تھے۔ اْن کا بیشتر وقت مطالعے اور لکھنے میں صَرف ہوتا تھا۔ اْن کو نیند کم ہی آتی تھی اور وہ جب بھی نیند سے بیدار ہوتے تو فوراً لیمپ جلاتے اور کچھ لکھنا شروع ہو جاتے یا کتاب اْٹھا کر پڑھنے لگتے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ہمیشہ سچ کی جنگ لڑتے رہے۔ہمیشہ اْصولوں کی زندگی گزارتے رہے کبھی اپنے اْصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ آپ ہمیشہ پْر امن اور پْر سکون زندگی گزارنے کے قائل تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسی نابغہ روزگار ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، جو اپنے مقصد، نصب العین اور ملک و ملت کی مخلصانہ اور بے لوث خدمت کو عبادت سمجھ کر کرتی ہیں۔ ظہور اعوان جیسے لوگ معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔آپ کا انتقال۳ اپریل ۲۰۱۱ء میں ہوا۔ اللہ تعالی اْن کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ (آمین )
ظہور اعوان کی تصنیفات و تالیفات کی فہرست کچھ یوں بنتی ہے:
سفر نامے:
۱۔ دیکھ کبیرارویا،۲۔ امریکہ نامہ، ۳۔ دی امریکن ڈائری، ۴۔ بلیک پول تا بوسٹن۵۔ گنگا جمنا کے دیس میں، ۶۔ مشرق کا جنیوا،۷۔ گم شدہ سفر نامہ ۸۔ بون جور (انگریزی)۹۔ سفر تمام،۱۰۔ ابنِ بطوطہ کے خطوط۔
خاکے:
۱۔سب دوست ہمارے،۲۔ حسابِ دوستاں،۳۔ سیاسی چہرے
۴۔ چہرہ بہ چہرہ ۵۔سرِ دلبراں
رپورتاژ:
۱۔ دْھوپ چاندنی اور ہوا،۲۔ جہاں نما،۳۔ داستان تاریخ رپورتاژ نگاری، ۴۔ پودے، ایک تجزیہ،۵۔ ایک حقیقت ایک فسانہ
کالم نگاری:
۱۔ کالم کلامیاں۲۔ دِل پشوری،۳۔ بیکار مباش، ۴۔ فاسٹ فوڈ ۵۔ پچیسواں گھنٹہ ۶۔ سب سے پہلے پاکستان،۷۔اْنگلیاں فگار۸۔ اْردو ادبی صحافت
اقبالیات:
۱۔ دو اقبالؔ ۲۔ اقبال و علی شریعتی ،۳۔ علامہ اقبال و علامہ مشرقی ، ۴۔اقبال اور افغان
پاکستانیات:
۱۔ دوپاکستان ،۲۔ کشمیر انتفادہ (انگریزی)،
تراجم:
۱۔ گرفتار ہوا،۲۔ خواب گر کھلونے،۳۔ سائیں احمد علی (فلکیات)، ۴۔ پطرس نامہ
تحقیق و تنقید:
۱۔ نذرِ نظیرؔ (نظیر اکبر آبادی) ۲۔ نذرِ نیاز (نیاز فتح پوری ) ،۳۔ نگارشات ،۴۔ عسکری، میر اجی اور ساختیات ،۵۔ ظہور شوکت ، ۶۔مضامین رفتہ و گذشتہ ،۷۔سب رس ایک مطالعہ، ۸۔حدیثِ دیگراں
سوانح:
۱۔ کتاب سعید (حکیم محمد سعید مرحوم)۲۔ خان اعظم (خان عبدالقیوم خان) ۳۔ کاظم علی جوان۔
تاریخ:
۱۔ ترکی نامہ ۲۔ خْلاصہ تاریخ پشاور (گوپال داس) ۳۔پشور پشوراے (ہند کو) ۴۔پشاور دوسو سال پرانا۵۔ سائیں احمد علی (آثار و احوال)
خطوط:
۱۔ نامہ بر ہے کیا کہیے؟ ۲۔ خطوطِ دوستاں
اب تک ڈاکٹر ظہور احمد اعوان پر جو تحقیقی و تنقیدی کام ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
۱۔ ''ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے سفر نامے'' کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ۔مقالہ برائے ایم۔اے اْردو سال ۲۰۰۰ء مقالہ نگار:عظمیٰ سحر،شعبہ ء اْردو ،جامعہ پشاور
