Tuesday, 31 December 2013

December 31, 2013
3
 کچھ دن پہلے اپنے پاسپورٹ کے دوبارہ اجراء کے سلسلے میں سوات پاسپورٹ آفس جانا ہوا، جہاں پر کچھ دلچسپ چیزیں بھی سامنے آئیں، سوچا آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کروں۔ 
مینگورہ  ضلع سوات کا مرکزی شہر ہے۔ تمام سرکاری دفاتر مینگورہ اور سیدو شریف میں واقع ہے، بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتی ہوئی زمین کی وجہ سے مینگورہ سیدوشریف میں کسی بھی سرکاری ادارے کے لئے دفاتر کے قیام کے لئے زمین دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی سوات کے عوام اتنے حب الوطن ہیں کہ اپنی طرف سے قیمتی زمینیں وقف کرسکیں جس کی سب سے بڑی مثال یہاں کے لڑکوں کا ڈگری کالج ہے جو اپنے قیام سے ابھی تک ایک کرائے کی عمارت میں قائم ہے اور سیاسی چپقلشوں اور ہر بندے کی اپنے فائدے کی مدنظر اپنی عمارت سے محروم ہے۔ایسے ہی اداروں میں سے ایک سوات پاسپورٹ آفس بھی ہے جو کہ سوات کی واحد باقاعدہ ٹاؤن "کانجو ٹاؤن شپ" میں تعمیر کیا گیا ہے جو کہ مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ درمیان میں دریائے سوات کو عبور کرنا ہوتا ہے جس پر سوات سٹیٹ کے وقت کا واحد پل 2010کے سیلاب میں بہہ گیا تھا جس پر ابھی تک کام ہورہا ہے اور ہر سال دریا کی تغیانی ٹھیکیداروں کے کام کا کچھ نہ کچھ حصہ بہا کر لے جاتا ہے جس کی وجہ سے زیر تعمیر پل ابھی تک زیر تعمیرہی ہے جبکہ یہ پل آمدورفت کے لحاظ سے بہت اہم بھی ہے جو کہ سوات کی ایک بڑی آبادی کو آپس میں ملاتا ہے۔ آرمی کا بنایا ہوا عارضی پل بھی موجود ہے مگر وہ اُن کاہے۔
پاسپورٹ آفس کی بات ہو رہی تھی، یہاں اگر آپ کو پاسپورٹ بنانا ہے تو پہلے مینگورہ میں نیشنل بینک میں فیس جمع کرنی ہوگی پھر آپ کو یہاں آنا ہوگا اگر میری طرح پھوہڑ دماغ نکلے تو پھر دوچکر لگانے ہونگے کیونکہ پاسپورٹ آفس میں بینک کی کوئی شاخ نہیں ہے اور جو کاؤنٹر بنایا گیا تھا وہ یوں نظر آتا ہے جیسے صدیوں سے ویران ہو۔ ہاں اگر آپ کا کوئی جاننے والا، دوست یا رشتہ دار پاسپورٹ آفس میں ہو تو پھر کوئی فکر دی گل نئی اے جناب۔۔۔ سمجھیں آپ کا کام ہوگیالیکن اگر عوام میں سے ہیں تو پھر جناب کانجوٹاؤن شپ سے مینگورہ اور مینگورہ سے یہاں کے چکر لگانے پڑیں گےاورجب واپس آئیں گے تو آفس ٹائم ختم۔ اگر آپ کے پاس اپنی گاڑی ہے تو ٹھیک ورنہ پھر رکشہ اور ٹیکسیوں کے ڈرائیورز کے رحم و کرم پر کہ جتنے میں لوٹ لیا یہاں آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے۔
کسی زمانے میں پاسپورٹ آفس کو شاید اچھا فرنیچر اور دوسرا سازو سامان بھی دیا گیا ہوگا لیکن وہی کاہلی اور نااہلی، سرکاری اہلکاروں کا فرعونانہ رویہ اور اُوپر سے ہم لوگوں کا طور طریقہ آفس کھنڈرات میں تبدیل ہوا ہی چاہتا ہے۔ زیر نظر تصویر ایک خوبصورت فانوس کی ہے جس میں چڑیوں نے اپنے گھونسلے بنائے ہوئے ہیں۔ ویسے مجھے بہت اطمینان محسوس ہوا کہ یہاں کا سست اور کاہل درجہ چہارم کا عملہ قدرتی حیات کا بہت خیال رکھتے ہیں اور اُن کو یہاں رہنے کی اتنی شاندار جگہ دی ہے گھونسلہ بنانے کی۔
