Thursday 16 January 2014

January 16, 2014
3
کچھ دن پہلے جرمن اشاعتی ادارے ڈی ڈبلیو کا ایک فیچر نظر سے گزرا جس میں فیس بک لائک پر بہت ہی دلچسپ انداز میں بات کی گئی تھی کہ کس طرح لوگ اپنے اکاؤنٹ پر لائک حاصل کرتے ہیں اور کیسے کیسے رقم خرچ کرتے ہیں۔رپورٹ کا پورا متن تحریر کے آخر میں موجود ہے۔ 
لائک کرنا اور نہ کرنا پڑھنے یا دیکھنے والے کی صوابدید پر ہوتا ہے، لیکن اگر آپ کی تحریر، تصویر یا ویڈیو بہترین ہوتو پھر اس کو پسند کرنے کے لئے لائک کے بٹن پر کلک کرنے کا حق بنتا ہے۔ ویسے تو یہ ایک چھوٹا سا ایک بٹن ہے مگر تحریر لکھنے والے، تصویر یا ویڈیو بنانے والے کے لئے ایک قاری/ناظر کا ایک لائک کلک بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مزہ تب آتا ہے جب آپ کی تحریر یا تخلیق کو کوئی سینئر لائک کرے، اُس وقت اندرونی خوشی کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ میں تو خود بہت ہی سکون اور اطمینان محسوس کرتا ہوں جب میری ناتجربہ کاری کے باوجود کوئی میری تحریر کو پسند کرکے مجھے شرف عزت بخشتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اور کام کرنے بلکہ اور بہتر کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ہے تو یہ چھوٹی سی بات اور شاید بہت سارے لوگ اس کو اہمیت نہ دے مگر اس کا رزلٹ کافی بہتر ہوتا ہے اور ویسے بھی کسی کے کام کو سراہنا اور اُس کی حوصلہ افزائی کرنا ایک بہترین امر ہے۔ 
لیکن ایسے بھی بہت سارے لوگ موجود ہیں جو آپ کی تحریر کو پڑھتے بھی ہونگے، تصویر یا ویڈیو کو دیکھتے بھی ہونگے مگر وہ کبھی بھی ایک لائک کا بٹن دبانے کی زحمت گوارہ نہیں کریں گے، حالانکہ آپ کے لئے اُن کی ایک کلک، چھوٹی سی پسندیدگی بہت بڑی معنی رکھتی ہوگی۔ مگر نجانے کیوں وہ لوگ کبھی بھی آپ کو یہ شرف نہیں بخشیں گے۔ میں نے ایسے بہت سارے قریبی اور سینئر دوستوں کو دیکھا ہے جنہوں نے کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی، حالانکہ اُن کا ایک کلک بہت ساری توانائیاں دے سکتا تھا یا شاید ہماری کوئی تحریر اُن کے معیار کے مطابق نہ ہو اور یہ بھی ایک حوصلہ افزائی ہی ہے کہ انسان اپنی تحریر یا کسی اور تخلیق میں اور بہتری لائے لیکن تھوڑی مایوسی ہوتی ہے جبکہ لائک کلک کرنے پر مثبت توانائیوں کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی ملتی ہے جو کسی بھی ایوارڈ یا ریوارڈ سے کم نہیں۔ 
لیکن کیا کہنے جی، ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق تو لوگ لائکس پیسے خرچ کرکے خریدتے ہیں اور ایک پوری کی پوری انڈسٹری اس کے پیچھے کارفرما ہے۔ شاید ہمارے اُن سینئر قارئین احباب کو اپنی لائک کی ویلیو کا پتا ہوگا اس لئے وہ ہم جیسے ایرے غیرے نتھوخیروں کی عام سی پوسٹ پر اپنی قیمتی لائک کو ضائع نہیں کرنا چاہتے ہونگے۔ مگر تعجب اُس وقت ہوتا ہے جب اُن سے بھی اچھے،سینئر اور بڑے صحافی، ادیب، دانشور ہم جیسے لوگوں کی فضول سی پوسٹ کو بھی لائک کرکے حوصلہ افزائی کرتے ہیں توپھر ان کے لئے کیا وضاحت بچتی ہے۔
خیر چھوڑیے یہ گلے شکوے لیجئے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ پڑھیں شاید آپ کو بھی اچھی لگے:۔