۲۔ ''داستان تاریخ رپورتاژنگاری '' فنی و فکری جائزہ
مقالہ برائے ایم۔ اے اْردو، سال ۲۰۰۷ ء ،مقالہ نگار: محمد قاسم، شعبہء اْردو ،جامعہ پشاور
۳۔ '' ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی سفر نامہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ'' مقالہ برائے ایم۔فل اْردو ،سال ۲۰۰۸ء مقالہ نگار :پروفیسر طاہرہ ڈار، شعبہ ء اْردو ،جامعہ پشاور
۴۔ ''ڈاکٹرظہور احمد اعوان کے ادبی کالموں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ'' مقالہ برائے ایم فل اْردو قرطبہ یْونی ورسٹی پشاور
۵۔ ''ڈاکٹر ظہور احمد اعوان بہ طور محقق و نقاد'' تحقیقی و تنقیدی جائزہ۔ مقالہ برائے پی ایچ۔ ڈی اْردو ،سال ۲۰۱۲ء زیرِ تحقیق مقالہ نگار پروفیسر گل نازبانو شعبہ ء اْردو، جامعہ پشاور۔
ظہوراعوان ۱۹۴۲ء کوپشاور شہر میں پیدا ہوئے۔ دفتری کاغذات میں آپ کی تاریخِ پیدائش ۴ جنوری۱۹۴۲ ء لکھی گئی ہے لیکن خود ظہور اعوان کے مطابق وہ اگست ۱۹۴۲ء میں پیدا ہوئے۔ان کا آبائی شہر پشاور تھا اور مادری زبان ہندکو تھی۔اْنھوں نے۱۹۶۶ء میں پشاور یْونی ورسٹی سے ایم۔ اے اْردو درجہ اول میں پاس کیا اِس کے بعد بہ طور اْردو لیکچرارملازمت اختیار کرلی ۔بعد ازاں انھوں نے ۱۹۶۹ء میں ایم۔ اے انگریزی اور ۱۹۷۴ء میں ایم۔ اے پولیٹیکل سائنس کی ڈگریاں حاصل کیں۔۱۹۸۸ء میں ''اقبال اور افغان'' کے موضوع پر انگریزی میں سنٹرل ایشین سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ پشاور یْونی ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی لیکن اْن کی علمی پیاس پھر بھی بجھ نہ سکی تو۱۹۸۹ء میں وہ امریکہ تشریف لے گئے، جہاں ۱۹۹۲ء میں ایم۔ایس اِنٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگری حاصل کی اور انٹرن شپ کے سلسلے میں یو۔این۔او میں اپنی خدمات سر انجام دیں پھر پشاور واپس آگئے۔
ظہور اعوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حد درجہ باخبر شخصیت تھے۔ اپنی طویل تعلیمی زندگی میں یْوں تو اْنہیں بہت سے اْستاد ملے لیکن جن اساتذہ نے اْن کی کردار سازی و شخصیت سازی میں خاص کردار ادا کیا وہ ماسٹر عبداللہ جان، ماسٹر عبدالسلام، ماسٹر عتیق الرحمان، پروفیسر ناصر احمد، پروفیسر ٹھاکر داس اور ڈاکٹر طاہر فاروقی تھے۔
مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات سر انجام دینے کے بعدوہ۱۹۹۶ء میں شعبہء اْردو پشاور یونیورسٹی میںآ گئے۔ ۱۹۹۶ء سے۲۰۰۲ء تک وہ شعبہ ء اْردو پشاور یونی ورسٹی سے منسلک رہے اور طالب علموں کے دل و دماغ کو تعلیم کی روشنی سے منور کرتے رہے۔ اِ س کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی لیکن تدریس کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔ شعبہ ء اْردو جامعہ پشاور اور شعبہ ء اْردو قرطبہ یونی ورسٹی پشاور کیمپس میں بہ طور وزیٹنگ پروفیسر کے بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔وہ پانچ برس تک پبلک سروس کمیشن خیبرپختونخوا کے ممبر بھی رہے۔
