Monday, 30 December 2013

December 30, 2013
10
تصویر: روزنامہ "چاند" سوات

پروفیس سیف اللہ (مینگورہ، سوات)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کرے مقامی اخبارات کی یہ اطلاع غلط ہو، لیکن مقامی اخبارات نے علماٗ کے اُس مبینہ کفر کے فتوے کی خبریں چھاپی ہیں ، جو اُنہوں نے گورنمنٹ گیریزن ماڈل اسکول پٹن کے طلبہ اور اساتذہ پر لگایا ہے۔
روزنامہ چاند مینگورہ مورخہ پندرہ دسمبر۲۰۱۳ ؁ء کی شہ سرخی کے کچھ فقرے ملاحظہ کریں: \"پشام (بیورونیوز) کوہستان گورنمنٹ ٓرمی گیریزن ہائی اسکول پٹن میں ایس آرپی ایس کے تعاون سے دس دسمبر ۲۰۱۳ ؁ء کو طلبہ بزم ادب تقریب میں نظمیں پیش کرنے پرمقامی علما ء نے اسکول کے اساتذہ اور بچوں پر مبینہ طور پر کفر کا فتویٰ لگادیا ، جس پر اساتذہ نے اسکول سے غیر مبینہ مدت تک بائیکاٹ کیا، پرنسپل نے استعفیٰ دے دیا اور طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ مشتعل طلبہ نے مولویوں کے خلاف ایف آئی آر نہ کٹوانے پر پولیس اسٹیشن پر پتھراو کیا اور شاہراہِ قراقرم کو چھ گھنٹے تک بند رکھا۔ طلبہ کا مطالبہ تھا کہ بزم ادب کی تقریب میں ہم نے نظمیں پیش کیں ہیں، کوئی ڈانس نہیں کیا اور مقامی علماٗ نے ہمارے اساتذہ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ اب اساتذہ اسکول نہیں آرہے ہیں۔ ہم نے کون سا گناہ کیا ہے کہ ۔۔۔ جمعہ کے خطبہ میں علماء نے ہم پر فتویٰ لگایا ہے۔ طالب علم وسیم نے بتایا کہ جمعہ کے خطبہ میں مقامی علماء جن میں مولانا عبدالحلیم جاگوی، مولانا عالم زیب، مولانا خلیل اور مولانا عبداللہ شامل ہیں\"۔
اخبارات نے متعلقہ علماء کا نقطہ نظر شائع نہیں کیا، جس سے عمدہ نتیجہ نکالا جاتا لیکن پرنسپل کے استعفٰی اور چھ گھنٹے تک شاہراہ بند رکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ پٹن میں اس واقعے پر کافی کشیدگی واقع ہوئی ہوگی۔ ممکن ہے کہ اسکول انتظامیہ یا طلبہ نے کچھ ایسی نازیبہ حرکات کی ہوں، جن کو خطباتِ جمعہ میں بیان کیا گیا ہو۔ خطبات میں لانے سے قبل ان ممکنہ حرکات پر ضرور بات چیت اور \"لے دے\" ہوئی ہوگی۔ پٹن کوئی بڑا قصبہ نہیں۔ چار علماء کا خطبات میں اس واقعے کا ذکر اور مبینہ کفر کا فتویٰ کسی غیر معمولی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر پرنسپل کا استعفٰی اور اساتذہ کا اسکول سے بائیکاٹ معاملے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
کفر کا فتویٰ، علماء ، طلبہ ، اساتذہ اور پرنسپل کا استعفٰی اور عنقریب بچوں کے امتحانات یہ ایسے اُمور ہیں کہ صحیح صورتحال کو پریس رپورٹر حضرات معلوم کرکے شائع کروائیں۔ خصوصاً علماء کا موقف اور اُن کی آراء سے عوام کو مطلع کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ سنگین ہوجائے اور بے خبری میں مزید بگڑ جائے۔
ہمیں دینی علوم حاصل نہیں ہیں اور نہ ہم نے کوئی مفتی کورس کیا ہوا ہے کہ ہم فتوے کے لئے درکار حقائق جانیں، لیکن ہمارے علمائے دین ان اُمور پر عبور رکھتے ہیں۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہوگا، جب بات فتوے کی حد تک پہنچی۔ حالانکہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ مسلمانوں حتیٰ کہ مذہبی لوگوں میں بھی قابل ذکر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جو کافی پریشان کن ہوتے ہیں۔ لیکن اُن کی وجہ سے کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگتا۔ ہم میں سے بے شمار لوگ اُن حدود اور احکامات کو روز توڑتے رہتے ہیں، جو قرآن کریم میں مذکورہیں۔ اُن پر مولوی حضرات کفر کے فتوے صادر نہیں کرتے۔ قتل جیسی واردات کو کبھی کفر کادرجہ نہیں دیا گیا۔ کسی کھلی محفل میں جس میں ناچتے گاتے ہیں ایسی واردات کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ کوئی شخص یا اشخاص اسلام کی حدود سے نکل جائیں۔ موجودہ معاملے میں ایک نہیں چار علماء کا نام لیا جاتا ہے۔ ایک مولوی ہوتا تو ہم فرض کرسکتے تھے کہ اُنہوں نے جو ش ایمانی سے مغلوب ہوکر غیر ضروری فتویٰ داغ دیا ہوگا، لیکن یہاں چار علماء ہیں اور جمعہ کے خطبات کا ذکر ہے۔ آج کل مذہبی حضرات کے خلاف کافی گرم بازاری ہے۔ اس لئے معاملے کو بڑھنے نہ دیا جائے بلکہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کروا کر حقائق کو عوام کے سامنے لایا جائے، اگر مولوی حضرات نے فتوے کا میزائل واقعی چلایا ہو، تو اُن کو بھی مقامی عدالت میں جاکر اپنے اقدام کو شریعت کے اُصول و حدود کے معیار درست ثابت کرنا چاہئے کیونکہ اسلام سے خارج ہونے کا مطلب ہے مرتد ہونا اور مرتد کی سزا قتل بتائی جاتی ہے۔ پھر کافر ہونے کے لئے ایک یا ایک سے زائد گناہ علماء بتاتے ہیں۔ یہاں نابالغ بچوں کا بھی ذکر آرہا ہے، جن کے لئے شریعت نے الگ معیار بتائے ہیں۔
بہت بہتر ہوگا ، اگر حکومت قانون سازی کرکے کفر کے فتوؤں (جن کی وجہ سے عوام میں بے چینی اور بدامنی پیدا ہوتی ہے) کا اختیار جید علماء اور فقہاء اور ماہرین کے ایک مجلس یا اسلامی نظریاتی کونسل یا فیڈرل شریعت کورٹ کے حوالے کردے اور عام مولویوں کو پابند کروادے کہ وہ اگر کہیں ارتکاب کفر دیکھیں تو مناسب شہادتوں کے ساتھ مجاز مجلس علماء وفقہاء وغیرہ کے پاس جائیں یا قریبی عدالت سے رجوع کیا کریں، خود فتوؤں کے تیر نہ برسائیں۔
فی زمانہ لوگ کسی مولوی پر بھی حملے کرسکتے ہیں اور مساجد ومدارس پر بھی۔ جوش کی جگہ ہوش سے کام لینا اچھا ہوتا ہے۔