یہاں پر تمام تر کام نمبر پر ہوتا ہے جو کہ کمپیوٹرائزڈ طریقہ کار ہوتا ہے مگر کمپیوٹر آپریٹرز اور تصاویر بنانے والے کا رعونیت بھرا تحقیر آمیز رویہ جان لیوا ہوتا ہے۔ ایسے سوال کرتےہیں جیسے کوئی بہت بڑا مجرم اپنا بائیوڈیٹا قید خانے میں جمع کرنے آیا ہو۔ تمام پراسس سے گزر کمپیوٹر آپریٹرمطلوبہ کوائف کا جو فارم دے دیتا ہے اُس کی تصدیق کے لئے اسسٹنٹ ڈائیریکٹرکے آفس کے باہرانتظار کرنا پڑتا ہے۔ انتظار چونکہ طویل تھا اس لئے سوچا ایک نظر اس فارم پر ہی ڈالوں، یہاں ایک حلف پر دستخط یا انگوٹھے کا نشان ثبت کرنا تھا۔ یہ فارم انگریزی زبان میں تھا جس کا عکس درجہ ذیل تصویر میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ اس فارم میں مسلمانوں سے جو حلف لیا گیا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریمﷺ کے آخری نبی ہونے کی شہادت اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تصدیق لی گئی ہے۔ غیر مسلموں کے لئے  کیا شرائط ہیں یہ معلوم نہیں ہوسکاکیونکہ حال میں ڈھونڈا تو سہی لیکن کوئی نہ ملا۔ خیر یہاں ایک صاحب بیٹھے اُسی قہر آمیز لہجے میں بلا بلا کر لوگوں سے انگوٹھے اس انداز سے لگوا بلکہ ٹھوک رہے تھے جیسے جانی دشمن کے ہاتھ لگ جائیں اور پھر اگر کوئی سوال کرو تو نہایت ہی بدتمیزی سے جواب الگ ملے گا۔ بس دھڑادھڑ انگوٹھے لگاؤ جی۔ میں نےہال میں بیٹھے ہوئے بہت سارے لوگوں سے پوچھا کہ بھئی جس فارم پر آپ نے انگوٹھے لگائیں ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے اور کس لئے انگوٹھے کا نشان ثبت کیا ہے تو تقریباً سب ہی نے کہا کہ پتہ نہیں بس لگوالئے۔ میرا اگلا سوال یہ تھا کہ اگر یہ فارم "اُردو"زبان میں ہوتا تو کیا آپ پڑھتے تو تقریباً سب ہی نے مثبت جواب دیا۔  لوجی، وہاں موجود افراد میں سے جن جن سے میں نے پوچھا اُن میں سے 5 بالکل ناخواندہ،  7 انڈر میٹرک، 3انٹر اور 4 ماسٹر تک تعلیم یافتہ تھے۔ ماسٹر اور 1انٹر والے نے کہا کہ ہم انگلش سمجھ سکتے ہیں لیکن یہ فارم پڑھا نہیں جبکہ باقی نے کہا کہ اگر اُردو میں ہوتا تو ضرور پڑھتے۔
یہاں بات کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ حکومت تو اپنی طرف سے بھر پور کوشش کرتی ہے لیکن طریقہ کار اتنا طویل اور صبر آزما ہوتا ہے کہ بس اور اُوپر سے سرکاری سٹاف کا رویہ۔ مگر جب ایک چپڑاسی نہایت ہی غصے والے انداز میں مجھے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے کمرے میں تقریباً دھکیل کر لے گیا تو ڈائریکٹر صاحب کی گولڈ لیف والے بابا کی سی باوقار صورت اور نہایت نرم اور دوستانہ لہجے ضروری جانچ پڑتال اور پاسپورٹ وصولی کی ہدایات نے تمام گلے شکوے دور کردیئے۔ جب میں پاسپورٹ آفس سے باہر آیا تو جمعے کی نماز کی آذانیں گونج فضاؤں میں رہی تھیں، اپنے مولا کا شکر ادا کیا کہ چلیں کوئی نہ کوئی تو ہے جو نرم لہجے میں بات کرکے سائلین کی داد رسی کرتے ہیں۔پاسپورٹ وصولی کے لئے جو رسید لکھ کر دی تھی اُس کے پشت پر پاسپورٹ کے بارے میں جانچ پڑتال کے لئے ایس ایم ایس سروس کا نمبر 9988 دیاگیا ہے جس پر ایس ایم ایس کرکے اپنے پاسپورٹ کے بارے میں جان سکتے ہیں، کچھ دن بعد اُس پر ایس ایم ایس کیامگر ابھی تک اُس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا، ہاں البتہ پاسپورٹ مقررہ تاریخ پر مل گیا۔


3 comments:

  1. خان جی پورے ملک میں اہلکاروں کا یہی رویہ ہے جیسے وہ تھانیدار ہوں اور ہم مجرم۔
    یہاں جو بھی کرسی پر بیٹھتا ہے خواہ وہ چپڑاسی کی کیوں نہ ہو اس کی گردن میں اکڑ اور رویے میں درشتی آنا لازم ہے
    لہذا یہاں بھی برداشت کریں ورنہ کوئی بڑی سفارش لے کر جائیں پھر دیکھیں خوش اخلاقی عملے کی

    ReplyDelete
  2. Ji im agree with you same in whole country , when they don't have job they're crying but when they got it they they forget the moral and sense

    ReplyDelete
  3. ہر پاسے ایک ہی حال ہے سائیں
    اوپر والے فارغ ہونگے تو کسی کی بہتری کے بارے میں سوچیں گے ناں

    ReplyDelete