ادبی دْنیا میں ظہور اعوان کی قابلیت اور صلاحیت کسی مخصوص صنفِ ادب تک محدود نہ تھی ، بل کہ وہ ادبی میدان میں کئی حوالوں سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ وہ جس صنف پر قلم اْٹھاتے تو اس کے حْسن کو نکھار بخشتے چلتے جاتے۔ اْردو ادب آپ کی گراں قدر ادبی خدمات اور تخلیقات کا ہمیشہ احسان مند رہے گا، وہ ایک بڑی علمی ادبی اور ثقافتی شخصیت تھے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے لکھنے کا باقاعدہ آغاز۱۹۶۶ء میں کیا۔ اْن کی پہلی کتاب ''نذرِ نظیر'' (نظیر اکبر آبادی) پر ہے۔ یہ کتاب ۱۹۶۶ء میں یونی ورسٹی بک ایجنسی پشاور نے چھاپی تھی۔ انھوں نے خاکہ نگاری کا باقاعدہ آغاز ۱۹۸۹ء میں کیا۔خاکہ نگاری کی بابت مولوی عبدالحق اور ممتاز مفتی سے متاثر ہوئے ۔رپورتاژنگاری کا باقاعدہ آغاز اْنہوں نے ۱۹۹۵ء میں کیا ۔رپورتانگاری کی بابت کرشن چندر سے متاثر ہوئے، جب کہ کالم نگاری کا باقاعدہ آغاز۱۹۹۲ء میں کیا۔ کالم نگاری میں ابنِ انشا، منو بھائی، جمیل الدین عالی اور انتظارحسین سے متاثر ہوئے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے پسندیدہ شاعر غالبؔ ، اقبالؔ ، فیضؔ اور گل زار تھے۔ پسندیدہ نثر نگار کرشن چندر، قْدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی ، سعادت حسن منٹو اور مشتاق احمد یوسفی تھے۔ پسندیدہ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، کرشن چندر ،
عصمت چغتائی اور بیدی تھے۔
آپ نے ۵۶ مستقل کتابیں جب کہ تین سو سے زیادہ مقالات رقم کیے۔آپ نے سفرنامہ نگاری، خاکہ نگاری، رپورتاژنگاری، کالم نگاری، جیسی مختلف النوع اصناف میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ان کے سفر ناموں کے مجموعے ''امریکہ نامہ''، ''دی امریکن ڈائری'' ، ''دیکھ کبیر ا رویا''، '' گنگا جمنا کے دیس میں''، ''گم شْدہ سفر نامہ''، ''مشرق کا جنیوا''، ''چہار سفر نامہ''، ''سفرتمام'' اور ''ابنِ بطوطہ کے خطوط''، غیر ملکی سفر کی شان دار اور یادگار تحریریں ہیں، جِن کو ادبی ناقدین نے فنِ سفر نامہ نگاری کا سنگِ میل قرار دیاہے۔
آپ کی تین تصانیف: ''دو اقبالؔ ''، ''اقبال و علی شریعتی'' اور ''علامہ اقبال و علامہ مشرقی'' اقبالیات کے موضوع پر منفرد اور ممتاز تحریریں خیال کی جاتی ہیں۔ پاکستانی موضوعات پر آپ کے مقالات کا مجموعہ: ''دو پاکستان'' اور مسئلہ کشمیر پر آپ کی انگریزی ریسرچ ''کشمیر انتفادہ'' کے نام سے چھپ چْکی ہے۔ ادبی موضوعات پر ان کی تصانیف: ''نگارشات''، نذرِ نظیر (نظیراکبر آبادی)۔ ''نذرِ نیاز'' (نیاز فتح پوری)، ''عسکری، میراجی اورساختیات ''داستانِ تاریخ رپورتاژ نگاری'' اہلِ علم سے داد وصول کر چْکی ہیں۔ ''داستانِ رپورتاژنگاری'' کو نقادوں نے مْنفرد اور بہت بڑی تحقیقی و تنقیدی کتاب قرار دیا ہے۔ اِ س کے علاوہ تراجم پر بھی آپ کی توجہ رہی، جس کی مثالیں ''گرفتار ہوا'' اور ''خواب گرکھلونے'' ہیں۔ حکیم محمد سعید پر اْن کی زندگی میں ''کتابِ سعید'' کے نام سے تالیف کی۔ خان عبدالقیوم خان پر ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل کسی بھی زبان میں پہلی کتاب آپ نے لکھی۔
