Monday 23 December 2013

December 23, 2013
3


پانی زندگی کے لئے ایک ہم عنصرینعی "پانی زندگی ہے"۔ اللہ پاک نے ہماری سرزمین کو پانی کے نعمتوں سے نوازہ ہے، چشمے، دریا، ندی، نالے، جھیل اور سمندر۔ پچھلے دنوں دوستوں کے ساتھ دریائے سوات پر جانے کا اتفاق ہوا۔ مانیار گاؤں کے قریب ہمارا دریا کے کنارے پکنک کا پروگرام تھا اور ہماری طرح بہت سارے سوات کے باسیوں سمیت پاکستان کے قریہ قریہ سے سیاح سوات کی حسین وادی کےحسن اور دریائے سوات کے یخ بستہ پانیوں سے لطف اندوز ہونے کے لئےدریائے سوات کے کنارے پکنک منانے کے لئے آتے رہتے ہیں۔ دریائے سوات کا پانی معدنیات سے بھرپور چشموں اور برفانی گلیشیئرز کا پانی ہے۔ جہاں یہ پانی اپنا ایک مخصوص خوشگوار ذائقہ لئے ہوئے ہے وہاں صحت افزاء ہونے کے ساتھ ساتھ فرحت بخش بھی ہے۔ دریائے سوات میں یہاں کی مقامی مچھلیوں کی کئی چھوٹی بڑی اقسام کے ساتھ ساتھ  ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔ چونکہ ٹراؤٹ مچھلی بہت زیادہ ٹھنڈے پانی میں پرورش پاتی ہے اس لئے یہ زیادہ تر مدین اور اس سے اُوپر کےعلاقوں میں ہوتی ہے جبکہ باقی مچھلیاں تمام دریا میں پائی جاتی ہیں۔ دریائے سوات کی کل لمبائی 250کلومیٹر ہے جبکہ وادی سوات میں یہ دریا 160کلومیٹر کی لمبائی تک بہتا ہے۔ کالام کے مقام پر دریائے اُتروڑ اور دریائے اُشو کے پانیوں کے ملاپ سے دریائے سوات کی شروعات ہوتی ہیں۔ جس کے ساتھ ساتھ کئی چشموں، ندی نالوں اور جھیلوں کا پانی مل کر اس کی طاقت کو بڑھاتے ہیں۔ مینگورہ تک دریائے سوات میں گہیل، مانکیال، درال، چیل، بروائی، جامبل اور مرغزار کی ندیاں ملتی ہیں اور سوات کے وسیع علاقے کو اپنے شفاف پانی سے سیراب کرتا چلا جاتا ہے۔  

