Thursday 9 January 2014

January 09, 2014
13
آج کی پوسٹ میں شاید آپ کو میرے الفاظ کچھ اچھے نہ لگیں اور اپنے بزرگوں سے گلے شکوے بھی محسوس ہونگے اگر کسی کے مزاج نازک پر بارِگراں گزرے تو اُن سے معذرت، مگر معاملہ سنجیدہ ہے۔
ماضی قریب و بعید میں کتنے ہی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جب کسی ایک جگہ پر غیر مسلم، مسلمانوں کی کسی متبرک اوراق یا اللہ و رسول (ص) کی شان میں گستاخی کرلیتے ہیں اور پھرمسلمان اپنے ہی املاک کو نقصان پہنچا کرجلاؤ گھیراؤ کا ڈرامہ شروع کردیتے ہیں۔ میرا تو دل خون کے آنسو اُس وقت روتا ہے جب ہم جیسے بے عمل مسلمان اپنے ہی اللہ، نبی(ص) کے نام مبارک اور قرآن و احادیث کی آیات مبارکات کا روزانہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی غفلت اور کاہلی کی وجہ سے بے حرمتی کرتے ہیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ ہمارے خوانچہ فروش حضرات اور خاص کر نانبائی گاہکوں کو روٹیاں، پکوڑے سموسے اور دیگر اشیاء اخبارات کے صفحات میں دیتے ہیں کیونکہ یہ اخبارات اُن کو ردی میں سے بہت ارزاں قیمت پر مل جاتے ہیں۔ اخبارات میں روزانہ، قرآن کریم کی آیات، احادیث شریف اور دینی ایڈیشنز میں تمام مقدس آیات و کلمات چھپتے ہیں۔ کوئی بھی اخبار یہ تکلیف گوارہ نہیں کرتا کہ جلی حروف میں اخبارات اور دینی ایڈیشن کے صفحات پر کسی واضح جگہ پر تنبیہی نوٹ لکھیں۔
میں پہلے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کی گستاخی کرچکا ہوں، اخبارات کے مالکان سے بات بھی کی، اپنی گلی کے نانبائیوں اور دیگر لوگوں کو بھی سمجھایا مگر کوئی خاص مثبت نتیجہ ابھی تک نہیں ملا۔ ہمارے ہر محلے بازار میں انہی اخبارات کےصفحات میں لوگ سودا سلف بیچتے ہیں، روزانہ مقدس آیات و اللہ و نبی (ص) کے ناموں کی بے حرمتی کرتے ہیں مگر پوچھنے والا، سمجھانے والا کوئی نہیں۔ کہاں گئے ہمارے مفتی اعظم پاکستان جن سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی کہ کبھی چاند کی اطلاع کے بغیر بھی قوم سے کوئی خطاب فرما کر یا کوئی فتویٰ عنایت فرما کر ان لوگوں کو سمجھائیں کہ ردی کے اخبارات و رسائل کے صفحات میں کھانے پینے کی اشیاء فروخت نہ کریں کیونکہ ایک تو ہم لوگ مقدس آیات کی بے حرمتی کرتےبلکہ یہ ردی کے کاغذات پتہ نہیں کس حالت میں کہاں کہاں سے گزرکر ان دکانداروں کے پاس پہنچتے ہیں اور صحت کے لئے کتنے نقصاندہ ہیں۔ کہاں گئے ہمارے علماء کرام، کہاں گئے مسجد و ممبر والے، کہاں گئے روزانہ گشت کرنے والے اللہ کی راہ میں سوشلی بلیک میل کرکے زبردستی تبلیغ کی راہ میں سہہ روزہ و چالیس روزہ میں گھسیٹ کر لے جانے والے؟ کیاں ان کو نظر نہیں آتا کہ ہمارے تندور والے ، پکوڑے سموسے والے (باقی کے لوگ بھی) روزانہ کتنی دفعہ آیات مبارکہ، اللہ و رسول (ص) کے باعزت ناموں کی حرمت کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ان باعزت افراد گلہ اس لئے کیا کہ ہمارے معاشرے میں ان کا مقام اور ان کی عزت بہت زیادہ ہے، لوگ ان کی باتوں کو بلا چوں چراں مانتےہیں، ان کی سمجھائی ہوئی باتوں کا لحاظ کرتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں، مگر کیا کہیں ان کو تو اپنے کاموں سے فرصت کہاں جو قوم کی تربیت بھی کریں ورنہ ممبر و محراب کی جو عزت ہمارے ہاں ہے وہ کہیں اور نہیں۔ اس ضمن میں میں پہلے بھی ایک بلاگ پوسٹ لکھ چکا ہوں، جس کے نتیجے میں مذہبی سیاسی پارٹی کے کچھ ارکان ناراض بھی ہوگئے تھے کیونکہ اُن کو مقدس کلمات کی بے حرمتی سے زیادہ اپنے الیکشن کے رزلٹ کی زیادہ فکر تھی۔ 
آج صبح جب میں اپنے نانبائی کی دکان پر کھڑا تھا تو دو دفعہ میں نے اُس کے ہاتھ سے اخبار کا ٹکڑا لیا اور اپنی جیب میں ڈال دیا۔ حسب معمول وہ اپنی خونخوار نظروں سے میری تواضح کرتا رہا کیونکہ میں "ایں وے ہی " اُن کے لئے درد سر بنا ہوا ہوں اور روزانہ جب روٹیاں لینے جاتا ہوں تو اُن کے ساتھ توتو میں میں ہوتی ہے۔ آج پھر یہ واقعہ میرے ساتھ ہوا اور بطور ثبوت تصویر لے لی (تاکہ سند رہے)۔ واضح طور پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جس کاغذ میں مجھے روٹیاں تھما دی گئی تھیں اس میں آیات و نبی (ص) کے نام مبارک نظر آرہے ہیں۔
ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ کیا اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کے بھی صدر اور پارلیمنٹ سے بل پاس کرنے ہونگے؟  مجھے تو بہت افسوس ہوگا جب ہم اب صدر، وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ صاحب سے ان باتوں کی شکایت کریں گے کیوں نہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت ان لوگوں کو سمجھائیں کہ بھئی کم از کم اخبارات و رسائل کے صفحات میں روٹیاں اور پکوڑے سموے سے بیچنے سے پرہیز کریں اور خود بھی باعمل مسلمان ہونے کی کوشش کریں۔
ایک سوال پوچھنا تھا، کیا وہ تبلیغی جماعت جو ہر شام  ہر گھر اور ہر دوکان پر گھومتی ہے اور لوگوں کو اللہ و رسول کے بتائے ہوئے راستے کی طرف بلاتی ہے تو کیا وہ لوگ یہ نہیں کرسکتے کہ ایسے دوکانداروں کو سمجھائیں کہ اخبارات و رسائل میں اپنا سودا سلف نہ بیچیں۔ کیا ہر جمعہ کے خطبہ سے پہلے جو امام مسجد ممبر پر بیٹھ کر وعظ فرما رہے ہوتے ہیں تو کیا وہ یہ ہدایات نہیں دے سکتے؟ کیا بطور اچھے شہری وباعمل مسلمان یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ان جیسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھیں؟ کیا ہمارے اساتذہ کرام سکول، کالج یونیورسٹی ودیگر تعلیمی اداروں میں ان باتوں کو نہیں سمجھا سکتے؟ کیا ہم اپنے بچوں کی تربیت میں اس بات کو شامل نہیں کرسکتے؟ کیا ہم خود اپنے نانبائی اور دوکاندار بھائی کو نہیں سمجھا سکتے کہ اخبارات و رسائل کے صفحات میں چیزیں بیچنے کے بجائے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کریں۔ کیا ہم خود ان میں اشیاء لینے سے انکار نہیں کرسکتے؟
نہیں بالکل نہیں۔ کیونکہ یہ بہت ہی مشکل کام ہے۔  