ظہور اعوان صاحبِ طرز نثر نگار تھے اْن کی نثر میں زندگی کی حرارت اور معنی کی بے شمار پر تیں تھیں۔ اْن کی تحریر میں مزاح کی ہلکی سی چاشنی کے ساتھ طنز کی بے پناہ کاٹ بھی پائی جاتی تھی۔
کالم نگاری ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کا خاص میدان اور محبوب مشغلہ تھا۔ معاشرتی مسائل کی عْمدہ عکاسی اور انسانیت دوستی کی بِنا پر اْنہوں نے لاکھوں قارئین کے دِلوں میں گھر بنایا۔ مقامی و بین الاقوامی مسائل پر اْن کا تجزیہ اور تبصرہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آپ کے اب تک کالم نگاری کے مجموعے ''کالم کلامیاں''، ''دِل پشوری''، ''بیکار مباش''، ''فاسٹ فوڈ''، '' سب سے پہلے پاکستان''، ''پچیسواں گھنٹہ'' اور ''اْردو ادبی صحافت'' شائع ہوچکے ہیں۔ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک بہترین کالم نگار تھے۔ اْن کے کالم ''دل پشوری'' اور ''پشاور نامہ'' صحافتی تحریریں ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی چاشنی بھی رکھتی تھیں وہ اپنے کالموں میں پاکستان کے عوام الناس کے مسائل کو جیداری سے پیش کرتے اور قلم کو تلوار اور پرچم بنا کر استعمال کرتے تھے۔ منفرد روشن سوچ کے حامل ادیب و دانشور ظہور اعوان خیبر پختون خوا اور پاکستان کا وقیع اثاثہ تھے جو علم کو عبادت سمجھ کر سیکھ اور سیکھا ر ہے تھے۔
آپ کا ضخیم پی ایچ۔ ڈی مقالہ ''اقبال اور افغان'' اپنے موضوع پر ایک منفرد دستاویز ہے۔ ان کو بزمِ علم و فن انٹرنیشنل اِسلام آبادکی طرف سے گذشتہ دہائی کا سب سے بڑا نثر نگار قرار دیتے ہوئے ان کی کتاب ''داستانِ تاریخ رپورتاژنگاری'' کو ۱۹۹۹ء کی بہترین تصنیف کا ایوارڈ دیا گیا۔
حکومتِ پاکستان نے اْن کوتمغۂ امتیاز اور بعد از مرگ تمغہ برائے حْسنِ کار کردگی سے نوازا۔ زمانہء سکول، کالج اور یونی ورسٹی کے حالات کے متعلق ظہور اعوان کہتے ہیں:
'' ماریں بہت کھائیں، بہت مفلسی کا دور گزرا، گھر میں بجلی کا فقدان رہا، زیادہ تعلیم پرائیویٹ حاصل کی، اکثر شاہی باغ (پشاور) جاکر دوپہر کو پڑھا کر تے تھے۔شعبہ ء اْردو جامعہ پشاور میں دو سال اچھے گزارے، موجاں ہی موجاں، مگر عشق و رومانس کے بغیر۔ صرف پڑھائی اور اس میں ترقی پر توجہ رہی''۔
اْردو ادب کے بارے میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے تاثرات یہ تھے:
''ادب ایک مشن ہے اگرمشن نہیں تو کچھ بھی نہیں''۔