کلِک کلِک: فیس بک پر فرضی لائیک کا اُبھرتا ہوا کاروبار

شوبز دنیا کے بڑے بڑے ستارے اور کاروباری شخصیات، یہاں تک کہ امریکی وزارت خارجہ بھی پیسے دے کر سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت بڑھا رہی ہے۔ یہ سب فیس بک پر فرضی لائیک اور ٹوئٹر پر فرضی فالورز خرید رہے ہیں۔
فرضی لائیک اور فالورز کے چکر میں دنیا بھر میں ایسے ’’ کلِک فارمز‘‘ بن چکے ہیں، جہاں لوگ دن بھر بیٹھ کر ماؤس کے ذریعے صرف کلِک، کلِک کرتے رہتے ہیں۔ یو ٹیوب ویڈیوز کے شیئرز کا معاملہ ہو یا پھر فیس بک پر لائیک بڑھانے کا، ان لوگوں کی خدمات ہمہ وقت حاضر ہیں۔ دس سال پہلے جب فیس بک بنا، تو بہت سے افراد نے اپنے مالی فوائد کے لیے سوشل نیٹ ورکنگ کا استعمال شروع کیا اور نئے دوست بناتے ہوئے کاروباری فوائد حاصل کیے گئے۔
فرضی لائیک کا کاروبار
امریکی نیوز ایجنسی اے پی کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں مختلف کمپنیاں اور مشہور شخصیات جعلی کلک خرید رہی ہیں۔ آن لائن ریکارڈ، انٹرویوز اور تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کا کام کرنے والے کروڑوں کی کمائی کر رہے ہیں۔ اگر ایک کلک یا لائیک کے لیے نصف سینٹ بھی وصول کیا جائے تو یہ کمائی کا ایک بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایک اطالوی سکیورٹی ریسرچر اور بلاگر آندریا سٹروپا کا دعویٰ ہے کہ سن 2013ء میں ٹوئٹر کے فرضی فالورز کے ذریعے 40 سے 360 ملین ڈالرز کا کاروبار کیا گیا۔ اسی طرح فیس بک کی جعلی سرگرمیوں کے ذریعے ایک سال میں تقریباﹰ 200 ملین ڈالر کمائے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی کمپنیاں اپنی کئی رکنی ٹیموں کے ہمراہ فرضی کلکس کی خرید و فروخت کا کاروبار کر رہی ہیں۔ اگر ان کمپنیوں کا کوئی ایک طریقہ ناکام بنایا جاتا ہے، تو یہ کسی نئے طریقے سے مارکیٹ میں ابھر آتی ہیں۔ ان کمپنیوں نے مختلف سافٹ ویئرز بھی تیار کر رکھے ہیں، جو خود کار طریقے سے کلکس بڑھاتے رہتے ہیں۔ یو ٹیوب نے ایسی کئی ویڈیوز کو ڈیلیٹ کیا ہے، جن پر فرضی طریقے سے بہت زیادہ ویوز دکھائے گئے تھے۔ یو ٹیوب کے علاوہ گوگل کمپنی بھی اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ فیس بک کی تازہ سہ ماہی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ اس کے 1.18 ارب ایکٹیو یوزرز میں سے تقریباﹰ 14.1 ملین جعلی ہیں۔
ڈھاکہ ’کلک فارمز‘ کا عالمی مرکز
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی آبادی تقریباﹰ سات ملین ہے اور اسے’کلک فارمز‘ کا عالمی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ ڈھاکہ میں سوشل میڈیا پروموشن کمپنی (یونیق آئی ٹی ورلڈ) کے سی ای او کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی فرم میں باقاعدہ ملازمین رکھے ہوئے ہیں، جو کسی سافٹ ویئر کی مدد کے بغیر ہاتھ سے کلک بڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح گوگل یا فیس بک کے لیے انہیں پکڑنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ سیف الاسلام کے مطابق، ’’ہمارے اکاؤنٹس بالکل اصلی ہیں اور جعلی نہیں ہیں۔‘‘
ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بہت سی مشہور شخصیات کے فین ڈھاکہ میں ہیں۔ ان میں فٹبال کھلاڑی لیونل میسی بھی شامل ہیں، جن کے فیس بک پر 51 ملین فین ہیں۔ اسی طرح فیس بک کے اپنے سکیورٹی پیج کے 7.7 ملین لائیک ہیں اور ان میں ڈھاکہ شہر بہت اوپر ہے اور گوگل کے فیس بک پیج کے فین تقریباﹰ 15.2 ملین ہیں اور بہت سے فینز کا تعلق ڈھاکہ سے ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے فین تقریباﹰ چار لاکھ ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ کا تعلق مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے نئے فین خریدنے کا عمل بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے انسپکٹر جنرل نے اپنے ادارے کو چھ لاکھ تیس ہزار ڈالر خرچ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جعلی کلک مارکیٹ نے ایک نیا کاروبار متعارف کروا دیا ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو

3 comments:

  1. خوب. اس تحریر پر آپ کے لیے بھی پائجامہ

    ReplyDelete
  2. حد ہوگئی. آٹو کریکٹ نے لائیک کو پائجامہ بنا دیا :)

    ReplyDelete
  3. یہ رپورٹ میں نے بھی پڑھی تھی۔ ویسے رپورٹ میں بتائی گئی باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں، یہ کافی پہلے سے چل رہا ہے۔ بہرحال آپ کا شکوہ بجا ہے، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میری، آپ کی یا کسی کی بھی شیئرڈ تحریر، تصویر یا ویڈیو کسی کی نظر سے نہ گزری ہو۔ کیونکہ فیس بک پر ہر چیز ہر دوست کو نظر نہیں آتی، بلکہ فیس بک الگورتھم کے مطابق یہ چند فیصد کو ہی نظر آتی ہے۔

    ReplyDelete