Wednesday 29 January 2014

January 29, 2014
اتوار 19جنوری 2014کو پشاور سپورٹس کمپلیکس پشاورصدر (قیوم سٹیڈیم) میں درہ آدم خیل کے علاقے کی دو ٹیموں کے درمیان فٹبال میچ کھیلا گیا۔ یہ فٹبال ٹورنامنٹ علاقئی سطح پردرہ آدم خیل کے مختلف گاؤں کے ٹیموں کے درمیاں کھیلا گیا۔ اس میں وہاں کی 20ٹیموں نے حصہ لیا اور فائنل میں "زور خیل اور سنی خیل" کی ٹیمیں پہنچی جبکہ فائنل سنی خیل کی ٹیم نے جیت لیا۔
درہ آدم خیل پشاور سے کوہاٹ کے درمیان وفاق کے زیر انتظام قبائیلی علاقہ ہے۔ یہ کوہاٹ کے سرحدی علاقے میں شامل ہے۔ اس لئے اس کو ایف-آر کوہاٹ بھی کہتے ہیں۔ درہ آدم خیل کسی فاٹا ایجنسی میں شامل نہیں ہے بلکہ یہ چھ ایف آر پر مشتمل ایک علیحدہ حلقہ ہے۔ درہ آدم خیل اسلحہ کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ درہ آدم خیل ایشیا کی سب سے بڑی اسلحہ مارکیٹ ہے۔ عجب خان آفریدی کا تعلق بھی درہ آدم خیل سے تھا۔ سن 2005 میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے درہ آدم خیل کے اسلحہ کی صنعت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ تا ہم تقریبا 2003 میں درہ آدم خیل میں کوئلہ کی کانوں کی دریافت کی وجہ سے کئی لوگوں کو روزگار کے مواقع ملے ہیں۔ درہ آدم خیل میں کوئلے کی کئی کانیں دریافت ہوئی ہیں۔ (بحوالہ ویکیپیڈیا اُردو

سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے فٹبال کا فائنل میچ درہ آدم خیل میں نہیں کھیلا جا سکتا تھا، اس وجہ سے منتظمین نے فیصلہ کیا کہ پشاورصدر کے "پشاور سپورٹس کمپلیکس " میں فائنل میچ ہو۔ اس میچ کے مہمان خصوصی وہاں کے عوامی نمائندے "جناب قیصرجمال آفریدی" ایم این اے تھے۔
 باقی صوبے کی طرح درہ آدم خیل کی مخدوش حالات کی وجہ سے  وہاں کے نوجوانوں اور بچوں میں ایک سٹریس اور فرسٹریشن پائی جاتی ہے، کھیل کود کے مواقع کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ بڑھتی آبادی، نئی تعمیرات، امن و آمان کی صورتحال اور کھیل کود کے مواقع اور میدانوں کی کمیابی کی وجہ سے نوجوانوں کے لئے مثبت سرگرمیاں محدود سے محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ درہ آدم خیل بھی حالیہ دور کے شورش زدہ علاقوں میں سے ایک ہے جہاں پر باقی بنیادی سہولتوں کی فقدان کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور پچوں کے لئے صحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی ہے۔ ایسے حالات میں وہاں کی علاقئی سطح پر فٹ بال کے میچ منعقد کرنے اور پھر فائنل کو پشاور میں کروانا ایک مستحسن اقدام ہے۔ ان سرگرمیوں کے لئے مقامی کھیلوں کی کمیوٹیوں کے نمائندگان اور وہاں کے ایم این اے جناب قیصرجمال آفریدی تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے انتشار، دہشت گردی اور نامساعد حالات کے باوجود اپنے علاقے کے کھلاڑیوں کی ہر وقت حوصلہ افزائی کی اور اُن کے لئے ایک بہترین ٹورنمنٹ کے انعقاد کو ممکن بنایا۔ فٹ بال میچ دیکھنے اور
اپنے اپنے علاقے کی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لئے آنے والے افراد میں بچے، بوڑھے جوان سبھی شامل تھے۔ بہت سارے بچے ایسے بھی تھے جو کہ پہلی بار پشاور آئے تھے۔ میں نے اُن بچوں کے چہروں پر وہ مسکراہٹ دیکھی جو کھلتی ہوئی کلی بہار کی آمد پر اپنے چہرے پر سجائے ہوتی ہے۔ میں "پاکستان تحریک انصاف" کے اس اقدام کو سراہونگا کہ اُنہوں نے نوجوانوں اور بچوں کی مثبت تفریح کے لئے بہت اچھے اقدامات نہ صرف قومی بلکہ ضلعی اور علاقئی سطح پر بھی کئے ہیں۔ ایم این اے جناب قیصر جمال آفریدی صاحب خود بھی کھلاڑی رہ چکے ہیں اور اُنہوں نے درہ آدم خیل کی مختلف کھیلوں کی ٹیموں کی نہ صرف مالی مدد کی ہے بلکہ اُن کیلئے مختلف مقابلے بھی منعقد کروائے ہیں۔ جناب ایم این اے صاحب ایک مثبت سوچ کے حامل فرد اور اپنے علاقے کے رہنما ہیں،ہمارے ملک کو ایسے ہی جوان قیادت کی ضرورت ہے جو زمانے کے مطابق قدم بڑھا کر اپنی قوم کے جوانوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔
وہاں پر ایک پرانے کلاس فیلوعامر اقبال سے ملاقات بھی ہوئی اور خوشی ہوئی کہ وہ صوبائی ویٹ لیفٹنگ کابینہ کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ اُنہوں نے پشاور سپورٹس کمپلیکس اور یہاں پر منعقدہونے والی کھیلوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور بہت مفید معلومات فراہم کی۔ جس طرح ہماری زندگی کے ہر شعبے میں اندرونی سیاسیت اپنا کردار ادا کرتی ہے اسی طرح کھیل کے میدان میں اور یہاں کی انتظامی معاملات میں بھی یہی قوتیں کارفرماہیں۔ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب بڑے بڑے عہدے سنبھالے یہ لوگ اپنے فرض سے غفلت برتتے ہیں اور تنیجے کے طور پر کھلاڑی متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک میں پہلے ہی کھیلوں کی صورتحال خاصی مایوس کن ہے جبکہ ہمارے پاس کئی عمدہ اور بہترین کھلاڑی موجود ہیں۔ گفتگوکے دوران درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے فٹ بال کے کھلاڑی جناب ساجد آفریدی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اورمقامی سطح پر کھیلوں کی کمیٹی کی ناانصافی اور کچھ افراد کی من مانی کا رونا رویہ مگر کیا کرسکتے ہیں، ہر جگہ پر کچھ نہ کچھ کمی تو ہوتی ہی ہے۔

0 comments:

Post a Comment