مگر زمانے کی جدیدیت اور ہم لوگوں کی نااہلی کی ستم ضریفی کی وجہ سے اب دریائے سوات کا پانی کسی گندے نالے کے پانی کی مانند گدلا ہوچکا ہے۔ پہاڑوں پر سے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے زرخیز مٹی اس پانی میں شامل ہوتی جا رہی ہے جبکہ 2010کے تباہ کن سیلاب اور دریائے سوات میں طغیانی نے اس کی ہیت ہی بدل ڈالی ہے۔ ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین اس کی نظر ہوگئی، گاؤں کے گاؤں اُجڑ گئے۔ سیلاب اور طغیانی کی وجہ سے وسیع پیمانےپر نقصانات ہوئے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم لوگ ترقی تو کررہے ہیں، عمارات، سڑکیں، مارکیٹ اور بازار تو بنا رہے ہیں مگر اپنے قدرتی اثاثوں کی تحفظ اور بقاء کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ بڑھتی آبادی کی وجہ سے گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام ان نئی آبادیوں میں زیرغور نہیں لایاجاتا۔ وادئی سوات کی جتنی آبادی ہے اس کا تمام کا تمام گندے پانی کا رخ بے دھڑک دریائے سوات کی طرف موڑاجاتا ہے۔ کالام سے لے کر مینگورہ اور اسے سے آگے تک دریائے سوات کے کنارے جتنے ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز اور ریسٹورینٹس بنے ہوئے ہیں سب کے فلش سسٹم اورگندے پانی کو دریائے سوات میں ڈالا جاتا ہے۔ حکومت شاید ہی کوئی اقدام اُٹھاتی ہوگی اور اگر غلطی سے اس کے خلاف کوئی نوٹس وغیرہ دے دیا جاتا ہے تو ہماری قوم کی ازلی بے ایمانی کی روح جاگ اُٹھتی ہے اور چند کرارے نوٹ یہ نوٹس ایسے غائب کردیتے ہیں جیسے کہ کبھی ایشو ہی نہ ہوے ہوں۔ ہسپتالوں، گھروں اور بازاروں کا فضلہ اس دریا میں ڈالنا کوئی نئی بات نہیں، جس کی وجہ سے اَب یہ پانی استعمال کے قابل نہیں رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ بہتا پانی پاک ہوتا ہے، مگر دریائے سوات کے پانی کو دیکھ کر ہاتھ پاؤں دھونے کو بھی دل نہیں چاہا۔ اب یہ پانی صرف آبپاشی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں سے پوچھا تو اُنہوں نے یہی کہا کہ اب دریا کے پانی کا استعمال کھانے پینے کے لئے ترک کردیا گیا ہے۔ پہلے دریا میں مچھلیاں بھی اچھی خاصی مقدار میں ہواکرتی تھیں اور یہاں کے مقامی باشندے جال اور کنڈوں کے ذریعے اس کا شکار بھی کیا کرتے تھے مگرغیر قانونی اور بے دریغ شکار اور شکار کےلئے زہریلے کیمیکلز، میتھین گیس،اور دوسرے آتشی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بجلی کے کرنٹ  نے مچھلیوں کی مقدار بہت کم کردی ہے۔ شکار کے ان تمام غیر قانونی حربوں کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں استعمال کئے جانے والے زہریلے سپرے، کھاد اور دوسرے مواد بھی کھیتوں سے نکاسی آب کے زریعے دریائے سوات میں شامل ہوتےہیں جس سے یہاں کی حیاتیاتی نظام کو بہت نقصان پہنچا ہے جبکہ وادئی سوات میں بغیر کسی اجازت قائم کارخانوں کے فضلے کی وجہ سے ندی نالوں میں انڈسٹریل ویسٹ کی وجہ سے بھی پانی آلودہ ہوتا جارہا ہے۔  ایم ایم اے کی حکومت میں اُس وقت کے مینگورہ شہر کے ایم پی اے صاحب کی کوششوں سے مینگورہ(سوات) کے لئے  کوڑاکرکٹ تلف کرنے کا ایک منصوبہ اورشہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کا ایک منصوبہ بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کیا گیا تھا، مگر میرے خیال میں اُن کے بعد اس پر کسی نے کوئی غور و فکر نہیں کیا اور اگر یہ منصوبے تکمیل تک پہنچے بھی ہیں تو آج بھی مینگورہ میں میرے گھر کے سرکاری نل میں آدھا گھنٹہ گدلا اور مٹی سے بھرپور پانی آتا ہے جبکہ آدھے گھنٹے کے بعد پھر صرف ہوا اور کوڑاکرکٹ کے نظام کو اگر دیکھنا ہوتو مینگورہ میونسپل کمیٹی کے دفتر کے سامنے ندی کی حالت زار ملاحظہ کیجئے۔ موجودہ ایم پی اے صاحب سے درخواست ہے کہ اس طرف بھی نظر کرم فرمائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ کسی کی مدد کا انتظار کئےبغیر اپنی مدد آپ کے تحت ایسے اقدامات اُٹھائیں جن سے نہ صرف قدرتی ماحول کی حفاظت ہوسکے بلکہ معدوم ہوتی ہوئی حیاتیاتی نظام  کو بھی بچایا جاسکے۔ اگر ہم لوگ پکنک وغیرہ کے لئے جائیں تو اپنے ساتھ وہ اشیاء جو ناقابل استعمال ہوجاتی ہیں اُن کو واپس لائیں اور مناسب طریقے سے اُن کو تلف کریں۔ دریا کے پانی کو گندگی اور کوڑے کرکٹ سے آلودہ نہ کریں اور نہ ہی فلش و گٹر کے غلیظ پانی کو دریا میں ڈالیں بلکہ ان کے لئے کوئی متبادل نظام وضع کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا جائے۔ آج کل ہمارے دریا اور ندی نالے گندگی سے لبریز نظر آتے ہیں۔ مینگورہ شہر کے درمیان سے گزرتی ندی اس کا بہترین مثال ہے۔ ہمارے والدصاحب کہتے  ہیں کہ بچپن میں ہم اس ندی میں مچھلیاں پکڑا کرتےتھے مگر اب اس میں غلاظت اور کوڑے کرکٹ کی بھرمار ہے۔ سال میں ایک یا دو دفعہ جب بارشوں کا سیلابی ریلہ آتا ہے تب ہی یہ ندیاں صاف ہوتی ہیں بلکہ کنارے پر آبادی کو بھی خاطر خواہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ زیر نظر تصویر دریائے سوات کے کنارے کی ہے جس کے ہر کنارے یہ گند موجود ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پر تمام تر ضمہ داریاں ڈالنے کے بجائے اُن کےساتھ ساتھ ہم عوام مل کر اپنے آس پاس کے ماحول کا خیال رکھیں، یہ نعمتیں، نظاریں، دریا، ندی نالے اور سمندر ہماری آنے وای نسلوں کی امانت ہیں جن کی ہم نے حفاظت کرنی ہے۔
سوات اور دریائے سوات کے بارے میں مزید معلومات کے لئے انگریزی ویب سائٹ "ویلی سوات۔نیٹ" کی ویب سائٹ پیش خدمت ہے، جہاں پر سے آپ سوات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔

3 comments:

  1. بس اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے نعیم بھائی ۔۔۔۔۔ کاش کوئی حکومتی ادارہ اس طرف توجہ دے

    ReplyDelete
  2. دریائے سوات کی آلودگی کا پڑھ کر دکھ ہوا ۔ اس سے تو اس دریا میں پائی جانے والی مچھلیاں بھی ختم ہو جائیں گی ۔ میرے اکثر ہموطن سب کچھ حکومت کے ذمہ ڈال کر چین کی نیند سوتے ہیں ۔ خود ہر چیز کو برباد کرتے جا رہے ہیں

    ReplyDelete
  3. یہ ایک عجیب بات ہے کہ جہاں بھی معمولی سا بہتا پانی یا کوئی کہائی نظر آئی ،تو بس گٹر کا پانی وہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    بات دراصل یہ ہے کہ قوم میں سوچنے کی صلاحیت کی کمی ہے،ورنہ تو ضرور اسکا متبادل نکال لیتے۔

    ReplyDelete