Friday 27 December 2013

December 27, 2013
1

یہ نہ تو انڈیا کے کسی شہر نہ ہی مقبوضہ کشمیر کے کسی بازار کی تصویر ہے جہاں پر اُن کی گاؤماتا کو ہر جگہ ہرطرف  گھومنے پھرنے کی بھرپور آزادی ہوتی ہےبلکہ جناب یہ تو مینگورہ شہر کے مصروف ترین بازار "نشاط چوک" کی تصویر ہے جہاں سے مین سڑک مینگورہ سے سیدوشریف کی طرف جاتی ہے۔ اس مقام سے مینگورہ میونسپل کمیٹی کا دفتر چند قدم کے فاصلے پر ہے۔
مینگورہ سمیت اکثر شہروں میں ہماری پالتو مویشی آزادانہ طور پر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں جو کہ بازاروں اور سڑکوں کی بھیڑ بھاڑ میں کسی بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں بلکہ کئی دفعہ تو مینگورہ کے تنگ بازاروں میں بے ہنگم ٹریفک اور ان آوارہ جانوروں کی وجہ سے کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ خاص کر بلدیہ مینگورہ کے دفتر کے آس پاس، مینگورہ کی مرکزی ندی اور مینگورہ شہر میں واقع فروٹ و سبزی منڈی کے اطراف میں توایسے جانوروں کی بہتات ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور کوڑہ کرکٹ بھی ان جانوروں کی آمد کا ذریعہ ہے۔ لیکن سب سے بڑی بات ہمارے اپنے گھر کی ہے، اپنے احتیاط کی ہے۔ اگر ہم گھر میں پالتو جانور شوقیہ یا بغرض ضرورت پال رہے ہیں تو پھر یہ فرض بنتا ہے کہ اُن کی حفاظت و خوراک کا خاص خیال رکھا جائےناکہ اُن کو اس طرح آوارہ چھوڑ دیا جائے۔  کچھ دن پہلے سوات سے آتے ہوئے راستے میں دوران سفر کئی دفعہ یہ مشاہدہ ہوا کہ بکریاں اور دوسرے جانور بڑی شاہراہوں پر اچانک گاڑی کے سامنے آگئے۔ وجہ یہ تھی کہ ہم آتے جاتے کھانے پینے کی فاضل اشیاء یا فروٹ وسبزی کے چھلکے عین سڑک کے درمیان پھینک دیتے ہیں جو کہ ان جانوروں کی توجہ بنتے ہیں اور وہ اس طرف آجاتے۔ اگر ڈرائیور جانور کو بچانے کی کوشش کرے تو خود وہ اور اس کے ساتھ بیٹھی سواریوں کے لئے جانی نقصان کا خطرہ ہوتا ہے اوراگر ایسا جانور یا پرندہ گاڑی کے نیچے آکر مر گیا تو پھر اس کا مالک اس میں سرخاب کی خوبیاں گنوا کر اصل قیمت سے کئی گناہ زیادہ وصول کرنے کی لالچ کرے گا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اپنی جان اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالے بغیر احتیاط سے کام لیا جائے۔ سڑکوں اور سڑکوں کے کناروں کو ہرطرح صاف رکھنے کی بھرپورکوشش کریں تاکہ ان جانوروں کی وجہ سے کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔ مگر سب سے بڑا جانور تو ہم خود ہیں، لاکھ جانتے ہوئے بھی ذرہ بھی احتیاط نہیں کرتے۔

1 comments:

  1. شکر کریں گائے ہے۔ ورنہ قصائیوں نے اس شہر کے چوکوں پر خون ہی خون بہایا ہے۔

    ReplyDelete