10 comments:

  1. نہایت متوازن تحریر ہے۔ مگر ان فتاویٰ کا سبب معلوم ہونا از حد ضروری ہے۔

    ReplyDelete
  2. فی الحال تو فتوے کی وجوہات کا علم نہ ہوسکا،اسلئے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    شائد رپورٹر نے جانبین کی پوری رپورٹنگ نہیں کی ہے۔
    بہرحال صاحب تحریر سے متفق

    ReplyDelete
  3. مجھے تو یوں لگتا ہے کہ رپوٹر نے جان بوجھ کر یک طرفہ کاروائی کی ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں سے بیشتر صرف مال بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں اور زیادہ مال مذہب دشمنوں کے پاس ہے ۔ اسے آجکل کی زبان میں کہا جائے تو یوں ہو گا
    The control is in the hands of capatalist

    ReplyDelete
  4. واقعی آج کل "مولوی" کے نام پر جید علماء
    کو بھی جان بوجھ کر رگڑا دیا جاتا ہے۔ جبکہ ایک حدیث کا مفہوم تو یہ ہے کہ علماء انبیا کے وارث ہیں۔
    اس معاملہ کے لیے اصل حقائق جاننا ضروری ہیں۔
    ایسی صورتحال میں متوازن تحریر دیکھ کر خوشی ہوئی۔

    ReplyDelete
  5. بہت افسوسناک خبر ہے، ہمارے علماء کرام پر اللہ اپنا کرم کرے ابھی تک 200 سال گزشتہ کی ایرا میں جی رہے ہیں، اور لطف یہ یہ جس بات کا انکو علم نہین ہوتا اسکی حقیقت کا تسلیم ہی نہین کرتے۔ جن معاملاات میں قرآن و حدیث خاموش ہے کہ انکی کچھ زیادہ اہمیت نہین ان پر بھی کفر کا فتویٰ تھونپ دیا جاتا ہے

    ReplyDelete
  6. یا شیخ نون و القلم۔
    جدھر سے دھواں اٹھتا ہے ادھر آگ ضرور ہوتی ہے۔
    مولوی "ایویں" تو "کفر" کا فتوٰی نہیں دے دیا کرتے۔
    لازماً کچھ کیا ہوگا۔
    اور خاص طور پر جب چار مولوی ہوں تو پھر تو بات یقیناً کچھ نہ کچھ ہوگی ۔۔۔۔۔
    ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔
    اگر کالا نہ ہوتا تو اکٹھے چار مولوی ایک سکول کے خلاف "کفر" کا فتوٰی کیوں دے دیتے۔
    ہیں جی۔ ایک نہ دو۔ اکٹھے چار۔
    ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔

    اس قسم کے کالے پر یقین کر کے آپ ابھی تک دیوبندیوں، بریلویوں، قادریوں، تکفیریوں، وہابیوں وغیرہ وغیرہ کو مسلمان سمجھتے ہیں یا کافر۔ ۔ ۔

    ان میں سے ہر ایک کی تکفیر میں تو چار مولوی نہیں بلکہ ۔۔۔۔
    چلیں چھوڑیں۔

    تقریب میں کیا کفر ہو رہا تھا۔ کچھ معلوم ہوا۔؟؟؟

    ReplyDelete
  7. کہیں وندے ماترم تو نہیں پڑھوادیا ہے ان بچوں سے۔۔۔۔۔
    آج کل بھروسہ کسی کا بھی نہیں ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  8. ان جید علما نے کبھی ٹی وی چینلز پر کفر کا فتویٰ کیوں نہیں لگایا۔ میرا خیال ہے سکول میں جو کچھ بچوں نے کیا ہو گا وہ کم از کم ان سب حرکات سے تو کم ہو گا جو ہمارے ٹی وی چینلز پر 26 گھنٹے چلتا رہتا ہے۔

    ReplyDelete
  9. تمام احباب کا تبصرہ کرنے پر شکریہ

    ReplyDelete