Sunday, 26 January 2014

January 26, 2014
2
نیشنل مشرومز فیسٹیول 2014 کے موقع وہاں ایک خوبصورت شخصیت کی مالک خاتون بہت سارے میگزینزاور پینٹنگز سجائے محفل کی جان بنی ہوئی تھیں۔ طارق تنویر بھائی نے مہمانوں سے تعارف کے سلسلے میں سب سے پہلے ان سے تعارف کروایا۔ محترمہ منزہ جاوید، "فارمنگ ریولوشن" میگزین کی مدیر اعلیٰ، جن کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور خوبصورت شخصیت کےساتھ کینوس پر خوبصورت رنگوں سے کھیلنے اور اُس پر زندگی کی پرپیچ اور تلخ حقائق کو خوشنما انداز سے پیش کرنے کی مہارت بھی رکھتی ہیں۔ 
پچھلے دن راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا تو سوچا لگے ہاتھوں محترمہ منزہ جاوید صاحبہ کے دفتر کا چکر بھی لگا لیں اور اس بہانے ملاقات بھی ہوجائے گی، جب اُن کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو اپنے والد صاحب کو ہسپتال لے جارہی ہیں اور چھٹی پر ہیں مگر پھر بھی اُنہوں نےگھر پرآنے کی دعوت دی۔ ہم جب اُن کے گھر پہنچے تو اُن کے بھائی جناب یاور ماجد صاحب سے ملاقات بھی ہوگئی۔ یاور صاحب پیشے کےلحاظ سے سافٹ ویئر انجینئر ہیں، پچھلے کئی سالوں سے شکاگو میں مقیم ہیں اور بہت اچھی شاعری کرتے ہیں اور "آنکھ بھر آسمان" کے عنوان سے اپنا ایک بلاگ بھی رکھتے ہیں۔ ان کے والد صاحب ماجد صدیقی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ماجد صدیقی صاحب ایک اعلیٰ درجے کے ادیب اور شاعر ہیں۔ اُن کی ناساز طبعیت کی وجہ سے اُن سےملاقات نہ ہوسکی۔
محترمہ منزہ جاوید ایک زرعی ماہنامہ "فارمنگ ریولوشن" کی مدیر اعلیٰ ہیں۔ اُن کا میگزین  زراعت، ڈیری، پولٹری فارمنگ، باغبانی، ماحولیات اور کسانوں کو درپیش مسائل کےمتعلق ہے۔ ان کی ایک ویب سائٹ بھی ہے اور کسانوں کی رہنمائی کے لئے ایس ایم ایس چینل بھی متعارف کروایا ہے جو کہ وقتاً فوقتاً کسانوں کو مفید معلومات، بیماریوں سے آگاہی اوردوسری نئی نئی معلومات پہنچاتا ہے۔ ہماری اُن کے ساتھ ملاقات تقریباً ڈھائی گھنٹے تک رہی اس دوران اُنہوں نے چائےاورد یگر لوازمات سے ہماری خاطر تواضع کی۔ یاورماجد صاحب اور منزہ جاوید صاحبہ سے زراعت اور فارمنگ کی بہت ساری موضوعات پر گفتگو ہوئی اور خاص کر طبعی خواص والے پودوں یعنی میڈیسنل پلانٹس کی افادیت کو اُجاگر کرنے اور اُن کے درست استعمال پر کافی دیر تک باتیں چلتی رہیں۔ ہمارےدوست ذبیح اللہ جو کہ پولٹری فارمنگ ، شتر مرغ فارمنگ، فینسی برڈز اور بٹیر فارمنگ کےشعبے سےوابستہ ہیں نے بھی بحث میں حصہ لیا اوراپنے تجربات کی روشنی میں درپیش مسائل اور کسانوں اور فارمرز کی رہنمائی کےلئے اپنے تجربابت کی بنیاد پر لکھنے کا وعدہ بھی کیا۔ باتوں باتوں میں وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا پھر اُن سے اجازت لی کیونکہ ہم نے واپس پشاور آنا تھا اور اُن کےبھی والد صاحب کی طبعیت ناساز تھی۔ بہت خلوص کے ساتھ اُنہوں نے ہمیں رخصت کیا۔

2 comments:

  1. CAN WE PUBLISH THIS ARTICLE ALSO IN NEWS AND VIEWS

    ReplyDelete
  2. یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ آپ میری تحاریر کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ اپنے موقر اخبار میں اس کو جگہ دینا چاہتے ہیں۔ بہ صدخوشی، میری تحریر آپ کے اخبار کے لئے حاضر ہے۔

    ReplyDelete