سیاسیات، انگریزی، اْردو، ہندکو اور پشتو زبانوں سے واقف ہونے کی بنا پر اْن کی گفت گو میں ایک عالمانہ شان ہر جگہ جلوہ نماہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مخاطب کو قائل کرنے میں وہ اکثر کامیاب رہتے ،جس طرح اْن کی شخصیت اندرو باہر سے پاکیزہ اور صاف ستھری تھی اسی طرح اْن کی گفت گو بھی واضح، غیر مبہم، پُر مغز ا ور پراز معلومات ہوتی۔ اْن کا طرزِ گفت گو بڑا محتاط انداز لیے ہوئے ہوتا ،جس سے کسی کی دلآزاری کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔
ظہور اعوان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ مطالعہء کْتب تھا۔ کتابوں سے آپ کو دلی محبت تھی۔ اْن کے کمرے میں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں پڑی ہوتی تھیں۔ وہ ان کی بہت حفاظت کرتے تھے۔ اْن کا بیشتر وقت مطالعے اور لکھنے میں صَرف ہوتا تھا۔ اْن کو نیند کم ہی آتی تھی اور وہ جب بھی نیند سے بیدار ہوتے تو فوراً لیمپ جلاتے اور کچھ لکھنا شروع ہو جاتے یا کتاب اْٹھا کر پڑھنے لگتے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ہمیشہ سچ کی جنگ لڑتے رہے۔ہمیشہ اْصولوں کی زندگی گزارتے رہے کبھی اپنے اْصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ آپ ہمیشہ پْر امن اور پْر سکون زندگی گزارنے کے قائل تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسی نابغہ روزگار ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، جو اپنے مقصد، نصب العین اور ملک و ملت کی مخلصانہ اور بے لوث خدمت کو عبادت سمجھ کر کرتی ہیں۔ ظہور اعوان جیسے لوگ معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔آپ کا انتقال۳ اپریل ۲۰۱۱ء میں ہوا۔ اللہ تعالی اْن کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ (آمین )
ظہور اعوان کی تصنیفات و تالیفات کی فہرست کچھ یوں بنتی ہے:
سفر نامے:
۱۔ دیکھ کبیرارویا،۲۔ امریکہ نامہ، ۳۔ دی امریکن ڈائری، ۴۔ بلیک پول تا بوسٹن۵۔ گنگا جمنا کے دیس میں، ۶۔ مشرق کا جنیوا،۷۔ گم شدہ سفر نامہ ۸۔ بون جور (انگریزی)۹۔ سفر تمام،۱۰۔ ابنِ بطوطہ کے خطوط۔
خاکے:
۱۔سب دوست ہمارے،۲۔ حسابِ دوستاں،۳۔ سیاسی چہرے
۴۔ چہرہ بہ چہرہ ۵۔سرِ دلبراں
رپورتاژ:
۱۔ دْھوپ چاندنی اور ہوا،۲۔ جہاں نما،۳۔ داستان تاریخ رپورتاژ نگاری، ۴۔ پودے، ایک تجزیہ،۵۔ ایک حقیقت ایک فسانہ
کالم نگاری:
۱۔ کالم کلامیاں۲۔ دِل پشوری،۳۔ بیکار مباش، ۴۔ فاسٹ فوڈ ۵۔ پچیسواں گھنٹہ ۶۔ سب سے پہلے پاکستان،۷۔اْنگلیاں فگار۸۔ اْردو ادبی صحافت
اقبالیات:
۱۔ دو اقبالؔ ۲۔ اقبال و علی شریعتی ،۳۔ علامہ اقبال و علامہ مشرقی ، ۴۔اقبال اور افغان
پاکستانیات:
۱۔ دوپاکستان ،۲۔ کشمیر انتفادہ (انگریزی)،
تراجم:
۱۔ گرفتار ہوا،۲۔ خواب گر کھلونے،۳۔ سائیں احمد علی (فلکیات)، ۴۔ پطرس نامہ
تحقیق و تنقید:
۱۔ نذرِ نظیرؔ (نظیر اکبر آبادی) ۲۔ نذرِ نیاز (نیاز فتح پوری ) ،۳۔ نگارشات ،۴۔ عسکری، میر اجی اور ساختیات ،۵۔ ظہور شوکت ، ۶۔مضامین رفتہ و گذشتہ ،۷۔سب رس ایک مطالعہ، ۸۔حدیثِ دیگراں
سوانح:
۱۔ کتاب سعید (حکیم محمد سعید مرحوم)۲۔ خان اعظم (خان عبدالقیوم خان) ۳۔ کاظم علی جوان۔
تاریخ:
۱۔ ترکی نامہ ۲۔ خْلاصہ تاریخ پشاور (گوپال داس) ۳۔پشور پشوراے (ہند کو) ۴۔پشاور دوسو سال پرانا۵۔ سائیں احمد علی (آثار و احوال)
خطوط:
۱۔ نامہ بر ہے کیا کہیے؟ ۲۔ خطوطِ دوستاں
اب تک ڈاکٹر ظہور احمد اعوان پر جو تحقیقی و تنقیدی کام ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
۱۔ ''ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے سفر نامے'' کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ۔مقالہ برائے ایم۔اے اْردو سال ۲۰۰۰ء مقالہ نگار:عظمیٰ سحر،شعبہ ء اْردو ،جامعہ پشاور
۲۔ ''داستان تاریخ رپورتاژنگاری '' فنی و فکری جائزہ
مقالہ برائے ایم۔ اے اْردو، سال ۲۰۰۷ ء ،مقالہ نگار: محمد قاسم، شعبہء اْردو ،جامعہ پشاور
۳۔ '' ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی سفر نامہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ'' مقالہ برائے ایم۔فل اْردو ،سال ۲۰۰۸ء مقالہ نگار :پروفیسر طاہرہ ڈار، شعبہ ء اْردو ،جامعہ پشاور
۴۔ ''ڈاکٹرظہور احمد اعوان کے ادبی کالموں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ'' مقالہ برائے ایم فل اْردو قرطبہ یْونی ورسٹی پشاور
۵۔ ''ڈاکٹر ظہور احمد اعوان بہ طور محقق و نقاد'' تحقیقی و تنقیدی جائزہ۔ مقالہ برائے پی ایچ۔ ڈی اْردو ،سال ۲۰۱۲ء زیرِ تحقیق مقالہ نگار پروفیسر گل نازبانو شعبہ ء اْردو، جامعہ پشاور۔
****
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا اثر تب سے ہے جب میں نے اُن کا پہلہ سفرنامہ "امریکہ نامہ" پڑھا۔ اُن سے پہلی ملاقات لوکل ٹرانسپورٹ میں بس میں ہوئی اور 5منٹ کے سفر میں جتنا میں اُن سے پوچھ سکتا تھا پوچھا اور اُنہوں نے خندہ پیشانی سے میرے تمام احمقانہ سوالات کا جواب دیا اور میرے استفسار پر "ددیکھ کبیرا رویا" کا مطلب بھی اتنے قلیل وقت میں سمجھا دیا۔ اُن کے کالمز تو میں روزنامہ آج میں روزانہ پڑھتا رہا ہوں اور بعد از اُن کے وفات اب بھی شائع ہو رہے ہیں اور ہم مستفید ہورہے ہیں۔ دوسری دفعہ اُن سے ملاقات ایک انٹرویو کے دوران بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ میں جب بھی اُن سے ملا، اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کوضرورملا۔ وہ میرے باقاعدہ اُستاد تو نہیں رہے مگر اُن کی تصانیف اور تحاریر کی وجہ سے میں بھی اُن کے اُن ہزاروں شاگردوں میں شامل ہوں جو اُن کی تخلیقات سے مستفید ہوتے ہیں۔ وہ میرے روحانی اساتدہیں، اللہ اُن کو کروٹ کروٹ جنت کی راحتیں نصیب فرمائے۔ آمین۔
ReplyDeleteکل گوگل میں تلاش کے دوران "ادارہ فروغ قومی زبان" کی ویب سائٹ کا یہ مضمون سامنے آیا جو کہ جناب عمر قیاز خان قائل کا تحریر کردہ ہے۔ اس میں ڈاکٹرصاحب کی زندگی کا مختصر خلاصہ جامعہ الفاظ میں پیش کیا گیا ہے جو کہ بشکریہ "ادارہ فروغ قومی زبان" آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارے کے لنکس مضمون کے ساتھ بحوالہ موجود ہیں۔