13 comments:

  1. بہت حساس موضوع ہے۔ لوگ فتنہ انگیزی کیلئے ایسے مواقع ڈھونڈھتے ہیں مگر حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں۔

    ReplyDelete
  2. یہ ایک اہم معاملہ ہے اور اکثر ہی زیر غور رہتا ہے لیکن نانبائی وغیرہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے یہ غلطی ہوتی ہے علم ہندسہ سے کام لیکر اس کا حل نکالا جاسکتا ہے مطلب بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ 786 لکھا جاسکتا ہے ویسے بھی اخبارات کا دور ختم ہورہا ہے اور آئیندہ چند سالوں میں پیپر فری طریقے سے اخبارات آن لائن ہونگے

    ReplyDelete
  3. جزاک اللہ۔۔۔ بہت اہم مسئلے کی طرف نشاندہی کی ہے آپ نے جس کو عام طور پر مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا

    ReplyDelete
  4. Naeem, Please keep writing these kind of important issue.

    ReplyDelete
  5. آپ اپنی جدو جہد جاری رکھیں۔آپ کیلئے یہی کافی ہے۔ جزاک اللہ

    ReplyDelete
  6. اخبار ردی بن کر ہمارے ہی گھروں سے جاتے ہیں اورگھوم پھر کر ہمارے پاس کسی اور صورت میں واپس پہنچتے ہیں۔ اخبار میں دینی باتیں چھپنا ضروری بھی ہے لیکن جہاں تک ہو سکے احتیاط کی جا سکتی ہے۔اور اخبار پڑھنے والے وقت نکال کر صرف ان کو ردی دیں جو اخباری کاغذ کو گتا یا کسی اور مقصد کے لیے ری سائیکل کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  7. ایک نہایت ہی غور طلب مسلئہ ہے، اس ک بارے میں سنجیدگی سے سوچنا اور اس کی روکتھام کے لئے ٹھوس اقدام اٹھانے چاہیے
    میں شکرگزار ہوں نعیم کہ آپ نے اس اہم مسلئے کی طرف سب کی توجہ کر وائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ

    ReplyDelete
  8. بہت اچھی اور فکر انگیز تحریر
    اس میں پہلی سیڑھی کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ پر عام عوام کو اس بارے بار بار آگاہ کیا جاتا رہے۔اور اسی سلسلے میں متعلقہ محکموں میں خطوط ارسال رتے رہیں
    دوسرا ہمیں یہ چاہئے کہ جہاں ہمیں ایسے صفحات یا اخبار یا رسالے کے صفحات نظر آئیں تو اس کو کسی مناسب جگہ رکھیں

    ReplyDelete
  9. آپ نے بہت اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور وہ اس لئے کہ اس سے معاشرے کے عام لوگوں کی سوچ واضع ہوجاتی ہے۔ کہ وہ تجارتی فوائد کے لئے اعتدال پسندی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اگر وہ کسی اخبار میں مقدس آیات دیکھ بھی لیں تو مجبوری کہہ کر آنکھیں چرا لیتے ہیں۔۔۔لیکن دوسری طرف معاشرے میں مذہبی راوادی اور اعتدال کی بات کرو تو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔

    ReplyDelete
  10. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete

  11. یہ مسئلہ اپنی نوعیت کا بہت هی اہم اور توجہ طلب ہے . نانبائی حضرات اس بات سے قطعی طور پر لاعلم هے کہ وہ لوگ کتنی بڑی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں .آپ نے توجہ دلا کر بہت اچها کام کیا هے نعیم خان... اللہ آپ کو جزائے خیر اور ہم سب کو قرانی آیات اور احادیث کے احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں...
    مجهے آپ کے شیئر کئے ہوئے تصویر میں ایک اور خاص بات نظر آئی هے .. جو شاید قابل غور ہے پوری دنیا میں روٹی کی شکل عموما گول ہوتی هے لیکن روٹی کی شکل کو بگاڑ کے عجےب و غریب کر دینا بهی نا انصافی ہے .... اگر آپ اس روٹی کو زرا غور سے دیکهہ لیں تو کیا یہ ایلینز کی شکل نہیں پیش کر رہی ہے
    ...کیا یہ بات رزق کی بے حرمتی کی زمرے میں نہیں آتی؟؟؟

    یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے .. شاید کوئی مجهہ سے اتفاق نہ
    کرے ...
    You done a very good job naeem
    Allah bless you ...

    ReplyDelete
  12. دنیامیں اکژلوگ اللہ کی منشا سے بے خبر ہیں۔ اپ کی فکرنہایت توجہ ٹلب ہے- اللہ پاک اپ کے نیک جزبے کو قبول فرماے

    ReplyDelete